تیس ستمبر کو دنیا بھر میں ترجمے کا دن منایا جاتا ہے۔ ترجمے کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت کا سبب کیا ہے؟ کہتے ہیں کہ ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں فرق دراصل علم کا ہے اور علم کے حصول اور تخلیق کا عمل تعلیمی اداروں میں پروان چڑھتا ہے۔ تعلیم کی بحث میں زبان کا سوال ہمیشہ بنیادی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ زبان کا مسئلہ اس لیے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ لسانی حیثیت کے علاوہ اس کی ایک سیاسی اہمیت بھی ہے۔ دراصل زبان محض خیالات‘ جذبات اور معلومات کی ترسیل کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ یہ معاشرتی سچائیوں کی تخلیق میں بھی بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زبان انفرادی اور قومی سطح پر شناخت کا ایک اہم نشان بھی ہے۔
تعلیم وتدریس کی بحث میں اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ذریعۂ تعلیم کیا ہونا چاہیے؟ خاص طور پر یہ سوال ان ممالک میں زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے جو کسی زمانے میں بیرونی طاقتوں کی کالونی رہ چکے ہوں۔ پاکستان کا شمار بھی اسی طرح کے ممالک میں ہوتا ہے‘ جو 1947ء سے پہلے متحدہ ہندوستان کا حصہ تھا‘ جہاں پر انگریزوں کا تسلط تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں زبان کا مسئلہ ابتدا ہی سے اہم رہا ہے۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد اُردو کو قومی اور انگریزی کو دفتری زبان کا درجہ مل گیا۔ یہاں یہ امر دلچسپی کا حامل ہے کہ اس وقت پاکستان میں آبادی کی اکثریت کی زبان بنگالی تھی اور دوسرا بڑا لسانی گروہ پنجابی زبان کا تھا۔ اُردو محض چند لوگوں کی زبان تھی لیکن اُردو چونکہ تحریکِ پاکستان کے دوران مسلمانوں کی شناخت بن چکی تھی اسی لیے اسے قومی زبان کا درجہ ملا۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد پہلی تعلیمی کانفرنس‘ جو 1947ء میں منعقد ہوئی‘ اس میں بھی ذریعۂ تعلیم اور اردو زبان کی حیثیت کا مسئلہ زیر بحث آیا۔ 1959ء کے شریف کمیشن نے یہ سفارش کی کہ اردو کا 15 سال میں سرکاری زبان کی حیثیت سے مکمل نفاذ ہو جانا چاہیے۔ اس کے مطابق یہ عمل 1974ء تک مکمل ہو جانا چاہیے تھا لیکن اس سے ایک برس پہلے ہی 1973ء کے آئین میں اس مدت میں دس سال کا مزید اضافہ کر دیا گیا۔
اس مختصر تاریخ سے ایک چیز کی تصدیق ہوتی ہے کہ اردو کے حوالے سے زبانی جمع خرچ تو بہت ہوا لیکن اردو زبان کی ترویج اور ترقی کیلئے عملی اقدامات نہیں کیے گئے‘ مثلاً تمام اہم سول اور ملٹری بیورو کریسی میں داخلے کیلئے اردو کے بجائے انگریزی زبان کی شرط عائد ہے۔ اسی طرح پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیوں میں نوکریوں کیلئے بھی انگریزی زبان سے آگاہی لازمی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انگریزی زبان کے مقابلے میں پاکستان کی قومی زبان اردو معاشرتی حوالے سے لوگوں کی پہلی ترجیح نہیں رہی۔ اس کے برعکس انگریزی ایک ایسی زبان کے طور پر ابھری جو طاقت کی علامت تھی‘ جس پر دسترس نوکریوں کے دروازے کھول سکتی تھی اور جس سے وابستگی معاشرے میں ایک اعلیٰ سٹیٹس کی علامت تھی۔
ایک اور اہم فریضہ جس سے حکومتی سطح پر پہلو تہی کی گئی‘ وہ اردو زبان کو دوسری زبانوں کے علم سے روشناس کرانا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور معاشی حوالے سے ثروت مند اور عام لوگوں میں خلیج بڑھتی گئی اور اس میں بھی زبان کا اہم کردار تھا۔ انگریزی‘ جس تک رسائی معاشرے کے ایک محدود حصے کی تھی‘ وہ ثروت مند لوگوں کی زبان بن گئی اور معاشرے کی اکثریت جو انگریزی زبان سے نابلد تھی اس پر جدید تعلیم اور علوم کے دروازے بند ہو گئے۔
اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں ریاستی سطح پر دارالترجمہ قائم کیے گئے تھے جن کا مقصد دوسری زبانوں میں شائع ہونے والی علمی کتب کا ترجمہ کرنا تھا۔ ماضی قریب میں حیدرآباد دکن کی ریاست کا دارالترجمہ اسی روشن روایت کی ایک کڑی تھا۔ کاش پاکستان میں اس روایت کے تسلسل میں کوئی مؤثر دارالترجمہ وجود میں آتا‘ جس میں دوسری زبانوں میں شائع ہونے والی کتابوں اور مضامین کا ترجمہ کیا جاتا اور یوں اُردو کو ذریعۂ تعلیم بنانے کا مشورہ محض سیاسی اعلان نہ ہوتا بلکہ اس خواہش کی عملی تشکیل بھی ہوتی۔
پاکستان میں انگریزی کتابوں اور رسالوں تک لگ بھگ چھ فیصد لوگوں کی رسائی ہو گی‘ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملکی آبادی کی اکثریت ان معلومات تک رسائی حاصل نہیں کر سکتی جو انگریزی زبان میں کتابوں اور تحقیقی مضامین کی صورت میں موجود ہیں۔ معاشرے میں سماجی اور معاشی تفریق کم کرنے کیلئے انگریزی اور دیگر زبانوں میں معلومات تک رسائی ہونی چاہیے۔ اس ساری صورتِ حال میں یہ ضروری ہے کہ ملکی سطح پر دارالترجمہ کا قیام عمل میں لایا جائے۔ یہ کام ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ذریعے کیا جائے تو اس سے لگ بھگ 200یونیورسٹیوں کی براہِ راست خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ دارالترجمہ کے حوالے سے ہمیں کچھ اہم چیلنجز کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے:
1: جس تیزی اور جس پیمانے پر معلومات اور تحقیق کا سفر آگے بڑھ رہا ہے اور کتابیں اور مضامین شائع ہو رہے ہیں‘ اِکا دُکا کتابوں کے ترجمے سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوں گے بلکہ اس کیلئے ہمیں سکیل اور فریکوئنسی میں اضافہ کرنا ہو گا۔ 2: ترجمے کیلئے کون سی کتابیں منتخب کی جائیں اس کیلئے مختلف مضامین کے ماہرین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے‘ جو ترجمے کے عمل میں اہم کتابوں کے چنائو کے حوالے سے اپنی سفارشات پیش کرے۔ 3: ایک اہم نکتہ کتابوں کے کاپی رائٹس حاصل کرنے کا ہے۔ یہ کام حکومتی سطح ہی پر ممکن ہے۔
4: ترجمے کی صحت اور درستی کیلئے ضروری ہے کہ ہر ترجمے کو بغور پڑھ کر اسے verification کے عمل سے گزارا جائے‘ اس کیلئے پہلے سے قائم کسی حکومتی ادارے سے مدد لی جا سکتی ہے۔
5: سکیل (Scale) اور فریکوئنسی کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ٹیکنالوجی کی مدد حاصل کی جائے۔ اس کیلئے معروف آئی ٹی اداروں سے تعاون طلب کیا جا سکتا ہے۔ 6: مشین کے ذریعے ترجمہ تقریباً 70 فیصد تک درست ہوتا ہے‘ اس ترجمے کو مزید بہتر بنانے کیلئے ترجمہ کرنے والوں کی ایک ٹیم کا ہونا ضروری ہے۔ 7: ترجمہ کاروں کی تربیت کیلئے مختصر دورانیے کے کورسز کا اجرا ضروری ہے۔ اسی طرح ترجمہ کاروں کی ایک ڈائریکٹری مرتب کی جائے تاکہ بوقتِ ضرورت ان کی خدمات سے استفادہ کیا جا سکے۔ 8: ترجمہ کے کلچر کے فروغ کیلئے یونیورسٹیوں میں ٹرانسلیشن سٹڈیز ڈپارٹمنٹ کے قیام کی حوصلہ افزائی کی جائے‘ جہاں اس طرح کے ڈپارٹمنٹ قائم ہیں ان کی سرپرستی کی جائے۔ 9: ترجمے کے بعد اہم مرحلہ اشاعت کا ہے۔ ترجمہ شدہ کتابوں کی اشاعت دو طرح سے ممکن ہے۔ ایک تو ان کی سافٹ کاپی ایچ ای سی کی Repository پر موجود ہو تاکہ پڑھنے والا کہیں سے بھی آن لائن ان کتابوں تک رسائی حاصل کر سکے۔ کتابوں کی باقاعدہ اشاعت کیلئے نیشنل بک فائونڈیشن کا تعاون حاصل کیا جا سکتا ہے‘ جس کے قیام کا بنیادی مقصد طلبہ تک کتابوں کی رسائی ممکن بنانا ہی تھا۔
کوئی بھی نیا پروجیکٹ مختلف اداروں کے درمیان ہم آہنگی کا متقاضی ہوتا ہے۔ اگر ہائر ایجوکیشن کمیشن اس میں پہل کرتا ہے تو یونیورسٹیوں کی بڑی تعداد کے ہمراہ وہ وزارتِ تعلیم اور نیشنل بک فائونڈیشن کے اشتراک سے اس خواب کی تعبیر پا سکتا ہے‘ جس کے نتیجے میں علم کے دروازے ان لوگوں کیلئے بھی کھل سکتے ہیں جن کی رسائی عام حالات میں انگریزی یا دوسری زبانوں تک نہیں۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ ترجمہ صرف غیر ملکی زبانوں سے اُردو میں نہیں بلکہ اردو کی اہم کتب کا بھی غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ ہونا چاہیے۔ اسی طرح پاکستان کے مختلف علاقوں میں بولی جانے والی زبانوں کا ترجمہ قومی ہم آہنگی اور یگانگت بڑھانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