انسانی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں مختلف گروہوں کے درمیان ایک مستقل آویزش کی صورتحال نظر آتی ہے۔ مارکس کے خیال میں تاریخ مختلف سماجی طبقات کے درمیان مسلسل جدوجہد کا نام ہے جس میں طاقت کا حصول مرکزی نکتہ ہے۔ فرانسیسی دانشور بورڈیو (Pierre Bourdieu) کے خیال میں مختلف سماجی طبقات کا مقصد سماجی امتیاز کا حصول ہے۔ اس کے لیے کلچر اور تعلیم اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سماجی بالا دستی کی اس جدوجہد میں بالادستی کے حصول کے لیے بہت سے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ سماج میں کچھ لوگوں کو مرکزی سماجی دھارے سے الگ کرکے انہیں ''غیر‘‘ بنانا ہے۔ انسانی تاریخ میں مختلف سطحوں پر تشکیلِ غیر کا سلسلہ جاری ہے۔ اس عمل میں معاشرے کے زور آور گروہ اپنے اور غیروں کے درمیان پہلے تو حدِ فاصل قائم کرتے ہیں اور پھر مسلسل اس حد بندی کو مضبوط بناتے رہتے ہیں۔ ان حد بندیوں کو مضبوط بنانے کے لیے سماجی اداروں (Social Institutions) کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ان سماجی اداروں میں خاندان‘ تعلیمی ادارے‘ میڈیا اور مذہب کی من مانی تفہیم و تشریح سے کام لیا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں زور آور گروہ مرکز میں اپنی جگہ بنانے کے لیے معاشرے کے کمزور گروہوں کو غیروں میں بدل کر انہیں مرکز سے دور دھکیلتے رہتے ہیں۔ شناخت سازی (Construction of Identity) کے عمل میں زور آور گروہ اپنے لیے ایک پُر شکوہ شناخت تشکیل دیتا ہے اور غیروں کے لیے ایک رُسوا کن (Stigmatized) شناخت تشکیل دی جاتی ہے اور ان مصنوعی شناختوں کی سماجی اداروں کے ذریعے اس قدر تشہیر کی جاتی ہے کہ لوگ ان کو سچ سمجھنے لگتے ہیں۔ سماجی حد بندیوں کی ایک مثال برصغیر میں ذات پات کا نظام تھا جس میں برہمن معاشرے میں اعلیٰ ترین درجے اور شُودر کم ترین درجے پر ہوتے ہیں۔ شُودر کو اچھوت بھی کہا جاتا ہے یعنی وہ چھونے کے قابل بھی نہیں ہوتے۔ شودر ہی کی دوسری شکل غیر (Others) ہیں جنہیں معاشرے کا زور آور گروہ تشکیل دیتا ہے اور پھر اس بات کا اہتمام کرتا ہے کہ ان کے درمیان فاصلہ برقرار رکھا جائے۔ کمزور گروہوں کو سماج کے مرکزی دھارے سے دور رکھنے کی خواہش ہر دور اور ہر معاشرے میں رہی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں سرکاری دفاتر میں سٹاف اور افسروں کے واش رومز علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں۔ پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ایک قانون پاس کیا گیا جس کے مطابق الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کے پاس گریجویشن کی ڈگری ہونا ضروری تھا۔ یوں چشمِ زدن میں ملک کی لگ بھگ 98 فیصد آبادی کو الیکشن میں حصہ لینے کے لیے نا اہل اقرار دے دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں 2008ء کے الیکشن میں حصہ نہ لے سکنے کی وجہ سے بہت سے امیدوار سیاست سے باہر ہو گئے۔
سماجی حد بندی کا ایک طریقہ کسی گروہ کو ایک فاصلے تک محدود رکھنا ہے اور دوسرا اہم طریقہ کسی گروہ کو خاموش کر دینا ہے۔ اس عمل میں کمزور گروہ کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے اور اسے اظہار کے تمام مواقع سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ حد بندی کی سیاست کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ زور آور گروہ یہ سمجھتا ہے کہ ان کی زبان‘ ان کا ادب‘ ان کی تہذیب اور ثقافت سب سے برتر اور اعلیٰ ہے اور کمزور لوگوں (Others) کا ادب‘ زبان‘ تہذیب اور ثقافت فرومایہ اور کمتر ہے۔ زور آور گروہ کا رہن سہن معیار کہلاتا ہے اور کمزور گروہوں کا رہن سہن غیر معیاری کہلاتا ہے۔ کمزور گروہوں کی آواز کو کیسے خاموش کیا جاتا ہے‘ اس کی ایک مثال ماضی میں عورتوں کو ادب سے دور رکھنا ہے۔ عورتوں کو کیا کرنا چاہیے یا کیا نہیںکرنا چاہیے‘ اس کا تعین بھی سماجی ادارے کرتے ہیں جن کا کنٹرول زورآور گروہوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ انگریزی ادب میں عورتوں کی خاموشی کے ان ادوار کے حوالے سے معروف ادیبہ ورجینیا وولف لکھتی ہیں کہ سولہویں صدی کے انگلستان میں جب ڈرامہ نگار اور شاعر بہت متحرک تھے تو عورتوں کی آواز خاموش تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمیشہ قوانین کی تشکیل زورآور گروہ کرتے ہیں۔ یہ قوانین اس طرح بنائے جاتے ہیں کہ یہ زور آور گروہ کے مفادات کی نگرانی کریں اور کمزور گروہ کے مفادات کو سلب کر لیں۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ ضروری نہیں کہ زورآور گروہ کے افراد اکثریت میں ہوں۔ یہ عددی اکثریت نہیں بلکہ طاقت ہوتی ہے جو زورآور گروہ کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ کھیل کے قوانین تشکیل دے۔ زورآور گروہ اپنے سے کمزور گروہوں‘ جنہیں وہ غیر سمجھتے ہیں‘ کے مابین فاصلہ ہمیشہ برقرار رکھتاہے۔ اس کے لیے باہمی اختلاف کو مسلسل نمایاں کیا جاتا ہے۔ ورجینیا وولف کے مطابق‘ ادب میں عورتوں کی خاموشی کی وجوہات میں انگلستان کے قوانین اور وہاں کے رسم و رواج شامل تھے۔
ان وجوہات کے علاوہ بھی دو اور عوامل‘ تعلیم اور زبان‘ بھی خاموشی کے اس عمل میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ تعلیم اور زبان کے عوامل سٹیریو ٹائپس کی تشکیل اور تشہیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان سٹیریو ٹائپس کی بنیاد میں ایک خاص طرح کی درجہ بندی ہوتی ہے جس میں ایک کیٹیگری اچھی اور دوسری بُری ہوتی ہے۔ بُری کیٹیگری میں ہمیشہ کمزور گروہ آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ہم اُردو کی ضرب الامثال اور لطائف کو دیکھیں تو خواتین (جو ایک کمزور گروہ سے تعلق رکھتی ہیں) کو اکثر منفی رنگوں میں پیش کیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ اتنے لطیف اور غیر محسوس طریقے سے کیا جاتا ہے کہ بعض اوقات وہ کمزور گروہ جس کو تختۂ مشق بنایا جا رہا ہوتا ہے‘ بھی اس سارے عمل سے لطف اٹھاتا ہے۔
اب آئیے پاکستان کے نظامِ تعلیم پر نظر ڈالتے ہیں۔ پہلی نظر میں ہمیں پتا چل جاتا ہے کہ پورا تعلیمی نظام الگ سماجی طبقوں میں بٹا ہوا ہے۔ یہ دراصل وہ تعلیمی حد بندیاں ہیں جو خود مختار جزیروں کی شکل میں پورے ملک میں موجود ہیں۔ پاکستان کے تعلیمی نظام میں ایک طرف سرکاری سکول ہیں اور دوسری طرف مہنگے انگلش میڈیم سکول۔ اس کے علاوہ اُردو میڈیم سکول اور سستے انگلش میڈیم سکول اور گلی محلے میں کھلے ہوئے سکول ہیں۔ اس کے علاوہ اشرافیہ (Elite) کے تعلیمی ادارے مثلاً ایچی سن کالج اور لارنس کالج گھوڑا گلی‘ وغیرہ ہیں جہاں محض اشرافیہ کے بچے جاتے ہیں۔ دوسری طرف طلبہ کی ایک کثیر تعداد مدارس میں جاتی ہے جہاں اکثر ان کے طعام و قیام کا بندوبست مفت ہوتا ہے۔ معاشرے میں ان تعلیمی حد بندیوں کو کم کرنے کی ضرورت تھی لیکن پنجاب میں دانش سکولوں کا اجرا کیا گیا جو پہلے سے موجود تعلیمی حد بندیوں میں ایک اور حد بندی کا اضافہ تھا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ تعلیم‘ جس کا اہم مقصد معاشرے میں سماجی اور معاشی حد بندیوں کو کم کرنا ہوتا ہے‘ ان حد بندیوں کو مزید بڑھا رہی ہے۔ پاکستان کی تعلیمی پالیسیوں پر نظر ڈالیں تو معاشرے میں عدم مساوات اور معاشی و سماجی امتیازات جیسے بنیادی مسائل پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم میں حد بندیوں کو کم کیا جائے اور تعلیم کے عمل کو اتنا مؤثر بنایا جائے کہ تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والے طلبہ معاشرے میں مصنوعی حد بندیوں کو چیلنج کر سکیں اور ان حد بندیوں کو کم کرنے کے حوالے سے تخلیقی اور قابلِ عمل لائحہ عمل تشکیل دینے کے ساتھ ساتھ عملی جدوجہد بھی کر سکیں۔