"SSC" (space) message & send to 7575

عرفان بھائی: اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے … (4)

1974ء میں جب عرفان بھائی کا تقرر سر سید کالج مال روڈ میں ہوا‘ اُن دنوں میں سر سید کالج میں ایف ایس سی کا طالب علم تھا۔ یوں سر سید کالج میں عرفان بھائی کے قیام کے عرصے کو میں نے بہت قریب سے دیکھا۔ سر سید کالج راولپنڈی کی معروف سڑک مال روڈ پر واقع تھا۔ سڑک کے اُس پار سٹیٹ بینک کی عمارت تھی۔ کچھ ہی فاصلے پر پریزیڈنسی تھی۔ بعد میں اسی عمارت میں فاطمہ جنا ح یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ سر سید کالج اس لحاظ سے ایک اہم تعلیمی ادارہ تھا کہ یہاں سے فارغ التحصیل طالب علموں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں اہم عہدوں پر کام کیا۔ عرفان بھائی سر سید کالج میں آئے تو امکانات کی ایک نئی دنیا ان کی منتظر تھی۔ یہاں ان کی شخصیت کے جوہر کھل کر سامنے آنے والے تھے۔ ان دنوں کالج کے پرنسپل ایم ایچ ہمدانی تھے۔ وہ پشاور کے تاریخی تعلیمی ادارے ایڈورڈز کالج سے آئے تھے اور ایک متحرک‘ روشن خیال اور اعلیٰ درجے کے منتظم کے طور پر جانے جاتے تھے۔ انہوں نے کالج میں ڈسپلن کیلئے مؤثر اقدامات کیے۔ ہمدانی صاحب کی خواہش تھی کہ کالج میگزین ''سر سیدین‘‘ کے علاوہ ایک پندرہ روزہ پرچہ ایسا بھی ہونا چاہیے جس میں طلبہ آزادی کے ساتھ جو چاہیں لکھیں۔ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کیلئے انہیں ایک باصلاحیت رفیقِ کار کی ضرورت تھی۔ تب ان کی نگاہ عرفان بھائی پر پڑی جن کی تقرری انہی دنوں کالج میں ہوئی تھی۔
یوں سر سید کالج میں پندرہ روزہ ''رپورٹر‘‘ کا آغاز ہوا۔ جو انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں چھپتا تھا۔ یہ سرسید کالج میں اپنی طرح کا ایک انوکھا تجربہ تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تعلیمی اداروں میں ہم نصابی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ ایسے میں عرفان بھائی ان سرگرمیوں کا مرکز بن گئے۔ وہ تقریری مقابلوں کیلئے تقریریں لکھتے اور طلبہ کی حوصلہ افزائی کیلئے مختلف شہروں میں طلبہ کی ٹیموں کے ہمراہ سفر کرتے۔ یوں عرفان بھائی جلد ہی سرسید کالج کی علمی‘ ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کی جان بن گئے۔ کالج میں ان کی شہرت ایک لائق‘ محنتی اور ہر دلعزیز استاد کی تھی۔ ماہ و سال گزرتے گئے۔ پھر وہ لیکچرر سے اسسٹنٹ پروفیسر بن گئے‘ یہ ان کے پیشہ ورانہ سفر میں ترقی کا ایک اور زینہ تھا لیکن یہ ان کی منزل نہیں تھی۔ ان کی تمنا کا دوسرا قدم کسی اور آسمان کی تلاش میں تھا۔ دراصل ان کے اندر ایک تخلیقی بے قراری تھی جو انہیں ہر دم متحرک رکھتی تھی۔
تب ان کی زندگی میں ریڈیو کا پُر بہار دریچہ کھلا جس نے انہیں کتنے ہی خوش رنگ منظروں سے آشنا کیا۔ ریڈیو کی فضا میں ایک خاص طرح کا سحر تھا جو عرفان بھائی کا دامنِ دل اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ عرفان بھائی نے ریڈیو کیلئے گاہے گاہے لکھنا شروع کیا۔ پھر اس میں تواتر آنے لگا۔ کالج کے بعد اب ان کا زیادہ وقت ریڈیو پر گزرنے لگا۔ ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے عرفان بھائی بتایا کرتے کہ ستر کی دہائی کے اوائل میں میرا ریڈیو پاکستان آنا جانا شروع ہوا۔ یہ آنا جانا اتنا بڑھا کہ کالج سے فراغت کے بعد سارا دن‘ بیشتر شامیں اور کبھی کبھار رات کے اولین پہر ریڈیو کی نذر ہونے لگے۔ ریڈیو سے تعلق کا سلسلہ موضوعاتی تقریروں‘ کتابوں پر تبصروں‘ حالاتِ حاضرہ کے مذاکروں‘ بچوں کے کوئز‘ دستاویزی پروگراموں اور چھوٹے موٹے عمومی سکرپٹس سے شروع ہوا اور پھر ساون کی ہریالی کی طرف پھیلتا چلا گیا۔
