عرفان بھائی زندگی میں وقت ضائع کرنے کے قائل نہیں تھے۔ وہ کالج کے اوقات کے بعد ٹیوشنز پڑھاتے اور پھر پشاور روڈ پر واقع راولپنڈی ریڈیو سٹیشن جاتے۔ اس کڑی مشقت کے باوجود ان کے چہرے پر ہر وقت ایک مسکراہٹ کھیلتی رہتی۔ ان کی حسِ مزاح کے سب قائل تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب بی اے کے امتحان میں میری فرسٹ ڈویژن آئی تو میں نے سب سے پہلے برابر میں واقع عرفان بھائی کے گھر جا کر انہیں یہ خبر سنائی۔ وہ یہ سن کر بہت خوش ہوئے‘ پھر انہیں شرارت سوجھی اور وہ مجھے لے کر والدہ کے کمرے میں آئے اور سنجید ہ شکل بنا کر والدہ کو بتایا کہ شاہد کا نتیجہ آ گیا ہے۔ وہ بی اے میں پاس تو ہو گیا ہے لیکن اس کی تھرڈ ڈویژن آئی ہے۔ یہ سن کر والدہ کی آنکھوں میں ایک لحظہ کو مایوسی کی لکیر اُبھری اور ڈوب گئی۔ پھر انہوں نے اپنے چہرے پر مایوسی کو چھپاتے ہوئے مجھے پاس بلایا اور میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ کوئی بات نہیں‘ پاس تو ہو گیا ہے نا! کچھ دیر کمرے میں گمبھیر خاموشی رہی۔ تب عرفان بھائی نے ہنستے ہوئے والدہ کو بتایا کہ شاہد کی بی اے میں فرسٹ ڈویژن آئی ہے۔ اس پر فرطِ جذبات سے والدہ کی آنکھیں چھلک اٹھیں اور انہوں نے دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔
عرفان بھائی کے شب و روز قلم کی مزدوری میں کٹ رہے تھے۔ اس دوران کچھ وقت ملتا تو وہ دوستوں کے ساتھ بیٹھتے‘ گپ شپ لگاتے اور کبھی کبھار دوستوں کے ہمراہ راولپنڈی کے صدر بازارمیں کینٹکی چکن (Kentucky Chicken) اور بابو محلہ میں رئیس تکہ شاپ میں کھانا کھاتے۔ یہی ان کی کُل تفریح تھی۔ لیکن تفریح کے یہ لمحات کم ہوتے‘ پھر وہی قلم کا تیشہ ہوتا اور زندگی کی سنگلاخ چٹانوں سے زور آزمائی۔ انہوں نے لکھا اور بے تکان لکھا۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر عرفان بھائی کی تحریروں کو جمع کیا جائے تو یہ بلا مبالغہ لاکھوں صفحات پر مشتمل ہوں گی۔ عرفان بھائی لکھنے کیلئے کوئی خاص اہتمام نہ کرتے۔ میں نے انہیں کبھی سٹڈی ٹیبل پر بیٹھ کر لکھتے نہیں دیکھا۔ وہ گھر میں اپنے بستر پر پلنگ کی پشت سے ٹیک لگا کر نیم دراز ہو کر لکھتے۔ لکھنے کیلئے انہیں کسی خاص ماحول کی ضرورت تھی نہ ہی ارتکاز کیلئے خاموشی درکار تھی۔ اکثر گھر میں لکھتے وقت ان کے اردگرد لوگ باتیں کر رہے ہوتے‘ بچے کھیل رہے ہوتے لیکن انہیں کوئی فرق نہ پڑتا اور وہ مسلسل لکھتے رہتے۔ میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ وہ یہ کیسے کر لیتے تھے۔
اب ریڈیو پر ان کی مصروفیت میں اضافہ ہو گیا تھا اور انہیں یوں محسوس ہو رہا تھا کہ کالج کی ملازمت اور ریڈیو کی مزدوری ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ہیں۔ کالج اور ریڈیو میں سے انہیں کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا اور یہ کوئی آسان فیصلہ نہ تھا۔ اس وقت وہ سرسید کالج مال روڈ میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ سرسید کالج کا اپنا معاشرتی مرتبہ تھا اور اس سے وابستگی کی خاص اہمیت تھی۔ جب عرفان بھائی کے دوستوں کو ان کے ارادے کا پتا چلا تو انہوں نے عرفان بھائی کو مشورہ دیا کہ کالج کی سرکاری ملازمت نہ چھوڑیں۔ احتیاط کا تقاضا بھی یہی تھا لیکن عرفان بھائی ایک نئے آسمان کی تلاش میں تھے اور وہ نیا آسمان ریڈیو پاکستان کا طلسم کدہ تھا جہاں انہیں اپنے قلم کے کرشمے دکھانا تھے۔ سب دوستوں کے منع کرنے کے باوجود انہوں نے 1989ء میں کالج سے رضاکارانہ ریٹائرمنٹ لے لی۔ اس وقت ان کی مدتِ ملازمت 25برس ہوئی تھی۔ اس دورانیے میں ان کی ملازمت کے آخری اٹھارہ برس سرسید کالج مال روڈ میں گزرے تھے۔
سرکاری ملازمت کی زنجیر سے رہائی کے بعد ان کے سامنے زندگی کی وسیع رزم گاہ تھی۔ اب وہ تھے اور ریڈیو کی سحر انگیز دنیا۔ انہوں نے اس عرصے میں ریڈیو کیلئے بے شمار لکھا۔ ریڈیو کیلئے لکھی ہوئی ان کی تحریروں کو جمع کیا جائے تو کئی دفتر بن جائیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ میں ان کے ہمراہ ریڈیو سٹیشن گیا‘ جہاں کی دل فریب فضا میں ایک عجیب طرح کا رومان تھا۔ کیسے کیسے لوگ تھے جن کے دم قدم سے ریڈیو کا شبستان آباد تھا۔ ڈرامے کی بات کی جائے تو ان دنوں ظہیر حسن‘ ریاض قریشی‘ رفیق قریشی اور ہمایوں بشیر کے نام ذہن میں آتے ہیں۔ عرفان بھائی کے بہت سے ڈرامے برکت اللہ‘ شمع خالد‘ کنیز فاطمہ‘ عبدالحفیظ‘ عابد حسین‘ طارق ایوب‘ مسرت شارخ اور مشکور صدیقی نے پروڈیوس کیے۔ سکرپٹ لکھنے کے بعد وہ کاسٹ کے انتخاب سے لے کر ڈرامے کی صدا بندی تک کے سارے عمل میں شریک رہتے۔ یوں ان کے ڈراموں کے آرٹسٹ بھی ان کے حلقۂ احباب میں شامل ہو گئے تھے۔ چند آرٹسٹوں کے نام میرے حافظے میں محفوظ ہیں جن میں سجاد کشور‘ ہاشم بٹ‘ نرگس رشید‘ نرگس یونس‘ غزالہ بٹ‘ نورین خان‘ انجم حبیبی‘ زلفی‘ نسیم قریشی‘ نزہت کاظمی‘ عالیہ امام‘ آغا وحید الرحمن‘ نگہت اقبال‘ شہناز خان‘ شاہین اشتیاق‘ فاروق اقدس اور برکت اللہ شامل تھے۔ اس زمانے میں خالد حمید اور سدرہ ظہیر‘ جو نیوز کاسٹنگ کی دنیا کے اہم نام تھے‘ نے بھی عرفان بھائی کے کئی ڈراموں میں صداکاری کی۔ سجادکشور‘ انجم حبیبی اور برکت اللہ کو تو کئی بار میں نے عرفان بھائی کے گھر بھی آتے جاتے دیکھا۔ اس عرصے میں انہوں نے ریڈیو کیلئے سو سے زائد ڈرامے لکھے ہوں گے۔
ڈرامے کے علاوہ بھی انہوں نے بہت سے پروگراموں کے سکرپٹ لکھے اور کچھ میں تو باقاعدہ حصہ بھی لیا۔ ان میں دانش کدہ‘ آئینہ ایام‘ لہو کا رنگ ایک ہے‘ جہاں گرد اور سلسلے سوالوں کے شامل ہیں۔ اب عرفان بھائی کی زندگی عسرت کے دھندلکوں سے نکل رہی تھی۔ انہوں نے ہمارے مرکزی گھر کے پہلو میں پانچ مرلے کا ایک چھوٹا سا گھر تعمیر کر لیا تھا جہاں وہ خود اوپر کی منزل پر رہتے تھے اور نچلا پورشن کرایے پر دیا ہوا تھا۔ اب انہوں نے ویسپا سکوٹر بیچ کر ایک سیکنڈ ہینڈ گاڑی لے لی تھی۔ یہ ایک نیلے رنگ کی ایف ایکس سوزوکی کار تھی۔ اب انہیں ریڈیو آنے جانے میں سہولت ہو گئی تھی۔ ایک تبدیلی یہ بھی ہوئی تھی کہ ریڈیو پاکستان اسلام آباد سٹیشن کا قیام بھی عمل میں آ گیا تھا۔ اب عرفان بھائی ریڈیو پاکستان راولپنڈی (پشاور روڈ) کے علاوہ اسلام آباد ریڈیو سٹیشن کیلئے بھی پروگرام کرنے لگے تھے۔
انہی دنوں عرفان بھائی کو ریڈیو پاکستان اسلام آباد سٹیشن پر ایک لیٹ نائٹ پروگرام ملا۔ رات گئے وہ پروگرام ختم ہوتا اور وہ اسلام آباد سے واپسی پر آبپارہ سے راولپنڈی جانے والی ایک ذیلی سڑک پر سفر کرتے جو اکثر تاریک اور سنسان ہوتی۔ وہ اس سڑک کا انتخاب اس لیے کرتے کہ یہ ایک طرح کا شارٹ کٹ تھا۔ یاد رہے یہ 80ء کی دہائی کی بات ہے‘ جب اسلام آباد کی سڑکوں پر اتنی ٹریفک نہیں ہوتی تھی اور رات گئے تو یہ سڑکیں بالکل سنسان ہو جاتی تھیں اور آبپارہ سے راولپنڈی آنے والی ذیلی سڑک پر گھپ اندھیرا ہوتا تھا۔ انہی دنوں کا ذکر ہے کہ ایک روز وہ معمول کے مطابق رات گئے ریڈیو پروگرام کرنے کے بعد آبپارہ سے اسی ذیلی سڑک پر سفر کر رہے تھے۔ سنسان سڑک رات کے گھپ اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ صرف کار کی ہیڈ لائٹس کی مدھم زرد روشنی راستے کا تعین کر رہی تھی۔ تب عرفان بھائی نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ بائیں ہاتھ سڑک کے کنارے ایک عورت کھڑی ہے‘ اس کے سر کے سیاہ لمبے بال کھلے تھے اور اس کے گہرے لال ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ اس کا قد سڑک کے کنارے لگے درختوں کے برابر تھا اور وہ ہاتھ کے اشارے سے لفٹ مانگ رہی تھی۔ (جاری)