سڈنی کے بونڈائی ساحل پر ہونے والا دہشت گردانہ حملہ محض چند منٹ کی فائرنگ کا ایک خونچکاں واقعہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک ایسی گرہ ہے جس کے سرے دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ایک پُرسکون اتوار کی شام جب سیاح اور مقامی افراد ساحل سمندر پر سیر وتفریح میں مصروف تھے‘ اچانک گولیوں کی تڑتڑاہٹ نے اس پر امن کو چیر ڈالا۔ چند لمحوں میں وہ جگہ‘ جو زندگی اور خوشی سے چھلک رہی تھی مقتل میں تبدل ہو گئی۔ ابتدا میں یہ واقعہ دنیا کے دیگر دہشت گرد حملوں کی طرح ایک سرخی بن کر ابھرا‘ مگر جیسے جیسے تفتیش آگے بڑھی‘ حقیقت کی پرتیں کھلتی چلی گئیں۔ ہر نئی تفصیل نے نئے سوالات کو جنم دیا‘ اور ہر سوال کا سرا بھارت کے ریاستی کردار سے جا ٹکرایا۔ حملہ آور باپ بیٹا‘ ساجد اکرم اور نوید اکرم‘ کسی ملک کے عام شہری نہیں تھے‘ ان کی شناختیں بکھری ہوئی تھیں۔ ان کے پاسپورٹس سرحدوں کے پار سفر کر چکے تھے اور ان کی زندگیاں ایک ایسے خفیہ جال سے جڑی ہوئی تھیں جو جدید دور کی دہشت گردی کی واضح علامت ہے۔ تحقیقات سے سامنے آیا کہ 50 سالہ ساجد اکرم بھارتی پاسپورٹ پر فلپائن کا سفر کرتا رہا جبکہ اس کا 24 سالہ بیٹا نوید اکرم آسٹریلوی شہریت کا حامل تھا۔ یکم نومبر کو دونوں فلپائن پہنچے اور 28 نومبر کو واپس آسٹریلیا آئے۔ فلپائن میں ان کی آخری منزل جنوبی شہر داواؤ تھی‘ جو منڈاناؤ جزیرے پر واقع ہے۔ یہ ایسا خطہ ہے جو عسکریت پسند سرگرمیوں اور خفیہ تربیتی نیٹ ورکس کے حوالے سے عالمی سکیورٹی اداروں کی نظر میں ہے۔ آسٹریلوی براڈ کاسٹنگ کارپوریشن اور دیگر عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق سکیورٹی ذرائع نے واضح کیا کہ یہ سفر محض سیاحت کی خاطر نہیں تھا۔ جنوبی فلپائن میں شدت پسند گروہوں کی موجودگی‘ خفیہ کیمپوں کی رپورٹس اور ماضی کے تجربات ثابت کرتے ہیں کہ یہ ایک اتفاقی یا بے مقصد سفر نہیں تھا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں بھارت کے ریاستی کردار پر سوال اٹھتے ہیں‘ کیونکہ بھارتی خفیہ ایجنسی 'را‘ پر پہلے ہی مختلف ممالک میں خفیہ کارروائیوں‘ ٹارگٹ کلنگ اور تخریبی سرگرمیوں کے الزامات لگ چکے ہیں۔ عالمی جریدوں اور تحقیقی رپورٹس میں یہ سوال بھی شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ آسٹریلیا کے بعض سکیورٹی حلقوں اور بھارتی خفیہ نیٹ ورکس کے درمیان کیا روابط ہیں۔
اگر یہ محض ایک انفرادی شدت پسند حملہ ہوتا تو بھارتی وزارتِ خارجہ کی جانب سے فوری مذمت سامنے آتی مگر بلومبرگ سمیت کئی معتبر ذرائع کے مطابق بھارت کی جانب سے اس واقعے پر خاموشی اختیار کی گئی۔ یہ خاموشی خود ایک بیان بن چکی ہے اور اس شبہے کو تقویت دیتی ہے کہ یہ حملہ کسی نہ کسی سطح پر ریاستی سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ دوسری جانب بھارتی میڈیا اس معاملے میں محض ناکام نہیں ہوا بلکہ پوری دنیا کے سامنے مکمل طور پر بے نقاب بھی ہو گیا۔ سڈنی واقعے کے بعد جس طرح بھارتی چینلز‘ اینکرز اور نام نہاد دفاعی تجزیہ کاروں نے جھوٹ‘ الزام تراشی اور زہریلے پروپیگنڈے کا ریلا چھوڑا وہ صحافت نہیں بلکہ بدترین ریاستی دلالی کی مثال تھی۔ بغیر کسی ثبوت کے فیصلے سنا دیے گئے۔ پاکستان کو ہدف تنقید بنانے کیلئے فرضی کہانیاں گھڑی گئیں‘ جھوٹ کو اتنی بار دہرایا گیا کہ شاید خود اینکرز کو بھی اس پر یقین آ گیا۔ یہ وہ میڈیا ہے جو تحقیق سے پہلے سکرپٹ لیتا ہے‘ حقائق سے پہلے آرڈر مانتا ہے اور سچ سامنے آ جائے تو یا خاموشی اختیار کر لیتا ہے یا نیا جھوٹ گھڑنے لگتا ہے۔ بھارتی میڈیا نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ اس کا کام خبر دینا نہیں بلکہ نفرت کا بیوپار ہے۔ اینکرز چیختے رہے‘ سکرین پر جنگی ماحول بنایا گیا‘ عوام کو گمراہ کیا گیا اور بین الاقوامی قوانین‘ اخلاقیات اور صحافتی اقدار‘ سب کو روند ڈالا گیا۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ جھوٹ کی عمر ہمیشہ مختصر ہوتی ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرا‘ بھارتی بیانیہ خود اپنے وزن تلے دبنے لگا۔ عالمی میڈیا‘ آزاد صحافیوں اور غیر جانبدار حلقوں نے بھارتی دعوؤں پر سوالات اٹھائے اور یوں بھارتی میڈیا کا سارا شور ایک کھوکھلا ڈرامہ ثابت ہوا۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کا طرزِ عمل بھارتی میڈیا کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ تھا۔محض شواہد‘ دلائل اور میرٹ۔ سڈنی واقعہ بھارتی میڈیا کیلئے ایک یادگار شرمندگی بن گیا‘ جہاں اس کی جعلی حب الوطنی‘ جھوٹی صحافت اور ریاستی غلامی سب ایک ساتھ دفن ہو گئیں۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ شور مچانے سے سچ نہیں بدل سکتا۔
آسٹریلوی حکام نے حملے کے بعد قومی شناخت سے متعلق سوالات پر غیر معمولی احتیاط برتی‘ جو حقائق کو پردے میں رکھنے کی کوشش محسوس ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر غصے اور خوف کی لہر دوڑ گئی‘ خاص طور پر ان تصاویر کے بعد جن میں نوید اکرم کو مبینہ طور پر بندوق تھامے دیکھا گیا۔ یہ مناظر اس بات کا ثبوت تھے کہ انتہا پسندی کسی ایک لمحے میں جنم نہیں لیتی‘ بلکہ یہ برسوں کی خاموش منصوبہ بندی‘ نظر انداز کیے گئے اشاروں اور ریاستی چشم پوشی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ تحقیقات نے یہ بھی واضح کیا کہ نوید اکرم ماضی میں آسٹریلوی انٹیلی جنس کی نظر میں آ چکا تھا۔ چھ سال قبل سڈنی میں ایک مبینہ داعش سیل کی تحقیقات کے دوران اس کے روابط کا جائزہ لیا گیا۔ چند ماہ کی نگرانی کے بعد اس کی فائل بند کر دی گئی۔ ایک ایسا فیصلہ جو آج شدید تنقید کی زد میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب انتہا پسندی کے خدشات واضح تھے تو انہیں جڑ پکڑنے کا موقع کیوں دیا گیا؟ اس کیس کا ایک اور تشویشناک پہلو اسلحہ لائسنسنگ کا معاملہ ہے۔ ابتدا میں دعویٰ کیا گیا کہ ساجد اکرم ایک دہائی سے اسلحہ لائسنس رکھتا تھا‘ مگر بعد میں سامنے آیا کہ 2023ء میں اسے اے؍ بی کیٹیگری کا لائسنس جاری کیا گیا۔ جائے وقوعہ سے برآمد ہونے والے چھ ہتھیار اسی لائسنس پر رجسٹرڈ تھے۔ حکام کا مؤقف ہے کہ لائسنس کے تمام ضابطے پورے کیے گئے تھے‘ مگر عوام ایک بنیادی سوال پوچھ رہے ہیں کہ جس شخص کے گھر میں انتہا پسندی کے واضح آثار موجود تھے‘ وہ قانونی طور پر اسلحہ کیسے رکھ سکتا ہے؟ اکرم خاندان کی ذاتی زندگی بھی تضادات سے بھرپور نظر آتی ہے۔ پڑوسیوں نے اس خاندان کو خاموش اور گوشہ نشین قرار دیا‘ جبکہ پولیس نے ایک کرائے کی پراپرٹی پر بھی چھاپہ مارا جسے حملے سے قبل منصوبہ بندی کے لیے استعمال کیے جانے کا شبہ ہے۔ یہ تمام تفصیلات مل کر ایک ایسی تصویر بناتی ہیں جو کسی ایک فرد کی ذہنی بیماری یا اچانک غصے کا نتیجہ نہیں‘ بلکہ ایک منظم نیٹ ورک کی عکاسی کرتی ہے۔ سڈنی کے سانحے میں ایک لمحہ ایسا بھی آیا جس نے انسانیت کی امید کو زندہ رکھا۔ ایک پھل فروش‘ احمد الاحمد نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ایک حملہ آور سے بندوق چھینی اور کئی جانیں بچا لیں۔ یہ جرأت اس بات کی یاددہانی ہے کہ دہشت کے اندھیروں میں بھی روشنی موجود ہوتی ہے۔ مگر یہ روشنی اس تلخ حقیقت کو نہیں بدل سکتی کہ انتہا پسندی اکثر خاموشی میں پنپتی ہے۔
بونڈائی صرف ایک مقام نہیں‘ بلکہ ایک سوال بن چکا ہے۔ بھارتی پاسپورٹ‘ فلپائن کا سفر‘ ممکنہ عسکری تربیت‘ خفیہ ایجنسیوں کے مبینہ روابط اور عالمی خاموشی بنیادی طور پر یہ سب ایک ہی خونیں داستان میں سمٹ آئے ہیں۔ پاکستان برسوں سے کہتا آ رہا ہے کہ بھارت ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے‘ چاہے وہ مقبوضہ کشمیر ہو‘ پاکستان‘ کینیڈا‘ امریکہ یا یورپ جیسے ممالک۔ سڈنی کا حملہ اس مؤقف کی ایک اور واضح مثال ہے۔ اگر عالمی برادری اور تمام عالمی فورمز نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں اور خاموش تماشائی بنے رہے‘ تو یہ صرف ایک ملک کا مسئلہ نہیں رہے گا۔ مقامات بدل جائیں گے‘ نام مختلف ہوں گے‘ مگر تاریخ خود کو دہرانے میں دیر نہیں لگائے گی۔ سڈنی واقعے کا سبق یہی ہے کہ دہشت گردی کو اس کی جڑ میں پہچانا جائے اور وہ جڑیں اب واضح طور پر بھارتی خفیہ ایجنسی را‘ ریاستی سرپرستی‘ خفیہ نیٹ ورکس اور سیاسی مفادات سے جڑی دکھائی دیتی ہیں۔ اگر ان حقائق کو پردوں میں دفن کیا گیا تو آنے والے دنوں میں ایسے سانحات صرف سرخیوں کی تعداد بڑھائیں گے اور انسانیت ہر بار ایک نئی قیمت ادا کرے گی۔