اب عرفان بھائی کے معاشی حالات میں کچھ بہتری آنے لگی تھی۔ انہوں نے کچھ رقم پس انداز کر کے ایک واقف کار سے سیکنڈ ہینڈ ویسپا سکوٹر خرید لیا۔ مجھے وہ دن یاد ہے کہ جب وہ ہلکے نیلے رنگ کا ویسپا سکوٹر لے کر گھر کی ڈیوڑھی میں داخل ہوئے تو ہم سب کا جوش دیدنی تھا۔ سکوٹر آنے سے عرفان بھائی کو سکول اور ریڈیو آنے جانے میں آسانی ہو گئی۔ اس ویسپا سکوٹر سے میری بھی بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب 1983ء علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں انگلش لیکچرر کی ایک پوزیشن کا اشتہار آیا تو میں عرفان بھائی کے ساتھ اسی ویسپا سکوٹر پر بیٹھ کر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایپلی کیشن فارم لینے گیا تھا۔ اس بات کو گزرے اب ایک مدت ہو گئی ہے لیکن گرمیو ں کا وہ چلچلاتا ہوا دن مجھے آج بھی یاد ہے جب تپتی ہوئی دوپہر میں سڑک پر سراب بن رہے تھے جن پر پانی کا گمان ہوتا تھا۔ اسی ویسپا سکوٹر پر ایک بار عرفان بھائی کا ایکسیڈنٹ بھی ہوا تھا‘ جس کے نتیجے میں ان کے دائیں بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی اور ایک عرصے تک ان کا بازو پلستر میں بندھا رہا تھا۔
اب عرفان بھائی ریڈیو کے مختلف پروگراموں کیلئے مسلسل لکھ رہے تھے۔ ریڈیو پر ان کی زود نویسی اور سحر انگیز نثر کے سبھی معترف تھے لیکن ان کے ڈرامے کی اقلیم میں داخل ہونے کی دلچسپ کہانی ہے۔ ان دنوں ظہیر حسن ریڈیو پاکستان راولپنڈی میں سینئر پروڈیوسر تھے۔ انہوں نے نئے ڈرامہ نگاروں کی تلاش کیلئے ''میرا پہلا ڈرامہ‘‘ کے عنوان سے ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔ ایک روز ظہیر صاحب نے عرفان بھائی کو ڈرامہ لکھنے کی ترغیب دی۔ عرفان بھائی کیلئے ڈرامہ ایک اجنبی صنف تھی۔ اس لیے انہوں نے کچھ تامل کیا لیکن آخر ظہیر صاحب کے اصرار پر انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ عرفان بھائی کے پہلا ڈرامہ لکھنے کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے جس کا میں عینی شاہد ہوں۔ ہوا یوں کہ عرفان بھائی‘ میں اور ان کے دوست ساجد ملک صاحب ٹرین سے لاہور جا رہے تھے۔ یہ ایک یاد گار سفر تھا ہم گپ شپ لگا رہے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جہلم میں ٹرین رکی تو ہم نے سٹیشن پر نان پکوڑے کھائے تھے۔ اس دوران عرفان بھائی اپنے مخصوص انداز میں کلپ بورڈ پر رکھے کاغذوں پر بال پوائنٹ سے کچھ لکھ رہے تھے۔ ٹرین کی چھک چھک‘ کھڑکی کے باہر تیزی سے گزرتے منظر اور گاڑی کے اندر باتوں کا شور تھا۔ عرفان بھائی باتوں میں شریک بھی تھے اور مسلسل لکھ بھی رہے تھے۔ لاہور پہنچنے تک وہ اپنی زندگی کا پہلا ڈرامہ لکھ چکے تھے۔ ہم نے پچیس صفحات پر مشتمل خوبصورت ہینڈ رائٹنگ میں لکھا مسودہ دیکھا جس میں کوئی کانٹ چھانٹ نہیں تھی تو ہمیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ یہ ڈرامہ ریڈیو پر ''آخری موڑ‘‘ کے نام سے نشر ہوا۔ یہ ان کے ڈرامے کے سفر کا آغاز تھا! پھر تو جیسے ڈرامہ ان کی پہچان بن گیا۔ انہوں نے ریڈیو کیلئے لاتعداد ڈرامے لکھے۔ 1988ء میں ان کے ڈراموں کی کتاب ''بھید بھری آواز‘‘ شائع ہوئی جس کا فلیپ اشفاق احمد اور دیباچہ میرزا ادیب نے لکھا تھا۔
قدرت نے عرفان بھائی کو لکھنے کا خاص ہنر دیا تھا۔ کئی بار تو ایسا ہوا کہ براہِ راست ریڈیو پر کوئی پروگرام نشر ہو رہا ہے اور وہیں دوسرے کمرے میں عرفان بھائی بیٹھے پروگرام کا سکرپٹ لکھ رہے ہیں۔ بہت بعد میں جب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں بطور لیکچرر میری تعیناتی ہوئی تو پتا چلا کہ عرفان بھائی نے کسی زمانے میں اوپن یونیورسٹی کے کچھ پروجیکٹس کیلئے بھی سکرپٹس لکھے تھے۔ ان دنوں اردو نظم کا معروف جدید شاعر فہیم جوزی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشنل ٹیکنالوجی میں کام کرتا تھا۔ ایک روز میں فہیم جوزی کے ساتھ بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ اس دوران ڈراموں کی بات شروع ہوئی۔ فہیم جوزی کہنے لگا: یار میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جو مختصر ترین وقت میں ڈرامہ لکھ سکتا ہے۔ میرے پوچھنے پر اس نے عرفان بھائی کا نام لیا۔ جب میں نے ہنستے ہوئے اسے بتایا کہ وہ میرے بھائی ہیں‘ تو وہ بولا: کیسا اتفاق ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ عرفان بھائی کے خیال اور قلم میں ایک خاص تال میل تھا۔ خیال تو جیسے ان پر وارد ہوتا تھا‘ الفاظ ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے اور پھر ان کے قلم کی روانی پہاڑی چشمے کا بہاؤ بن جاتی‘ وہی تُندی‘ وہی تیزی اور وہی نغمگی۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں