2025ء :ملک چلایا نہیں گھسیٹا

ہاں‘ یہ غلطی نہیں تھی‘ یہ قومی قیمت پر کیا گیا فیصلہ تھا۔ جب آپ بار بار اُنہی چہروں کو دوبارہ اقتدار میں لے آئیں جن کے پاس کارکردگی نہیں‘ صرف کیمرے کے سامنے مکالمے ہوں اور کیمرے کے پیچھے طرم خانوں و نالائقوں کا ٹولہ ہو تو پھر نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ملک چلتا نہیں‘ گھسیٹا جاتا ہے۔ جو ریاست عوام کی تکالیف پر پریشان ہونے کے بجائے اپنے پروٹوکول میں کمی پر پریشان ہو‘ وہ دراصل یہی اعلان کررہی ہوتی ہے کہ اس کی ترجیحات کا مرکز شہری نہیں صاحبِ اعلیٰ ہے۔ معاشی حالات خراب‘ سیاسی حالات خراب تو پھر بہتر کیا ہوا؟ بہتر صرف بیانیہ ہوا‘ بہتر صرف سکرین پر چلنے والا گراف ہوا‘ بہتر ان طرم خانوں کے رہن سہن ہوئے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ تنخواہیں جمود کا شکار رہیں‘ مہنگائی میں اضافہ جاری رہا‘ کاروبار دباؤ میں رہا۔ نوجوان کے پاس روزگار نہیں‘ لوگ پی ایچ ڈی تک کی ڈگریاں لے کر سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہیں۔ اور کیا ہے بس انتظار۔ آپ جسے استحکام کہتے ہیں وہ غریب کیلئے استحکام نہیں‘ استحصال کی مستقل شکل بن گیا ہے۔ بجلی کا بل‘ گیس کا بل‘ پانی کا بل‘ بچوں کی فیس‘ علاج کا خرچ‘ ہر شعبے میں عام شہری کو سزا اور طاقتور کو چھوٹ۔ بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے اعداد و شمار اس بیانیے کو چیر کر رکھ دیتے ہیں۔ گزشتہ دو برس کے دوران تقریباً 16 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ گئے۔ ان میں پانچ ہزار سے زائد ڈاکٹرز‘ 11 ہزار سے زائد انجینئرز‘ 13 ہزار سے زائد اکاؤنٹنٹس‘ نرسیں‘ آئی ٹی پروفیشنلز اور ہنرمند نوجوان شامل تھے‘ یعنی وہ انسانی سرمایہ جس پر کوئی بھی معیشت کھڑی ہوتی ہے۔ اگر حالات واقعی بہتر ہو رہے ہوتے تو یہ ڈیڑھ ملین لوگ خاموشی سے ملک کیوں چھوڑ جاتے؟ یہ محض برین ڈرین نہیں بلکہ ریاستی طرزِ حکمرانی پر عوامی عدمِ اعتماد کا خاموش ریفرنڈم ہے۔ اور پھر سیاستدان اور بیوروکریسی‘ دونوں عوام کو نہیں‘ایک دوسرے کو بچاتے ہیں۔ سیاستدان عوام کی طاقت سے اقتدار میں آتا ہے‘ پھر اقتدار کے نشے میں عوام کو بھول جاتا ہے۔ بیوروکریسی قانون کے نام پر اختیار لیتی ہے‘ پھر اختیار کے نام پر قانون کو مروڑ دیتی ہے۔ اس گٹھ جوڑ میں کام کرنیوالے لوگ ایک ٹیم نہیں ہوتے صرف تالیاں بجانیوالے ہوتے ہیں۔ اصلاحات نہیں ہوتیں صرف اعلان ہوتا ہے‘ اور اعلان ختم ہوتے ہی سب اپنے اپنے قلعوں میں واپس چلے جاتے ہیں۔
ریونیو اور اخراجات کی حقیقت بھی یہی کہانی سناتی ہے۔ ٹیکس کولیکشن میں اضافہ ضرور ہوا مگر بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے سے‘ اور بجلی‘ پٹرولیم‘ سیلز ٹیکس جن کا بوجھ سیدھا عام آدمی پر پڑا۔ اس کے برعکس براہِ راست ٹیکس بھی لیا گیا‘ بڑے زمیندار‘ رئیل اسٹیٹ‘ ہول سیل و ریٹیل وہیں کھڑا رہا۔ یعنی آسان شکار پکڑا گیا‘ طاقتور بچا رہا۔ اخراجات کم کرنے کا دعویٰ کیا گیا‘ مگر غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی نظر نہ آئی۔ قرضوں پر سود کی ادائیگی بدستور سب سے بڑا خرچ رہی‘ جبکہ حکومتی مشینری کے مراعات‘ پروٹوکول اور انتظامی اخراجات جوں کے توں رہے۔ کٹوتی وہاں ہوئی جہاں عوام کو فائدہ ملتا تھا‘ مگر وہاں نہ ہو سکی جہاں کوئی بااختیار بیٹھا ہے۔ اسی وجہ سے عالمی اداروں کے تحفظات معنی خیز ہو جاتے ہیں۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف بار بار اس طرف اشارہ کرتے رہے ہیں کہ پاکستان کی کمزوریاں محض خسارے کی نہیں حکمرانی کی ہیں‘ چھوٹی ٹیکس بیس‘ حکومتی اداروں کا خسارہ‘ توانائی کے شعبے کی ناقص کارکردگی اور اصلاحات کا غیرمستقل نفاذ کیا جاتا رہا۔ عالمی رپورٹس میں بارہا کہا گیا کہ پائیدار نمو کیلئے محض قرض نہیں اصلاحات درکار ہوتی ہیں جو ہمیں نظر نہیں آئیں۔ سچ یہ ہے کہ سالِ رفتہ میں ہم نے کچھ نیا نہیں کیا‘ بس ہاتھ ہی پھیلایا۔ بیرونی ممالک سے قرضے لیے‘ رول اوور کرائے اور اسے کامیابی بنا کر پیش کیا۔ قرض کی ہر قسط کے ساتھ وقتی طور پر ملکی معیشت کی سانس ضرور بحال ہوئی مگر بیماری وہی رہی۔ سرمایہ کاری کے وعدے کیے گئے مگر زمین پر فیصلوں کی رفتار سست‘ ریگولیٹری غیریقینی اور سیاسی شور نے اعتماد توڑا۔
پروٹوکول کا تماشا اس تصویر کو مزید عیاں کرتا ہے۔ صاحبِ اعلیٰ باہر نکلیں تو راستے بند‘ ملاقاتیں منسوخ‘ ہنگامی انتظامات‘ جیسے یہ ریاست نہیں‘ خوف زدہ دربار ہے۔ جہاں عوام کیلئے راستے نہیں بنتے‘ صاحبِ اعلیٰ اور ان کے ہمنواؤں کیلئے راستے صاف کیے جاتے ہیں۔ جہاں مریض ایمبولینس میں تڑپتا رہے اور ٹریفک اپنی جگہ ٹس سے مس نہ ہو مگر جب کوئی صاحب گزرے تو پورے شہر میں لاک ڈاؤن ہو جاتا ہے۔ جہاں عام آدمی کیلئے قانون سخت مگر طاقتور کیلئے صرف پروٹوکول‘ سوال سادہ ہے اگر ایک آدمی کے آنے سے پورا شہر بند ہو سکتا ہے‘ تو پھر غریب کی زندگی کیوں نہیں بہتر ہو سکتی؟ یہی بیوروکریسی ہے جو غریب کیلئے ہر چیز کو پروسیجر بنا دیتی ہے اور طاقتور کیلئے ہر چیز خصوصی ہدایت کے تحت کی جاتی ہے۔ ایسی سیاست عوام کے زخموں پر مرہم نہیں رکھتی سرخیوں پر میک اَپ کرتی ہے۔ اور یہی وہ طرزِ حکومت ہے جس میں ہر بحران کا جواب ایک ہی ہوتا ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں۔ یہ دیکھنا پاکستان میں ایک قومی عارضہ بن چکا ہے اور 2025ء میں اس عارضے نے عام آدمی کی چیخیں نکلوا دیں۔ جب کہا جاتا ہے کہ ٹیم موجود ہی نہیں تو حقیقت یہ ہے کہ ٹیم بننے ہی نہیں دی جاتی کیونکہ ٹیم میرٹ پر بنتی ہے اور یہ نظام میرٹ کا دشمن ہے۔ میرٹ آئے گا تو سفارش مرے گی۔ میرٹ آئے گا تو کمیشن رکے گا۔ میرٹ آئے گا تو ناکام سفارشی و نااہل چہرے ہٹیں گے۔ اسی لیے یہاں ٹیم کے نام پر چند وفادار‘ چند خوشامدی اور چند فائلوں کے جادوگر رکھے جاتے ہیں جو مسئلہ حل نہیں کرتے مسئلہ مینج کرتے ہیں‘ جو عوام کو ریلیف نہیں دیتے عوام کو خاموش رکھتے ہیں۔ سیاسی حالات بھی اسی مصنوعی کنٹرول کا نتیجہ ہیں۔ اختلاف ختم کرنے کا ڈھونگ رچا کر‘ آوازیں دبا کر‘ عوامی رائے کے برعکس فیصلے کرکے‘ یکطرفہ سرویز اور رپورٹس جاری کروا کے‘ ہر چیز کو کنٹرول کرکے اگر یہ سمجھا جائے کہ استحکام آ گیا تو یہ استحکام نہیں قبرستان کی سی خاموشی ہے۔ معاشرہ زندہ ہوتا ہے تو شور ہوتا ہے‘ سوال ہوتے ہیں‘ احتساب ہوتا ہے۔ یہاں شور بند کیا جا رہا ہے‘سوال کو غداری بنایا جا رہا ہے۔ نتیجتاً سیاسی دباؤ بڑھتا اور معاشی اعتماد کمزور ہوتا ہے اور سرمایہ کاری عملی شکل میں ڈھلنے کے بجائے پریزنٹیشن تک محدود رہتی ہے۔ یہی تضاد ہماری اصل شکست ہے۔ ہم دنیا کو بتاتے ہیں کہ پاکستان بہتری کی راہ پر گامزن ہو گیا مگر اپنے شہری کو یقین نہیں دلا پاتے۔ ایک طرف سفارت کاری کی کہانیاں‘ دوسری طرف عدالتوں میں انصاف کی تلاش‘ ایک طرف سٹاک مارکیٹ کی واہ واہ‘ دوسری طرف راشن کی لائنیں‘ ایک طرف اصلاحات کے نعرے‘ دوسری طرف پرانے چہرے‘ پرانے فیصلے‘ پرانی ہٹ دھرمی اور پھر ہم حیران ہوتے ہیں کہ عوام بدگمان کیوں ہیں۔ غریب بچہ آج بھی ہر دن کے سورج کی کرنوں میں اپنے لیے خوشحالی کی روشنی ڈھونڈتا ہے‘ مگر اسے ہر سال بجٹ کی نئی کتاب کیساتھ ایک نئی آزمائش ملتی ہے۔ 2025ء میں بھی اسے بتایا گیا کہ سب ٹھیک ہو رہا ہے مگر اسکے گھر کا چولہا کہتاہے کہ سب کچھ مہنگا ہو گیاہے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں امید زندہ رکھنے کیلئے بھی ہمت چاہیے اور 2025ء نے عوام کی اسی ہمت کو سب سے زیادہ کھایا۔
اب سوال یہ ہے کہ 2026ء میں ہم کچھ بہتری دکھا پائیں گے؟ سب سے پہلا اور بنیادی قدم میرٹ پر ٹیم کا انتخاب کرنا ہے۔ یہ نعرہ نہیں‘ شرطِ اول ہے۔ سیاسی ٹیم ہو یا معاشی ٹیم‘ ریگولیٹرز‘ سرکاری اداروں کے بورڈز سب کو سیاسی کوٹے سے نکال کر پیشہ ورانہ اہلیت سے جوڑنا ہو گا۔ اخراجات کی حقیقی اصلاح یعنی پروٹوکول‘ مراعات اور لایعنی اداروں پر خرچ ہونیوالا پیسہ بند کیے بغیر ٹیکس بڑھانا ظلم ہے۔ آئین کو اپنی مرضی سے تدوین و ترمیم کرنا بند کرنا ہوگا۔ قانون کی بالادستی کی یقین دہانی‘ اختیارات نچلی سطح پر منتقلی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر بڑے انتظامی یونٹس کو چھوٹے انتظامی یونٹس میں تبدیل کرنا ہو گا۔ سچ بولنا اور عوام کو بتانا ہو گاکہ قرض وقتی سہارا ہیں‘ نجات نہیں۔ پروٹوکول والی ریاست نہیں بلکہ ایک شہری ریاست بنانا ہو گی ورنہ ہر سال یہی سوال دہرائے جاتے رہیں گے کہ بہتر کیا ہوا؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں