ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کی حالیہ بریفنگ مسلح افواج کے ترجمان کا روایتی بیان اور صحافیوں سے محض غیر رسمی ملاقات نہ تھی‘ یہ پاکستان کی بقاکا مقدمہ تھا۔ اعداد وشمار‘ حقائق اور اس واضح پیغام کے ساتھ کہ اب فیصلہ کن وقت آ چکا ہے‘ پاکستان رہے گا تو سیاست بھی ہو گی ورنہ دہشت گرد اور ان کے سہولت کار جیت جائیں گے۔ کمرے میں موجود سینئر صحافی جن میں مجیب الرحمن شامی‘ حامد میر‘ کامران شاہد‘ محمد مالک‘ عاصمہ شیرازی‘ منصور علی خان‘ غریدہ فاروقی اور دیگر ملکی و غیر ملکی سینئر صحافیوں نے بھی وہی سنا جو پوری قوم نے سنا۔ پاکستان نے افغانستان سے کہا کہ صرف ایک مطالبہ ہے کہ ا فغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔ جواب میں افغان طالبان نے شرائط پیش کر دیں جس پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغانستان کی شرائط معنی نہیں رکھتیں۔انہوں نے بتایا کہ اس سال 62 ہزار 113 سے زائد آپریشن کئے گئے یعنی روزانہ 208 آپریشنز‘ 1667 دہشت گرد مارے جا چکے‘ جن میں 128 افغان تھے جبکہ حالیہ پاک افغان کشیدگی میں 206 افغان طالبان فوجی بھی ہلاک ہوئے۔ یہ جنگ کسی خیالی دشمن کے خلاف نہیں ہو رہی‘ یہ دشمن پہچانا ہوا‘ سامنے کھڑا ہوا ہے‘ نامعلوم نہیں بلکہ افغانستا ن کی گود میں پل رہا ہے۔ یہاں انتہائی اہم نکتہ یہ ہے کہ خیبر پختونخوا خصوصاً وادی تیراہ میں جنگ بندوق سے کم اور پیسے سے زیادہ لڑی جا رہی ہے اور یہ پیسہ آرہا ہے منشیات کے کاروبار سے۔ پوست کی فصل سے‘12 ہزار ایکٹر پر کاشت ہونے والی منشیات کی آمدنی سے جو فی ایکٹر 18 لاکھ سے 25 لاکھ روپے منافع دیتی ہے اور یہی پیسہ خوارج تک جاتا ہے۔ دہشت گردوں کی آکسیجن یہی منافع ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے ایک اصطلاح استعمال کی: Political Terror Crime Nexus۔
سوالیہ ہے کہ اس گٹھ جوڑ کا کون تحفظ کر رہاہے؟ کیا اسی وجہ سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی مخالفت کی جاتی ہے؟ کیا انہیں اپنی سیاست ملکی بقا سے زیادہ عزیز ہے؟ کس کے مفادات کس سے جڑے ہیں‘ بہت سے چیزیں واضح ہوتی جا رہی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ جملہ کہ اگر افغانستان کے ساتھ محبت جاگ رہی ہے تو وہیں چلے جائیں واضح طور پر ریاستی انتباہ لگتا ہے۔سوال یہ بھی ہے کہ پوست کی کاشتکاری حکومتی ریڈار سے غائب کیوں ہے؟ بار بار آپریشن کرکے سیاسی حکومت کو زمین دینے کے باوجود دوبارہ یہ زمین پھر اسی کاروبار میں کیوں استعمال ہوتی ہے؟ کون ان منشیات فروشوں کو پروٹیکشن دیتا ہے اور بدلے میں ان سے کیا لیتا ہے؟ کیا دہشت گردوں کی سرپرستی کی قیمت وہ بھتہ ہے جو زمین کے مالکان دہشت گردوں کو دیتے اور اس کے بدلے میں اُن سے پروٹیکشن لیتے ہیں۔مگر یہی پیسہ دہشت گردی میں استعمال ہوتا ہے۔ ضلع خیبر اور تیراہ میں 198 پاکستانی شہید وزخمی ہوئے ہیں ان کی لاشوں پر کون سیاست کر رہا ہے؟
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ افغانستان کے ایک صوبے کے ڈپٹی گورنر مولانا غلام محمد احمدی کا بیٹا بدر الدین پاکستان میں حملوں میں ملوث پایا گیا۔ یہ ثابت شدہ مداخلت ہے جس کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک بار پھر واضح کیا کہ ٹی ٹی پی افغان طالبان کی شاخ ہے اور اس کے تانے بانے ڈھکے چھپے نہیں ۔ اب بھی اگر کوئی دہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ رکھے یا سہولت کاری کرے تو یہ ریاست کے خلاف سرکشی تصور کی جائے گی ۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھارت کو بھی واضح پیغام دیا کہ وہ زمین‘ فضا یا سمندر جہاں مرضی حرکت کرے اس بار جواب پہلے سے زیادہ شدید ہو گا۔ یہ پیغام صرف دشمن کیلئے نہیں بلکہ ان دوست نما دشمنوں کیلئے بھی ہے جو کمزوری کے نعروں میں ریاستی شہ رگ کا سودا کرتے ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ فوج کا کام سیاست نہیں لیکن اگر سیاست دہشت کے قدم چومنے لگے تو پھر فوج خاموش نہیں رہ سکتی۔انہوں نے بتایا کہ ہم بیانیہ نہیں بناتے‘ حقائق رکھتے ہیں اور جو حقائق انہوں نے قوم کے سامنے رکھے ان کو دیکھنے کے بعد واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ملک اندرونی غداروں اور بیرونی دہشت گردوں کے بیچ پھنس چکا ہے۔ یہ جنگ ٹی وی سٹوڈیوز کی بحث نہیں بلکہ یہ پاکستان کے وجود کی جنگ ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب فیصلہ سیاسی قیادت کرے گی؟ جی ہاں! لیکن سوال یہ ہے کہ کون سی قیادت؟ ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح پیغام دیا کہ دہشت گردی پر سیاست نہ کریں کیونکہ یہ روش جاری رہی تو پھر فیصلہ ریاست کرے گی اور فیصلہ کسی حکومت کی پروا کئے بغیر ہو گا۔ڈی جی آئی ایس پی آر سے جو سوالات پوچھے گئے ان کا جواب انہوں نے ثبوتوں کے ساتھ دئیے ۔اسی بریفنگ میں یہ بھی معلوم ہوا کہ کیسے افغان طالبان بھارت کے ساتھ مل کر فیک نیوز پھیلا رہے ہیں۔ سب سے بڑی فیک نیوز یہ تھی کہ پاکستان اور امریکہ نے کوئی خفیہ معاہدہ کیا اور پاکستان نے امریکہ کو افغانستان پر ڈرون حملوں کی اجازت دے دی۔حالانکہ اس میں کوئی صداقت نہیں۔ جعلی خبریں پہلے افغان سوشل میڈیا پر اور پھر وہاں سے افغانستان کے چینلز پر آتی ہیں اور ان کو لے کر بھارتی میڈیا میں چیخ و پکار شروع ہوتی ہے تو انٹرنیشنل میڈیا بھی بھارتی میڈیا کی جعلی خبر کو لے کر پھیلاتا رہا۔ فیک نیوز کی فیکٹریاں بھی پکڑی گئیں۔ ایسی ایک نہیں کئی مثالیں ہیں یعنی ابتدا میں مقامی سوشل میڈیا چینلز پر جھوٹ گھڑا جاتا ہے‘ پھر اسے مقامی ٹی وی اور آن لائن چینلز کے ذریعے ہوا دی جاتی ہے‘ اس کے بعد اسے بین الاقوامی میڈیا کو فیڈ کیا جاتا ہے‘ نتیجہ ایک جعلی منظرنامہ‘ جسے دشمن ریاستی کمزوری کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس سارے عمل میں فیک نیوز پروڈیوسرز‘ سہولت کار اور بیرونی پراکسیز شامل ہوتے ہیں۔ یہ فیک نیوز سماج اور سیاست کو غیر معمولی طور پر متاثر کرتی ہے ۔اس سب کی کڑیوں کو جب پکڑا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ جعلی خبریں منظم منصوبہ بندی کے تحت پھیلائی جا رہی تھیں اور یہ بات ریاستی سلامتی کے نقطہ نظر سے انتہائی خطرناک ہے۔
آج پاکستان دو راہے پر کھڑا ہے؛سب کو چاہیے کہ دہشت گردی کے خلاف متحد ہو جائیں ۔ ریاست کو دشمن کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے پھرسیاست کہاں بچتی ہے۔ یہ وقت اتحاد کا ہے‘ یہ وقت فوج کے پیچھے کھڑے ہونے کا ہے‘ یہ وقت غور کرنے کا ہے کہ ہم پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں یا خلاف ۔ یاد رکھیں‘ امن ہوگا تو سیاست ہو گی اور اگر امن دشمنوں سے ہاتھ ملائے کھڑی سیاست نہ سمجھے تو یہ ریاست کے خلاف جرم ہوگا۔یاد رکھیں پاکستان مقدم ہے‘ باقی سب اس کے بعد!
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے صحافیوں کو سوالات کا کھلا موقع دیا۔ سخت سوالات بھی ہوئے جن کا انہوں نے پُراعتماد انداز سے ٹھوس شواہد کے ساتھ جواب دیے۔ یہ اعتماد بتا رہا تھا کہ جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے وہ حقائق پر مبنی ہے اور پاکستان اپنی پوزیشن پر پوری مضبوطی سے ڈٹا ہوا ہے۔ ایسے میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کیونکہ ریاست کے پاس دلیل بھی ہے اور قوتِ عمل بھی!