"RKC" (space) message & send to 7575

خان کو داد دینا تو بنتا ہے

بڑے عرصے سے سب بھولے ہوئے تھے کہ قوم سڑکیں بنانے سے عظیم نہیں بنتی‘ اب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے ایک دفعہ پھر یہ یاد دلا دیا ہے۔ اپنے دورۂ لاہور کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ٹھیک ہے لاہور لاہور ہے اور یہاں بہت ترقی ہوئی ہے لیکن قوم سڑکیں بنانے سے ترقی نہیں کرتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لیڈر عمران خان کا یہی ویژن ہے۔ اگر آپ آفریدی صاحب کی بات کو ذرا گہرائی میں سمجھیں تو وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے لیڈر کا اتنا ہی ویژن ہے۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ قوم سڑکیں بنانے سے ترقی نہیں کرتی بلکہ ان کا کہنا تھا چونکہ میرا لیڈر یہ سمجھتا ہے لہٰذا میں ان کی بات کو تسلیم کرتا ہوں۔ ورنہ تو وہ سیدھا کہتے کہ سڑکیں نہیں ہونی چاہئیں کیونکہ سڑک سے ترقی نہیں ہوتی۔
پہلے میں یہ سب باتیں عمران خان کے منہ سے سن کر حیران ہوتا تھا کہ یہ کیسی سوچ ہے اور پھر جب عمران خان کے حامی اس بیان پر جھوم کر اس کے فوائد گنواتے تھے تو میں پریشان ہو جاتا کہ کیا ہم گھاس پھوس کھاتے ہیں کہ ایسا سوچتے ہیں کہ قوم کو ترقی کیلئے سڑکوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مجھے اکثر حیرانی ہوتی کہ ہمارے خطے کے لوگوں کا کیا ذہنی معیار ہے کہ انہیں کوئی بھی گولی دے کر بیوقوف بنا لیتا ہے اور وہ بن جاتے ہیں۔ سادگی ہے یا بیوقوفی بہرحال اس معاملے میں پاکستانیوں اور ہندوستانیوں نے ایک جیسا ڈی این اے پایا ہے۔ اگر کسی قوم کی ایک بڑی اکثریت کو یہ یقین دلا دیا جائے کہ ہمیں سڑکوں کی ضرورت نہیں اور ہم سڑکوں کے بغیر ہی بڑی قوم بن کر دکھائیں گے تو اس قوم پر باہر سے آنے والے حملہ آوروں کیلئے حکمرانی کرنا کتنا مشکل ہوتا ہو گا؟ گورے اتنی دور سے چلے اور انہوں نے تیس‘ پینتیس کروڑ ہندوستانیوں پر ڈیڑھ‘ دو سو سال سے زائد حکمرانی کی اور خوب لوٹا۔ جب میں نے The Anarchy کتاب پڑھی تو مجھ پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ کیسے لندن کے چند سو تاجروں نے پورے ہندوستان کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ لندن کے چند تاجروں کی ایک کمپنی نے صرف 40 سال میں پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیا تھا۔ اور مزے کی بات ہے کہ اس کمپنی کے دو لاکھ فوجی ہندوستانی تھے۔ بنگال سے یہ تاجر شروع ہوئے اور ایک دن دلّی پر قبضہ کر لیا۔ انہیں سمجھ آ گئی تھی کہ اس خطے کے لوگوں کا آئی کیو لیول بہت کم ہے‘ ان میں سمجھ بوجھ کی شدید کمی ہے۔ یوں دھیرے دھیرے انہی ہندوستانیوں کی فوج تیار کی اور انہی کی مدد سے ان کے ملک پر قبضہ کر لیا اور ان پر حکمرانی شروع کر دی۔
ہندوستان ہر دور میں امیر خطہ رہا۔ ہزاروں سال سے حملہ آور اسے لوٹتے رہے اور آج تک لوٹ رہے ہیں لیکن اسے کچھ نہ ہوا۔ دریاؤں کی اس سرزمین کے لوگ کبھی بھوکے نہیں مرے‘ نہ ہی غریب ہوئے ہیں۔ اس لیے آج جب میں لوگوں کی یہ باتیں سن کر کہ سب پاکستان کو لوٹ رہے ہیں‘ اس کا کچھ نہیں بچے گا‘ مست رہتا ہوں تو حیرانی سے دوست پوچھتے ہیں کہ کیا تمہیں ایسا نہیں لگتا‘ تم پر اس لوٹ مار کا کوئی اثر نہیں ہوتا؟ میں کہتا ہوں کہ بعض انکشافات آپ کی نیندیں حرام کر دیتے ہیں تو بعض آپ کو سکون کی نیند بھی فراہم کرتے ہیں۔ اگر اس خطے کو دنیا بھر کے لٹیروں نے لوٹا پھر بھی یہ ہزاروں سال سے ویسے کا ویسا چل رہا ہے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ آج کے لٹیرے حکمرانوں کی لوٹ مار سے بھی اس پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔ دوسرا‘ سلطنتِ برطانیہ اسے جتنا لوٹ کر گئی کسی کو اس کا اندازہ نہیں ہے مگر اس کے باوجود یہ خطہ سلامت ہے۔ برطانیہ نے اپنی غربت ہندوستان کی دولت سے دور کی تھی۔ خام مال سارا ہندوستان سے جاتا تھا اور مشینیں وہاں چلتی تھیں۔ ہمارے آج کے لیڈرز کتنا لوٹ لیں گے۔ کیا وہ رابرٹ کلائیو سے بھی زیادہ پیسہ لوٹ کر برطانیہ لے جائیں گے جس کے بارے بتایا گیا ہے کہ وہ ہندوستان سے جاتے وقت اپنے ساتھ اُس وقت کے دو لاکھ 34 ہزار پاؤنڈز کے برابر دولت لے گیا تھا اور وہ یورپ کا امیر ترین شخص تھا۔ بنگال کے نواب کو جب جنگِ پلاسی میں شکست ہوئی تھی تو کلائیو نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو لندن میں 25 لاکھ پاؤنڈز کے برابر دولت ٹرانسفر کی تھی‘ جو اُس وقت ایک خطیر رقم تھی۔ یہ دولت صرف بنگال کے نواب کی تھی جو ایک سو کشتیوں پر لاد کر نواب صاحب کے مرشد آباد محل سے دریائے گنگا کے ذریعے فورٹ ولیم بھیجی گئی جو کلکتہ میں کمپنی کا ہیڈکوارٹر تھا‘ اور وہاں سے لندن بھیجی گئی۔ پلاسی کی اس جنگ میں گوروں نے دھوکے اور رشوت دے کر نواب کے قریبی لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ جنگِ پلاسی نے سارا نقشہ ہی بدل دیا تھا۔
ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کی ذہنی قابلیت کا اندازہ لگانا ہو تو کلائیو اور مغل حکمران شاہ عالم کے درمیان ہونے والے معاہدے کو پڑھ لیں‘ جس معاہدے پر شاہ عالم نے خوف کے مارے دستخط کیے تھے۔ اس کے بارے مؤرخین کا کہنا ہے کہ وہ اتنی جلدی نہیں کرنا چاہیے تھا جتنی جلدی شاہ عالم نے دکھائی تھی۔ لیکن شاہ عالم بھی تو ایک ہندوستانی ہی تھا۔ جس معاہدے کیلئے بڑے بڑے قابل مشیروں اور وزیروں کی ضرورت تھی‘ وہ کلائیو کے ٹینٹ میں اتنی دیر میں طے پا گیا تھا جتنی دیر میں کوئی گڈریا اپنے بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کا سودا کرتا ہے۔ کمپنی بھی مزے کا کاروبار کررہی تھی۔ چین کو وہ سمندر کے ذریعے افیم سپلائی کررہی تھی تو واپسی پر یورپیوں کے لیے چائے اور مسالے لے آتی تھی۔ پھر وہی افیم جنگ کی وجہ بنی اور بعد میں امریکن وار کے نظارے بھی دیکھے جو بوسٹن ہاربر پر ڈمپنگ کی وجہ سے شروع ہوئی تھی۔ امریکیوں کو خطرہ تھا کہ جیسے کمپنی نے انڈیا کو لوٹا ہے ویسے وہ انہیں لوٹے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ بنگال کو لوٹنے کے بعد اب کمپنی کی آنکھ امریکہ پر ہے۔ پھر فلک نے وہ نظارہ بھی دیکھا کہ 1803ء میں شاہ عالم اپنے برباد محل میں بیٹھا تھا اور اُس وقت تک کمپنی ہندوستانیوں کی دو لاکھ فوج کو تربیت دے کر ایک مضبوط فوجی قوت کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ جب پورے برطانیہ کی فوج کی تعداد ایک لاکھ تھی اس وقت ایک نجی کمپنی کے پاس اپنی دو لاکھ فوج تھی اور اکثریت ہندوستانی تھے۔ اس وقت ایشیا میں اتنی فوجی پاور کسی کے پاس نہ تھی جتنی ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس تھی۔ اندازہ کریں کہ ہزاروں میل دور بیٹھے چند کاروباریوں نے ایک ایسی سلطنت پر قبضہ کر لیا تھا جو شمال میں دلّی تو مغرب میں آسام تک پھیلی ہوئی تھی۔ وہ چند بزنس مین صرف چالیس سال میں پورے ہندوستان کے مالک بن چکے تھے۔ آنے والے برسوں میں انگریزوں نے صرف چار سو افسران کے ساتھ کروڑوں ہندوستانیوں پر حکومت کی۔ اگر لندن کی ایک کمپنی 1803ء میں دو لاکھ ہندوستانیوں کو یقین دلا سکتی ہے کہ وہ اس خطے کے سب سے بڑے ہمدرد ہیں اور وہ دو لاکھ ہندوستانی ان غیرملکی کاروباریوں کے نام پر پورے ہندوستان کے راجوں مہاراجوں کے تخت الٹ سکتے ہیں تو آج کے دور میں یہ نعرہ مقبول بنانا کتنا مشکل کام ہے کہ قوم کو ترقی کیلئے سڑک نہیں چاہیے۔ جیسے گوروں کو دو لاکھ ہندوستانی بھرتی کیلئے مل گئے تھے ایسے ہی آج کافی لوگ اس نعرے پر یقین رکھتے ہیں کہ قوم سڑکیں بنانے سے نہیں بنتی۔ عمران خان یہ بیان لاہور اسلام آباد موٹروے پر سفر کرنے کے بعد دیتے تھے اور سہیل آفریدی نے بھی یہ بیان پشاور لاہور موٹر وے پر سفر کرنے کے بعد دیا۔ کیا آپ کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے دو لاکھ ہندوستانی فوجیوں اور موجودہ لاکھوں پاکستانی نوجوانوں میں کوئی قدرِ مشترک نظر آتی ہے جو انگریزوں کی فوج جوائن کرکے اپنے تئیں ہندوستان کو آزاد کرا رہے تھے اور ہمارے آج کے نوجوان خان کے ویژن کے مطابق اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ قوم اُس وقت عظیم بنے گی جب ملک میں سڑکیں نہیں ہوں گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں