ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں صبح کے پروگرام‘ ٹویٹر سپیسز اور چائے خانوں کی گفتگو کا مرکزی موضوع کرپشن ہے۔ کوئی کہتا ہے پولیس کرپٹ‘ دوسرا کہتا ہے عدلیہ‘ تیسرا کہتا ہے بغیر سفارش نوکری نہیں ملتی اور چوتھا کہتا ہے یہ ملک ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ مگر سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ یہی گفتگو اگلے لمحے اسی معاشرے میں کام نکلوانے کے لیے لفافہ‘ سفارشی فون اور پیغام کے ساتھ تبدیل ہو جاتی ہے۔ ہم کرپشن کا رونا سب سے زیادہ روتے ہیں اور کرپشن میں حصہ بھی سب سے پہلے ڈالتے ہیں۔ جیسے پوری قوم بیماری میں مبتلا ہو اور دوا کے بجائے خوشبو سونگھ کر علاج تلاش کر رہی ہو۔ لیکن اصل صدمہ وہ نہیں جو ہم سنتے ہیں‘ بلکہ وہ ہے جو سرکاری دستاویزات میں لکھا ہوا سچ ہے۔ وزارتِ خارجہ کی حالیہ آڈٹ رپورٹ وہ آئینہ ہے جس میں پاکستان کا سفارتی چہرہ نہیں بلکہ بے نقاب احتساب نظر آتا ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ جن مشنز سے دنیا پاکستان کا تعارف پاتی ہے‘ وہاں بے قاعدگی کا بازارگرم ہے۔ 16 کروڑ 50 لاکھ روپے سے زائد رقم سرکاری اکاؤنٹ سے نکال کر ایک انتہائی اہم افسر نے اپنی بیوی کے اکاؤنٹ میں منتقل کر دی۔ جواب؟ محض اتنا کہ یہ سہواً ہو گیا تھا۔ اسی رپورٹ میں ایک اور حیران کن انکشاف ہے کہ ایک سرکاری مشن نے ایک کروڑ 29 لاکھ روپے کا بجلی بل ادا کرنا تھا مگر سات کروڑ 15 لاکھ روپے ادا کر دیے گئے‘ وجہ یہ لکھی گئی کہ فنڈ لیپس نہ ہو جائیں۔ مزید کیا کمالات ہیں پڑھتے جائیں‘ بیرونِ ملک عمارتوں کی سکیورٹی ڈپازٹ کے تقریباً چار کروڑ روپے واپس نہیں لیے گئے‘ اور نہ کسی نے پوچھا۔ میڈیکل ری امبرسمنٹ کا ریکارڈ دیکھیں تو کہانی اور بھی دلچسپ ہو جاتی ہے۔ کچھ کیسز تو ایسے ہیں کہ ہسپتالوں کی پرچیاں بھی جعلی نکلیں‘ کلینک موجود ہی نہیں‘ انوائس ایکسل شیٹ میں ٹائپ شدہ نکلیں۔
رپورٹ میں لکھا ہے کہ ویزہ فیس کی ری کنسلیشن کئی مقدمات پر نہیں ہوئی‘ نقد وصولی کا ریکارڈ ادھورا‘ رسید بک غائب‘ گویا جس نے لیا لے گیا۔ کسی دفتر میں آڈٹ ٹرائل تک نہیں‘ کسی میں اپروول فائل لاپتا ہے‘ کہیں سٹاف کے دوروں کو سرکاری ٹریننگ بنا کر فیملی ٹور کرایا گیا۔ اگر یہ مثالیں ایک وزارت کی ہیں تو سوچیے دیگر وزارتیں کتنا بوجھ اٹھاتی ہوں گی؟ ابھی ستمبر میں اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران جو روم بک کرائے گئے ان سے متعلق بھی رپورٹ منظر عام پر آنی چاہیے‘ غریب عوام کو اندازہ ہو کہ کس طرح ملک کے بادشاہ سوئمنگ کیلئے الگ سے ہزاروں ڈالر میں روم بک کراتے ہیں‘ مگر وہ خالی ہی رہ جاتا ہے‘ کیا کریں سوئمنگ بھی نہ ہوئی اور ہزاروں ڈالر بھی خرچ ہو گئے۔ دوسری جانب آئی ایم ایف کی رپورٹ سامنے ہے جو کہتی ہے کہ پاکستان کی گورننس کمزور‘ ٹیکس نظام میں دراڑیں‘ پالیسی پر مخصوص طبقہ حاوی اور پروکیورنمنٹ میں بے قاعدگی۔ آئی ایم ایف یہ نہیں کہہ رہا کہ پاکستان ناکام ہے‘ بلکہ یہ کہ پاکستان کی ترقی کو کرپشن کا ہاتھ گلے میں پھندا ڈالے کھڑا ہے۔ پھر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا نیشنل کرپشن پرسیپشن سروے آتا اور عوام کا فیصلہ سنا دیتا ہے۔ پولیس سب سے زیادہ بدعنوان‘ پھر ٹینڈرنگ اور پروکیورنمنٹ‘ عدلیہ۔ 77 فیصد عوام حکومتی اینٹی کرپشن پالیسیوں سے غیر مطمئن ہیں‘ 78 فیصد مطالبہ کر رہے ہیں کہ نیب اور ایف آئی اے کا بھی احتساب ہو‘ صحت کے شعبے میں 67 فیصد کرپشن کو عوام کی زندگی کیلئے خطرہ سمجھتے ہیں‘ یعنی ڈاکٹر شفا دیتا ہے‘ نظام زہر ہو چکا ہے‘ لیکن اگر آپ مارکیٹوں میں جائیں اور چھوٹے سرمایہ کاروں سے بات کریں تو وہ کہیں گے یہاں کاروبار نہیں چل سکتا یہاں فائل پیسے مانگتی ہے‘ سرمایہ کار بیرونِ ملک منتقل ہو رہے ہیں‘ آئی ٹی سے تعلق رکھنے والے باہر جا رہے ہیں‘ نوجوان کی خواہش بیرون ملک کی ٹکٹ ہے نہ کہ کاروبار کا لائسنس۔ کیونکہ این او سی فیس‘ اجازت فیس‘ انسپکشن فیس اور سب سے بڑا ٹیکس‘ ہر کام میں غیر رسمی فیس جو کیش اور تحائف کی صورت میں لی جاتی ہے۔ ای ٹینڈرنگ بھی مذاق بن گئی‘ آن لائن سسٹم ضرور آیا مگر فیصلہ اب بھی میز کے نیچے ہوتا ہے۔ پہلے آئی ٹی کا کمال یہ ہے کہ بولی کے وقت جس کو چاہو Hidden کر دو اور بعد میں Hidden سے ہٹا دو۔ معاملہ یہاں پر ہی نہیں رکتا‘ ہر قدم پر کمال ٹیکنیکل طریقے سے گڑبڑ گھوٹالا ہے۔ مجال ہے کوئی اس کا فرانزک آڈٹ کروانے پر فوکس کرے۔ بلوچستان میں سکول فرنیچر کا بجٹ خرچ مگر سکول بیٹھک پر قائم ہے۔ خیبر پختونخوا میں سڑک بارش میں بہہ گئی مگر کمپلیشن رپورٹ مکمل۔ سندھ میں ویکسین کی خریداری ہوئی مگر بچے ٹیکے کے بعد بھی بیمار۔ سندھ میں سوالات اٹھتے ہیں کہ مبینہ طور پر ہر کام میں ریٹ مقرر ہیں‘ یقین نہیں آتا تو سندھ میں جا کر دیکھ لیجیے۔ ہر کام کا ریٹ کم از کم 15 فیصد سے لے کر 40 فیصد تک مقرر ہے۔ جو آواز اٹھائے گا اس کا کام تو دور کی بات‘ مکمل پابندی عائد ہو جائے گی۔ اس لیے کوئی آواز بھی نہیں اٹھاتا مگر سوالات اٹھتے رہتے ہیں۔ پنجاب کی بات کر لیں تو عوام کہتے ہیں کہ نظام بدبودار ہے اور حکومت کہتی ہے خوشحال۔ وفاق کی بات کریں تو وزیراعظم کا حکم کہ سولر سے بھرے اربوں روپے کے ٹرک پورٹ پر کھڑے تباہ ہو رہے ہیں‘ وجہ کیا ہے کہ کسی کو تو نوازنا ہے۔ یہ معاملات کوئی آسان نہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف پہلے حکم دیتے ہیں کہ ان کو نیلام کر دو مگر کئی ماہ گزر گئے چیئرمین ایف بی آر اس پر عملدآمد کرانے سے گریزاں ہیں کیونکہ نیچے افسران ایک دوسرے سے پنگ پانگ کھیل رہے ہیں‘ جس کا پیسہ آتا ہے وہ نیلامی تو دور پورٹ سے بھی کلیئر ہو جاتا ہے۔ یہ ہے وہ نظام جس کی ہم باتیں کرتے نہیں تھکتے۔ اسی دوران ہم ٹی وی پر بحث کر رہے ہیں کہ کس پارٹی پر پابندی لگے گی‘ کس رہنماکو غدار کہا جائے‘ کون کتنے لوگ لا سکتا ہے‘ کون محب وطن ٹھہرتا ہے‘ کس کی خواہش پر کس ادارے کی پگڑی اچھالنی ہے۔ حکمرانوں نے سلطنت سنبھالنی ہے مگر کام نہیں کرنا۔ کس صوبے کے عوام اس وقت دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں کہ خدارا کسی شخص کی فرمائش پوری کرنے کے بجائے ہمارے صوبے پر فوکس کریں‘ خدارا اپنی ضد ختم کرکے صوبے اور ملک کی ترقی پر فوکس کریں۔ یہ کرپشن کے کارخانے ختم کرنے پر کام کریں‘ قوم ڈوب رہی ہے اور ہم ڈوبنے والے جہاز پر کرسیوں کی ترتیب بدل رہے ہیں۔
اب آتے ہیں اس بڑے جملے پر جو روز سننے میں آتا ہے کہ ہم نے ملک کو ترقی کی راہ پر لانا ہے ۔ چین جیسے ماڈل سے متعلق بھی کچھ آوازیں آرہی ہیں۔ مگر کیا ہم چین کی پہلی شرط قبول کرنے کو تیار ہیں؟ وہ شرط کیا ہے؟ زیرو ٹالرنس ٹو کرپشن۔ چین میں بیورو کریٹ رشوت لے تو سزا‘ سیاستدان فنڈ کھائے تو پھانسی۔ ہم اس ماڈل کا خواب تو دیکھتے ہیں مگر قربانی کا حصہ چھوڑ دیتے ہیں۔ ہمیں چین کا ماڈل چاہیے تو پھر ملک کو تباہی کے دہانے پر لانے والوں اور کرپٹ سیاستدانوں اور ان سے متعلقہ افراد کو کٹہرے میں لانا ہو گا۔ نیب اور ایف آئی اے سمیت تمام متعلقہ اداروں اور خود وزرا کا احتساب کرنا ہو گا۔ بیوی کے اکائونٹ میں پیسے ڈالنے والے کا احتساب کرنا ہو گا‘ جعلی میڈیکل بلوں کی ریکوری عوام کو بتانا ہو گی‘ ای ٹینڈرنگ کا فرانزک آڈٹ کرنا ہو گا‘ مشنز کا خرچہ پبلک کرنا ہو گا۔ اگر ہم واقعی چینی ماڈل چاہتے ہیں تو پھر صرف نعرہ کافی نہیں‘ گردن میں قانون کا لوہا باندھنا ہو گا‘ ورنہ یہ حقیقت مان لیں کہ ملک سیاست سے نہیں بدعنوانی کے بوجھ سے ڈوبتے ہیں۔ یہ قوم غدار ڈھونڈے میں مصروف ہے جبکہ اصل دشمن سامنے کھڑا ہے۔ رشوت‘ سفارش‘ ملی بھگت‘ کمیشن‘ ٹینڈر مافیا اور خاموش مجرمانہ نظام ہے۔ ہم چینی ماڈل کے جہاز پر بیٹھنے کی خواہش رکھتے ہیں مگر کرپشن کی زنجیروں میں بندھے ہوئے ہیں۔ جب تک یہ زنجیر نہیں ٹوٹتی ہم خواب دیکھتے رہیں گے ترقی نہیں کر سکیں گے۔