ایف 35سعودی امریکہ ڈیل، بدلتی عالمی بساط!

سفارتکاری کی دنیا میں کوئی فیصلہ اچانک نہیں ہوتا۔ عالمی طاقتوں کی بساط میں ہر چال برسوں کی حکمت‘ منصوبہ بندی اور فیصلے کے لمحے میں موجود غیر معمولی نزاکت سے وجود میں آتی ہے۔ آج مشرقِ وسطیٰ‘ جنوبی ایشیا اور عالمی طاقتوں کے درمیان جو نئی لکیریں کھنچ رہی ہیں وہ کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں بلکہ نئے جیو پولیٹکل دور کا آغاز ہیں۔ امریکہ کی جانب سے سعودی عرب کو ایف 35 لڑاکا طیارے فراہم کرنے پر رضامندی اسی بڑے تغیر کی ایک علامت ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف واشنگٹن اور ریاض کے تعلقات کی نئی جہت ہے بلکہ بیجنگ‘ اسلام آباد‘ نئی دہلی اور تل ابیب سمیت پورے خطے کی سیاست کو نئے سانچے میں ڈھالنے والا لمحہ بھی ہے۔ وہ امریکہ جو برسوں تک سعودی عرب کو ایف 35 دینے سے انکار کرتا رہا‘ اچانک اپنے سخت مؤقف سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔ یہ تبدیلی معمولی نہیں‘ اور اسے محض ایک دفاعی ڈیل سمجھنا بھی غلط ہوگا۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورۂ واشنگٹن کے دوران نہ صرف امریکہ سے ایف 35 طیاروں کے لین دین کی راہ ہموار ہوئی بلکہ باہمی دفاعی تعاون‘ ٹیکنالوجی شیئرنگ اور تقریباً ایک ہزار ارب ڈالر کی ممکنہ اقتصادی شراکت دای کے آغاز کا عندیہ بھی دیا گیا۔
یہ معاہدہ امریکی سوچ میں وہ تبدیلی ظاہر کرتا ہے جس نے پورے خطے کی سفارت کاری کو نئے قالب میں ڈھالنے کا آغاز کردیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ امریکہ نے آخر اپنا فیصلہ کیوں بدلا؟ اسکا سیدھا جواب یہ ہے کہ گزشتہ تقریباً پانچ برسوں میں سعودی عرب صرف امریکہ پر بھروسہ کرنا چھوڑ کر اپنی خارجہ اور دفاعی پالیسی کو کئی بڑے ملکوں کیساتھ مل کر آگے بڑھانے کی راہ پر گامزن ہو گیا۔ چین کے ساتھ تکنیکی تعاون بڑھایا گیا‘ روس کے ساتھ دفاعی بات چیت بڑھی‘ اور سب سے بڑھ کر پاکستان کیساتھ سٹریٹجک میچوئل ڈیفنس ایگریمنٹ وہ لمحہ تھا جس نے امریکی پالیسی سازوں کو باور کرا یا کہ ریاض اب مکمل طور پر واشنگٹن کے رحم وکرم پر رہنے والا نہیں ۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان اور سعودی عرب نے مشترکہ دفاع‘ انٹیلی جنس شیئرنگ‘ مشترکہ تربیت و مشقوں اور ہتھیاروں کی جدت کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ یہ وہ واقعہ تھا جس نے امریکہ کے دفاعی اور سفارتی حلقوں کو خبردار کیا کہ اگر امریکہ نے سعودی عرب کیساتھ اپنی شراکت داری مضبوط نہ کی تو یہ خلا چین اور روس بہت تیزی سے پُر کر سکتے ہیں‘ اور پاکستان ایک فعال سٹریٹجک پارٹنر کے طور پر ان کیساتھ کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس تناظر میں ایف 35 طیاروں کی ڈیل محض ایک دفاعی معاہدہ نہیں بلکہ جیو پولیٹکل تحفظ کا ایک اقدام ہے۔
اسی دوران سعودی وژن 2030ء اور معاشی اصلاحات نے بھی سعودی عرب کو خطے کا نیا معاشی مرکز بنانا شروع کر دیا۔ امریکہ میں ہونے والے یو ایس سعودی انویسٹمنٹ سمٹ میں 600 ارب ڈالر کی ممکنہ سرمایہ کاری کے اعلانات نے عالمی سرمایہ کاروں پر واضح کر دیا کہ اگلی بڑی معیشت مشرقِ وسطیٰ میں ابھر رہی ہے۔ توانائی‘ ٹیکنالوجی‘ سپیس پروگرام‘ مائننگ‘ ڈیفنس انڈسٹری‘ سرمایہ کاری‘ یہاں تک کے ہر شعبے میں سعودی عرب نئی طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔بظاہر یہی وہ دباؤ تھا جس نے امریکہ کو مجبور کیا کہ وہ سعودی عرب کیساتھ اپنے تعلقات کو ازسرِنو ترتیب دے‘ورنہ پاکستان‘ چین اور روس یہ خلا پُر کریں گے۔ یہ تبدیلی اسرائیل کیلئے ایک سخت دھچکا ہے۔ امریکہ نصف صدی سے اسرائیل کی عسکری برتری برقرار رکھنے کی پالیسی پر کاربند ہے مگر ایف 35سعودی عرب تک پہنچنا اسرائیلی قیادت کیلئے باعثِ تشویش ہے۔ دباؤ‘ اعتراضات اور احتجاج کے باوجود امریکہ اس بار اسرائیلی مؤقف کو وہ اہمیت نہیں دے رہا جو ماضی میں دیتا آیا ہے۔ وجہ واضح ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں ترجیحات بدل چکی ہیں اور امریکہ اب خطے میں اپنی پوزیشن کو سعودی عرب کے بغیر برقرار اور مستحکم نہیں رکھ سکتا۔ دوسری جانب ٹرمپ انتظامیہ ایک بار پھر ابراہام اکارڈ میں سعودی عرب کی شمولیت کی کوششیں کر رہی ہے‘ لیکن سعودی عرب کا مؤقف اب تک بڑا واضح ہے؛ فلسطینی ریاست کے قیام سے قبل ایسے کسی اقدام کی گنجائش نہیں۔
اس وسیع منظرنامے میں پاکستان کا کردار بھی اہم ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کیلئے سعودی عرب مذہبی‘ معاشی اور دفاعی اعتبار سے ہمیشہ سے ایک اہم ملک رہا ہے مگر مشترکہ دفاعی معاہدے کے بعد پاکستان کی ذمہ داریاں اور حساسیت بڑھ گئی ہے۔ اگر سعودی جھکاؤ امریکہ کی طرف بڑھتا ہے تو پاکستان کو اپنی سفارتی حکمت عملی نہایت باریک توازن کیساتھ ترتیب دینا ہو گی۔ چین کیساتھ سٹریٹجک تعلقات‘ امریکہ کیساتھ توازن‘ خلیجی ممالک کیساتھ ہم آہنگی؛ بنیادی طور پر یہ ایک ایسا پیچیدہ دائرہ ہے جس میں معمولی غلطی بھی سفارتی اورتزویراتی سطح پر بڑا نقصان پہنچا سکتی ہے‘ تاہم یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات صرف دفاع تک محدود نہیں؛ سرمایہ کاری‘ توانائی‘ افرادی قوت اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں سعودی دلچسپی پاکستان کیلئے مشکل معاشی حالات میں امید کی ایک کھڑکی ہے مگر ان تمام مواقع کے بیچ پاکستان کے اندر جو منظرنامہ ابھر رہا وہ یکسر مختلف اور قدرے خطرناک نوعیت کا ہے۔ دنیا تیزی سے نئی طاقتوں کی تشکیل میں مصروف ہے جبکہ ہم اندرونی طور پر ایسے تنازعات میں الجھ رہے ہیں جن سے ریاستی ڈھانچے کی بنیادیں ہل رہی ہیں۔ حالیہ آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کی تقسیم کی بنیاد رکھ دی گئی اور اب اسے 'پارلیمانی عدلیہ‘ کا نیا نام دیا جا رہا ہے۔ ججز کے تبادلوں کا نیا نظام اور عدلیہ کی ساخت میں بنیادی تبدیلیاں ایسا تجربہ ہے جس نے ایک نیا محاذ کھول دیا ہے‘ بلکہ آئندہ کئی برسوں تک آئینی قضیوں کی بنیاد رکھ دی ہے۔ یہ ایک ایسا پنڈورا باکس ہے جسے کھول کر حکومت نے اپنے لیے ایک نیا بحران پیدا کر لیا ہے۔
جب خطے میں نئی لکیریں کھنچ رہی ہیں‘ نئے علاقائی اور عالمی اتحاد تشکیل پا رہے ہیں‘ ایسے وقت میں ریاستی ساخت کیساتھ تجربات کی یہ خطرناک روش کیوں؟ یہ تاثر انتہائی تیزی سے پنپ رہا ہے کہ پاکستان اندرونی محاذ آرائیوں میں اتنا اُلجھ چکا ہے کہ اسے بیرونی دنیا کی تبدیلیوں کا ادراک ہی نہیں۔ آئینی ترمیم کی مخالفت محض سیاسی ردِعمل نہیں بلکہ ایک حقیقی خدشہ ہے کہ ریاست کے بنیادی ستونوں میں مداخلت پاکستان کی سفارتی ساکھ‘ قانونی نظام اور معاشی استحکام کو گہرا نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اسی داخلی انتشار کیساتھ ملک کی معاشی سمت بھی شدید دھند میں گم ہے۔ مالی سال 2026ء کے پہلے چار ماہ میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 733 ملین ڈالر تک پہنچ چکا ہے جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 206 ملین ڈالر تھا‘ یعنی رواں مالی سال اس میں 256 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ محض اقتصادی اعداد وشمار نہیں بلکہ ایک خوفناک الارم ہے‘ جو ہمیں بتا رہا کہ معیشت اب معمولی جھٹکے بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ برآمدات جمود کا شکار ہیں‘ سرمایہ کاری غائب ہے‘ تجارتی خسارہ قابو سے باہر ہے اور سیاسی عدم استحکام نے بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد تباہ کر دیا ہے۔ ریاست کے معاشی پھیپھڑے سکڑ چکے اور ہم یہ تسلیم کرنے کو ہی تیار نہیں کہ معاشی حالت اس وقت تباہ کن سطح پر پہنچ چکی ہے۔
سوال پھر وہی ہے کہ جب عالمی طاقتیں نئی صف بندیوں کی تشکیل میں مصروف ہیں‘خطہ نئی سٹریٹجک تبدیلیوں کی زد میں ہے‘ سعودی عرب نئی جیو پولیٹکل قوت بن کر ابھر رہا ہے‘ چین اور امریکہ کی معاشی جنگ میں شدت آ رہی ہے‘ کیا پاکستان سٹرکچرل تبدیلیوں اور آئینی تجربات پر اپنی طاقت ضائع کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے؟ ریاست کے بنیادی ستون کمزور پڑ جائیں تو سفارتی اثر بھی کم ہو جاتا ہے۔ معاشی اعتماد گر جاتا ہے اور عالمی طاقتیں اپنے فیصلے بدل لیتی ہیں۔ اگر اپنی ترجیحات کو فوری درست نہ کیا گیا تو آنے والے برسوں میں فیصلے ہم نہیں کریں گے بلکہ ہمارے بارے میں کیے جائیں گے۔ دنیا آگے بڑھتی جائے گی اور ہم اپنے ہی پیدا کردہ بحرانوں میں اُلجھے رہیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں