"SSC" (space) message & send to 7575

عرفان بھائی: اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے

یہ اسلام آباد کا قبرستان ہے۔ میرے چاروں طرف پختہ قبروں کی قطاریں ہیں۔ انہی پختہ قبروں کے بیچوں بیچ ایک کچی قبر ہے‘ جسے ابھی تیار کیا گیا ہے۔ یہ میرے بھائی کی آخری آرام گاہ ہے‘ جسے دنیا عرفان صدیقی کے نام سے جانتی ہے۔ تازہ مٹی پر گلاب کے خوش رنگ پھولوں کی چادر ہے۔ نومبر کے غروب ہوتے ہوئے سورج کے رنگ قبر پر بکھرے پھولوں کے رنگوں سے مل گئے ہیں۔ کچھ ہی دیر پہلے اس قبرستان کی جنازہ گاہ میں ہزاروں افراد نمازِ جنازہ میں شریک تھے۔ قبرستان کا ایک منتظم کہہ رہا ہے کہ اس نے یہاں اتنا بڑا جنازہ پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ نمازِ جنازہ میں زندگی کے ہر طبقہ فکر کے لوگ شامل تھے۔ شاعر‘ ادیب‘ ماہرین تعلیم‘ صحافی‘ ریڈیو‘ ٹیلی ویژن آرٹسٹ اور سیاستدان۔ یہ سب عرفان بھائی کو آخری بار الوداع کہنے آئے تھے۔ محبت کی کشش انہیں پاکستان کے مختلف شہروں سے یہاں کھینچ لائی تھی۔ وہ جو فیض نے کہا ہے:
بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے
بہت سے لوگ دوسرے شہروں سے آئے تھے۔ سب کے چہروں پر اداسی تھے۔ کچھ سسکیوں کے درمیان آنسو ضبط کر رہے تھے۔ کچھ لوگ دھاڑیں مار کر رو رہے تھے۔ وہ مجھے گلے ملتے تو عرفان بھائی کے ساتھ اپنی رفاقت کا احوال بتاتے۔ ہر کسی کی یادوں کی گھڑی میں خوشگوار لمحوں کی اشرفیاں بندھی تھیں۔ میت کو لحد میں اتارنے کے بعد اجتماعی دعا کرائی گئی اور پھر لوگ پُرسہ دیتے ہوئے رخصت ہونے لگے۔
اب قبرستان میں مکمل خاموشی ہے۔ میں عرفان بھائی کی قبر کے پاس کھڑا ہوں۔ میری آنکھوں میں اُمڈتے ہوئے آنسوئوں نے اردگرد کے سارے منظر دھندلا دیے ہیں۔ پھر اس دھند سے ایک منظر روشن ہونے لگتا ہے۔ یہ ہمارے گائوں کے گھر کا منظر ہے جس کے کچے صحن میں ہم سب بہن بھائی کھیلا کرتے تھے۔ راولپنڈی سے 45کلومیٹر کی مسافت پر ایک گائوں تھا جہاں ابھی تک بجلی نہیں آئی تھی۔ گائوں کی کچی سڑک پر صرف ایک لاری چلا کرتی تھی۔ ماں کم عمری میں بیاہ کر اس اجنبی گائوں میں آئی تھیں۔ ان کے ہاں پہلا بیٹا پیدا ہوا تو اس کا نام عرفان رکھا گیا۔ یوں عرفان بھائی ہم بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ ہمارے گھر میں ایک بڑا سا کمرہ تھا۔ اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی کوٹھڑی۔ بعد میں ہمارے گھر میں ایک بیٹھک کا اضافہ ہوا۔ بیٹھک کی پیشانی پر عرفان بھائی نے میرے نام کے ابتدائی حروف سے ڈیزائن بنایا۔ تب میں بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اور عرفان بھائی مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔
ہمارے گائوں میں ان دنوں کوئی سکول نہیں تھا۔ گائوں کے قرب وجوار میں تین کلومیٹر کے فاصلے پر ایک سکول تھا جہاں گائوں کے بچے جایا کرتے تھے۔ یوں انہیں ہر روز چھ کلومیٹر کی مسافت طے کرنا پڑتی تھی۔ گرمیوں کی چلچلاتی دوپہروں اور سردیوں کی ٹھٹھرتی ہوئی صبحوں میں عرفان بھائی دوسرے بچوں کے ساتھ سکول جایا کرتے۔ بعد میں چھوٹے بھائی اعجاز اور بہن تسمیہ بھی ان کے ہمراہ ہوتیں۔ والدہ کا خواب تھا کہ ان کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ گھر میں مالی وسائل کی کمی کو ہمارے والدین نے محبت‘ شفقت اور شائستگی سے پُر کیا تھا۔ عرفان بھائی شروع سے ہی پڑھائی میں بہت اچھے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مڈل امتحان کا نتیجہ آیا تو ضلع بھر میں ان کی پہلی پوزیشن تھی۔ اُس دن والدہ کی خوشی دیدنی تھی‘ ان کی آرزو کی کونپل پر پہلا پھول کھلا تھا۔گائوں کے قرب وجوار میں کوئی ہائی سکول نہ تھا۔ اسی لیے عرفان بھائی کے مڈل پاس کرنے کے بعد والدہ نے فیصلہ کر لیا کہ گائوں چھوڑ کر راولپنڈی شہر میں رہائش اختیار کی جائے۔ راولپنڈی میں ہم نے مریڑ حسن میں ایک گھر کرائے پر لے لیا۔ اس گھر کا نمبر CL 4A تھا۔ ہمارے گھر کے پیچھے ریلوے لائن گزرتی تھی۔ جب بھی پٹڑی پر ریل گزرتی ہمارے گھر کی کھڑکیاں لرزنے لگتیں۔ عرفان بھائی کو کرکٹ کا شوق تھا۔ ہمارے محلے میں دو کرکٹ کلب تھے؛ ایک خان کرکٹ کلب اور دوسرا بابو کرکٹ کلب۔ عرفان بھائی بابو کرکٹ کلب کی طرف سے کھیلتے تھے۔ مجھے یاد ہے ایک بار وہ میچ کھیل رہے تھے‘ میں بھی بائونڈری پر بیٹھا میچ دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے اپناسویٹر اتار کر بائونڈری پہ رکھا تھا۔ میچ ختم ہوا تو ہم گھر کیلئے روانہ ہو گئے‘ تب اچانک عرفان بھائی کو سویٹر کی یاد آئی اور ہم ایک بار پھر گرائونڈ واپس چلے گئے‘سویٹر اسی جگہ موجود تھا۔
مجھے گھر کے قریب مریڑ حسن کے سرکاری سکول میں پہلی جماعت میں داخل کرایا گیا۔ میرے ساتھ اعجاز بھائی اور انعام بھائی بھی اسی سکول میں تھے۔ تسمیہ باجی کو گرلز سکول میں داخل کرا دیا گیا۔ بچوں کی تعلیم کے اخراجات کیلئے مالی وسائل درکار تھے لیکن گھر میں عسرت کے دن تھے۔ انہی دنوں کا ذکر کرتے ہوئے عرفان بھائی نے بتایا: ''جانے وہ تنگدستی کی کون سی دہکتی دوپہر تھی جب ماں نے اپنی انگلی سے انگوٹھی اتار کر مجھے دی اور کہا کہ اسے بیچ آئو۔ میں نے حیرت سے اُن کی طرف دیکھا لیکن وہ دوپٹہ اپنی آنکھوں پہ رکھے دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔ شاید یہ چھوٹے بھائیوں میں سے کسی کی کتابوں یا فیس کا معاملہ ہوگا۔ میں بازار گیا تو اُس کی قیمت 25 روپے پڑی۔ دل نہ مانا۔ جان پہچان والے ایک مردِ شریف سے 25 روپے ادھار لے کر ماں کو دیدیے۔ سالوں بعد ماں کا انتقال ہوا تو وہ انگوٹھی اُن کی اُسی انگلی میں تھی‘‘۔
جیسے تیسے پیسوں کا بندوبست ہوا تو عرفان بھائی کو ڈینیز سکول (Denny's School) میں داخل کرایا گیا‘ جہاں سے انہوں نے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ مریڑ حسن کے قیام کے دوران ہی عرفان بھائی نے اِکا دُکا اخبارات میں لکھنا شروع کر دیا تھا۔ ان کے اکثر قاری ان کی بے مثل نثر کے مداح تھے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ انہوں نے لکھنے کا آغاز نثر سے نہیں‘ شاعری سے کیا تھا۔ ان دنوں ''کوہستان‘‘ اور ''تعمیر‘‘ نمایاں اخبارات تھے۔ تعمیر اخبار میں ایک سلسلہ طرحی غزل کا ہوا کرتا تھا جس میں ایک مصرعہ طرح دیا جاتا‘ جس پر قارئین طبع آزمائی کرتے۔ منتخب غزلوں کو اخبار میں شائع کیا جاتا۔ انہی دنوں کا ذکر ہے کہ اخبار میں طرحی مصرح دیا گیا: ''آغازِ محبت میں ہم کو کچھ خواب سہانے آئے تھے‘‘۔ اس مصرع طرح پر لکھی ہوئی عرفان بھائی کی غزل کا انتخاب کیا گیا۔ مصرع پر عرفان بھائی نے یوں گرہ لگائی تھی:
عرفان یہ سچ ہے خوابوں کی تعبیر اُلٹ ہو جاتی ہے
آغازِ محبت میں ہم کو کچھ خواب سہانے آئے تھے
عرفان بھائی کی لکھائی بہت خوبصورت تھی۔اس کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ ہمارے والد محترم معروف خوش نویس اور خطِ نستعلیق کے موجد عبدالمجید پرویں رقم کے براہِ راست شاگرد تھے۔ وہی پرویں رقم جنہوں نے علامہ اقبال کے شعری مجموعوں کی کتابت کی تھی۔ یوں خوش نویسی کا یہ ہنر ہم سب بہن بھائیوں کو ورثے میں ملا۔ یہی وجہ ہے کہ عرفان بھائی کی اردو کی لکھائی دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ کسی نے کاغذ پر موتی پرو دیے ہیں۔
ڈینیز سکول سے میٹرک کے بعد اتنے وسائل نہ تھے کہ وہ کالج میں تعلیم حاصل کرتے۔ اسلئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ عرفان بھائی کو تربیتِ اساتذہ کے پروگرام جے وی (Junior Vernacular) میں داخلہ دلایا جائے تاکہ اس کے بعد فوری نوکری کا حصول ممکن ہو۔ ان دنوں جے وی کا پروگرام لالہ موسیٰ کالج میں ہوا کرتا تھا۔ یوں عرفان بھائی ایک سال کیلئے لالہ موسیٰ چلے گئے۔ کبھی کبھار ان کا خط آتا تو ہم کئی کئی بار اسے پڑھتے۔ ان دنوں ہمیں یوں لگتا تھا جیسے ایک برس کا عرصہ پھیل کر ایک صدی بن گیا ہے۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں