انتخاب‘ بیانیہ‘ انجام!

پاکستان کی سیاست اس مقام پر کھڑی ہے جہاں سچ اور جھوٹ کے بیچ فاصلہ اتنا وسیع ہو جاتا ہے کہ کوئی بھی سیاسی بیانیہ حقیقت سے بڑا دکھائی دینے لگتا ہے۔ آج جب حالات کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی منظم جمہوری نظام میں نہیں بلکہ ایک ایسی سیاسی تجربہ گاہ کا حصہ ہیں جہاں ہر چند برس بعد نئے فارمولے آزمائے جاتے ہیں اور عوام کے جذبات کو ایک بار پھر امتحان میں ڈالا جاتا ہے۔ شور بہت ہے‘ بیانات بہت ہیں‘ دعوے بیشمار ہیں مگر عوام کی امیدیں کمزور پڑتی جا رہی ہیں۔ لوگ اب سیاست کو مسئلے کا حل کم اور مسئلے کا حصہ زیادہ سمجھنے لگے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ایک روز قبل کی گئی متعدد سیاسی تشریحات پر اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر کلثوم نواز کے ضمنی انتخاب سے متعلق ان کا حوالہ تاریخی تناظر میں درست ہے لیکن اصل نقطہ اس سے ماورا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ قطعیت کے ساتھ یہ ثابت کرتی ہے کہ الیکشن کا بائیکاٹ کبھی سودمند نہیں رہا۔ اسمبلیاں توڑ کر کوئی سیاسی قوت مضبوط نہیں ہوئی اور سسٹم سے باہر نکل کر کبھی کوئی جماعت اپنا مؤثر وجود قائم نہیں رکھ سکی۔ اسی تناظر میں حالیہ ضمنی انتخابات کا ٹرن آؤٹ ایک سیاسی بیانیہ ضرور بنا مگر حقائق کچھ اور ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ٹرن آؤٹ جہاں کم تھا‘ وہاں لوگ کیوں باہر نہیں نکلے؟ سیاسی بے بسی‘ خوف‘ انجینئرڈ ماحول یا نظام پر عدم اعتماد؟ یہ عوامل ٹرن آؤٹ سے زیادہ خطرناک حقیقت بیان کرتے ہیں۔
پنجاب میں ضمنی انتخابات کے دوران ہونے والی سرگرمیاں کسی عام انتخابی عمل سے زیادہ ایک منظم انتظامی سکرپٹ کی طرح دکھائی دیں۔ 8 کلب میں امیدواروں کی پیشگی ملاقاتیں‘ بعض پولنگ سٹیشنز پر صحافیوں کا داخلہ بند‘ پولیس کی مخصوص کیمپوں کے بارے میں پوچھ گچھ‘ کچھ کیمپوں میں ووٹرز کو مخصوص علامت بتانا‘ ابتدائی نتائج کا اچانک رک جانا اور آر او آفس تک راستوں کا بند ہونا‘ صحافیوں کے داخلے بھی بند کر دینا‘ یہ کسی ایک حلقے کا ماحول نہیں متعدد جگہوں سے یہی اطلاعات آئیں۔ یہ سب صرف اتفاق نہیں ہو سکتا۔ اس نے عوامی اعتماد کو مزید ٹھیس پہنچائی اور اس بیانیے کو تقویت دی کہ انتخابی شفافیت کمزور پڑ چکی ہے۔ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ اسے حقیقی عوامی قبولیت حاصل ہے تو پہلا امتحان بلدیاتی انتخابات ہونے چاہئیں۔ جہاں سب سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو مکمل آزادی ہو کہ وہ ڈسپلن کے اندر رہتے ہوئے انتخابی مہم چلا سکیں۔ عوامی سطح کا الیکشن ہی اصل سیاسی حقیقت کو واضح کرے گا۔
ضمنی انتخابات سے کہیں زیادہ سنگین مسئلہ ملک کے انتظامی اور مالیاتی ڈھانچے میں موجود ہے۔ شہری ودیہی علاقوں سے ایک ہی طرح کی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔ اہم شاہراہوں پر صفائی مگر اندرون علاقوں میں گندگی کے ڈھیر‘ شدید بدانتظامی‘ ٹریفک کا بدترین نظام‘ ترقیاتی منصوبوں میں تاخیر‘ شہری سہولتوں کی کمی‘ کاغذی دعووں پر چلنے والی کارکردگی سمیت کئی معاملات ہیں۔ یہ مسائل پنجاب‘ سندھ‘ خیبر پختونخوا‘ بلوچستان اور وفاقی دارالحکومت ہر جگہ موجود ہیں۔ پنجاب میں تو ہر جگہ یہی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔ ملک کا ترقیاتی ماڈل کاغذوں پر مضبوط ہے مگر زمین پر کمزور! یہی وہ مقام ہے جو ملک کے اصل بحران کی جڑ ہے۔ احتساب کا نظام اور اس کی بنیاد آڈٹ ہے‘ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کوئی دفتری عہدہ نہیں‘ یہ آئینی منصب ہے۔ آئین نے اسے ریاست کی مالی شفافیت کا سب سے مقدس اور غیر سیاسی نگہبان بنایا ہے۔ یہ واحد منصب ہے جسے وہ اختیار حاصل ہے جس سے حکومتیں بھی گھبراتی ہیں۔ ہر خرچ کی شفاف طریقے سے جانچ پڑتال‘ ہر ادائیگی کی تصدیق‘ ہر منصوبے کے مالیاتی پہلو کا جائزہ لینا‘ قومی خزانے تک رسائی‘ تمام وزارتوں کا مکمل آڈٹ۔ جب اس منصب کو کمزور کیا جائے یا اسے مؤثر طریقے سے کام نہ کرنے دیا جائے تو پھر پورا ملک مالیاتی اندھیرے میں چلا جاتا ہے۔ پھر ملک کے اندر سے ہی نہیں‘ عالمی سطح پر بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ آج یہی آئینی ادارہ سیاسی اثرات‘ انتظامی دباؤ اور خاموش مزاحمت کا شکار ہو چکا ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ جب کچھ اہم پروجیکٹس کے سخت آڈٹ شروع ہوئے‘ چاہے وہ پنجاب پولیس کی جانب سے جیکٹس کی خریداری کا معاملہ ہو‘ شہری ترقیاتی منصوبے‘ خریداری کے ٹھیکے‘ سڑکوں کی تعمیر‘ آئی ٹی سسٹمز‘ پولیس‘ ہیلتھ یا ایجوکیشن یا پھر خصوصی فنڈز‘ آڈٹ کرنے والوں کو خاموش یا تبدیل کر دیا جاتا رہا ہے۔ تازہ مثال‘ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی تعیناتی کے بعد حالات یکسر تبدیل ہو گئے۔ آڈٹ میں انتہائی نرمی‘ وفاق وپنجاب میں فلیگ شپ پروجیکٹس پر ایسا رویہ جیسے آڈٹ کی نظریں ہی چرانے لگی ہوں۔ پنجاب سے متعلق سوالات اٹھانے اور مبینہ کرپشن پر سوالات اٹھائے گئے مگر پہلے میسجز بھجوائے گئے کہ جلد ہی تبادلہ ہو جائے گا‘ پھر اچانک معلوم ہوا کہ ڈی جی آڈٹ پنجاب کا فوری طور پر تبادلہ کر دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب سوال پوچھنے والوں کے ہاتھ باندھ دیے جائیں تو پھر جوابدہی کس سے ہو گی؟ آئی ایم ایف کی تازہ رپورٹس پاکستان کے مالیاتی بحران پر سخت چارج شیٹ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان میں وفاقی سطح پر تقریباً 40 کھرب روپے اور صوبوں میں اس سے کہیں زیادہ عوامی فنڈز ایسے نظام کے رحم وکرم پر ہیں جس میں شفافیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان کی اپنی آڈٹ رپورٹس یہ بتاتی ہیں کہ ہر سال کم ازکم 2300 ارب روپے کی بے ضابطگیاں سامنے آتی ہیں۔ ایسے ملک میں گڈ گورننس ایک نعرے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ اس سارے بحران کے دوران کنٹرولر جنرل آف اکاؤنٹس کا عہدہ کئی ماہ سے خالی پڑا ہے۔ CGA وہ منصب ہے جو پاکستان کی ہر ادائیگی‘ ہر سرکاری تنخواہ‘ ہر بل اور ہر ترقیاتی خرچ کی حتمی منظوری دیتا ہے۔ اس عہدے کا خالی رہ جانا کوئی اتفاق یا معمولی تاخیر نہیں بلکہ ایک سنگین بدانتظامی ہے جس کے نتیجے میں وفاقی وصوبائی سطح پر مالی نظم وضبط غیر یقینی ہو چکا ہے۔
یہ بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ وفاقی حکومت میں اندھا دھند منصوبہ سازی جاری ہے‘ بغیر کسی خودمختار نگرانی کے‘ بغیر کسی مؤثر آڈٹ کے اور بغیر کسی احتسابی ڈھانچے کے۔ یہ عمل نہ صرف محکموں کیلئے خطرناک ہے بلکہ عوامی مفاد‘ مالی شفافیت اور ریاستی مستقبل کیلئے بھی ایک سنجیدہ خطرہ بن چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب اور وفاق کے بڑے پروجیکٹس کا فرانزک آڈٹ ہو جائے تو انکشافات اتنے چونکا دینے والے ہوں گے کہ شاید کئی بڑے نام اس کی زد میں آ جائیں۔ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا دکھایا جاتا ہے‘ یہ پاکستان کے مالیاتی بدن کی کئی گہری بیماریوں کو بے نقاب کر سکتا ہے۔ وفاقی حکومت کے بڑے پروگرامز سمیت کئی منصوبوں میں فنڈز کے استعمال سے متعلق سوالات اٹھ رہے ہیں۔ آئی ایم ایف نے انہی وجوہات کی بنا پر کہا کہ وفاقی سطح پر 40 کھرب روپے کے ایسے فنڈز ہیں جن کا مکمل آڈٹ مؤثر نہیں۔ یہ پبلک فنڈنگ کے بڑے حصے پر غیر واضح ادائیگیوں کی نشاندہی کر رہا ہے۔ یہ کوئی سیاسی بیانیہ نہیں بلکہ وہ کڑوا سچ ہے جو عالمی ادارے ہمارے سامنے رکھتے ہیں۔ سنگینی اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب کنٹرولر جنرل آف اکاؤنٹس (CGA) جیسے منصب کو بھی مہینوں تک خالی رکھا جائے۔ یہ عہدہ وفاق اور صوبوں کے تمام مالیاتی لین دین کا مرکز ہے۔ اس کی عدم موجودگی کا مطلب ہے کہ پورا نظام ''عارضی انتظامات‘‘ پر چل رہا ہے۔ یہ معاملہ سادہ نہیں‘ یہ حیران کن انکشافات کا دروازہ کھولے گا۔ اگر کچھ غلط نہیں تو پھر خوف کیسا؟ اور اگر خوف ہے تو معاملہ واضح ہے کچھ نہ کچھ ضرور چھپایا جا رہا ہے۔ پاکستان کی ترقی‘ سیاسی استحکام اور معاشی مستقبل کا انحصار اس سوال پر ہے کہ احتساب کا دروازہ کھلے گا یا بند رہے گا؟ اگر آڈیٹر جنرل آزاد نہیں ہو گا‘ آڈٹ کمزور رہے گا‘ فرانزک آڈٹ نہیں ہو گا اور شفافیت نہیں آئے گی تو پھر نہ سیاست مضبوط ہو گی نہ ریاست۔ پاکستان کو سیاسی بحران نے نہیں احتساب کے دروازے بند ہونے نے مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ ''عوامی قبولیت‘‘ کی راہ سکڑتی جا رہی ہے‘ یہ دروازہ کھلے گا تبھی امید زندہ ہو گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں