عرفان بھائی نے جے وی کے بعد پرائمری سکول لال کُرتی میں پڑھانا شروع کر دیا تھا۔ اس وقت ان کی تعلیم میٹرک تھی۔ ماں کی خواہش تھی کہ اب ان کی شادی کر دی جائے لیکن عرفان بھائی ہر بار یہ کہہ کر ٹال دیتے کہ انہوں نے پہلے اپنی تعلیم پوری کرنی ہے۔ ماں کو خاموش کرانے کیلئے تعلیم کا بہانہ سب سے زیادہ کارگر تھا کیونکہ بچوں کی اعلیٰ تعلیم ماں کا خواب تھا۔ ادھر عرفان بھائی کو زندگی میں آگے بڑھنے اور مزید پڑھنے کی لگن نے بے چین کر رکھا تھا۔ سکول میں ملازمت کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایف اے کے امتحان کی تیاری شروع کر دی۔ 1964ء میں انہوں نے ایف اے کا امتحان پرائیویٹ امیدوار کے طور پر دیا اور امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کی۔ وہ دن ہمارے گھر میں بہت خوشی کا دن تھا۔ لیکن عرفان بھائی یہاں پر رکے نہیں‘ انہوں نے ایف اے کے بعد بی اے کے امتحان کی تیاری کا آغاز کر دیا اور 1966ء میں بی اے کے امتحان میں شاندار کامیابی حاصل کی۔ مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے‘ اُس دن میں عرفان بھائی کے ساتھ سائیکل پر بیٹھا تھا اور ہم سکول سے گھر جا رہے تھے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا جس پرائمری سکول میں وہ پڑھاتے تھے‘ میں اسی سکول میں پڑھتا تھا۔ راستے میں عرفان بھائی نے بتایا کہ وہ بی اے میں پاس ہو گئے ہیں۔ جب انہوں نے والدہ کو یہ خبر سنائی تو خوشی سے ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور انہوں نے ہاتھ اٹھا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔ لیکن عرفان بھائی اب اگلے مرحلے کیلئے تیاری کرنے لگے۔ 1968ء میں انہوں نے ایم اے کا امتحان دیا اور اس میں بھی نمایاں کامیابی حاصل کی۔ یاد رہے یہ سارے امتحانات انہوں نے اپنی ملازمت کے دوران پرائیویٹ امیدوار کے طور پر پاس کیے تھے۔
اب ان کا اگلا خواب لاہور کے سینٹرل ٹریننگ کالج سے بی ایڈ کرنا تھا۔ اس کیلئے انہیں لاہور جانا تھا۔ پھر ایک دن عرفان بھائی نے سب کو الوداع کہا اور لاہور کیلئے روانہ ہو گئے جہاں انہیں ہاسٹل میں رہنا تھا۔ پروگرام کا دورانیہ ایک سال کا تھا لیکن یہ وہ زمانہ تھا جب اُس وقت کے صدر ایوب خان کے خلاف تحریک چل رہی تھی۔ تعلیمی ادارے آئے روز بند ہوتے تھے۔ ایسے میں ہاسٹل بھی خالی ہو جاتے اور عرفان بھائی لاہور سے راولپنڈی آ جاتے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن کالج بند ہو جانے کی وجہ سے وہ اچانک لاہور سے راولپنڈی آ گئے۔ ہم سب انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ وہ میرے لیے بچوں کا ایک ناول ''گوریلا‘‘ لائے تھے‘ جسے میں نے اسی رات ختم کر لیا تھا۔ ایک سال کا عرصہ جلد ہی گزر گیا اور ایک دن عرفان بھائی بی ایڈ کا امتحان دے کر واپس آ گئے۔ امتحان کا نتیجہ تین چار ماہ بعد آنا تھا۔
اب والدہ نے فیصلہ کیا کہ عرفان بھائی کی شادی میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ عرفان بھائی کی شادی ہمارے چچا کی بیٹی کے ساتھ ہو رہی ہے۔ اس دن ہمارے گھر میں جشن کی سی کیفیت تھی۔ اب ہم سب شادی کے دن کا انتظار کر رہے تھے۔ گاؤں میں ہمارا اور چچا نذیر کا گھر ساتھ ساتھ تھا۔ وہ گاؤں کے قریب ایک مڈل سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے۔ یوں عرفان بھائی اور سلمیٰ بھابی ایک دوسرے کو بچپن سے جانتے تھے کیونکہ وہ ایک ہی صحن میں کھیل کر بڑے ہوئے تھے۔ دونوں خاندان اس رشتے پر بہت خوش تھے۔ شادی کی تاریخ 24 اکتوبر 1969ء کو طے پائی۔ عرفان بھائی کی بارات ہمارے ننھیالی گاؤں سے ددھیالی گاؤں جانا تھی۔ اس کیلئے دو کاروں اور ایک بس کا انتظام کیا گیا۔ ہم آدھے گھنٹے میں ہی اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ سڑک سے گاؤں کا فاصلہ تقریباً ایک کلو میٹر کا تھا اور وہاں سے آگے جانے کیلئے تنگ گلیاں تھیں‘ جہاں ہم سب پیدل گاؤں کیلئے روانہ ہوئے۔ مجھے یاد ہے کہ اس دن عرفان بھائی نے روایتی بھاری سہرے کے بجائے صرف گلاب کے پھولوں کا ہار پہنا تھا۔ نکاح مسجد میں پڑھایا گیا۔ واپسی پر بھابی کو ڈولی (پالکی) میں بٹھایا گیا اور ہم سب پیدل سڑک پر پہنچے جہاں ہماری گاڑیاں انتظار کر رہی تھیں۔ عرفان بھائی کے ولیمے کی تقریب یادگار تھی‘ جس کا اہتمام ہمارے ماموں قاضی عزیزالرحمن نے کیا تھا۔ ولیمے میں گاؤں اور شہر کے لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی تھی۔
سلمیٰ بھابھی اور عرفان بھائی کا ساتھ چھپن برس کا رہا اور یہ ساتھ عرفان بھائی کی وفات پر ختم ہوا۔ اس شادی سے ان کے ہاں دو بیٹے عمران اور نعمان اور دو بیٹیاں عنیزہ اور انیلہ پیدا ہوئیں۔ ماشاء اللہ ان چاروں بچوں کی اب شادیاں ہو چکی ہیں اور وہ اپنے اپنے گھروں میں خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ اپنی وفات سے ایک ماہ قبل 24 اکتوبر کو عرفان بھائی نے اپنی شادی کی آخری سالگرہ منائی۔ اس موقع پر عر فان بھائی اور بھابھی نے مل کر کیک کاٹا اور ایک دوسرے کو تحفے دیے۔ اس وقت ہمیں کیا خبر تھی کہ ہم انہیں آخری بار یکجا دیکھ رہے ہیں۔
شادی کی تقریب کے بعد ہم گاؤں سے راولپنڈی آ گئے۔ گھر میں ایک کمرہ عرفان بھائی کو دے دیا گیا۔ انہی دنوں کا ذکر ہے‘ جب عرفان بھائی کا بی ایڈ کا رزلٹ آیا۔ اُن دنوں رزلٹ پاکستان ٹائمز میں شائع ہوا کرتا تھا۔ عرفان بھائی اخبار میں دیے گئے بہت سے رول نمبروں میں اپنا رول نمبر تلاش کرنے لگے۔ تب اچانک ان کی نظر ایک چوکھٹے پر پڑی جس میں لکھا تھا کہ عرفان صدیقی بی ایڈ کے امتحان میں اول آئے ہیں۔ یوں بی ایڈ میں وہ گو لڈ میڈل کے حقدار ٹھہرے۔
شادی کے بعد کچھ عرصہ تو عرفان بھائی ہمارے ساتھ ایک ہی گھر میں رہے پھر جب ان کی فیملی میں ا ضافہ ہونے لگا تو انہوں نے ہمسائے میں ایک چھوٹا سا گھر کرایہ پر لے لیا۔ پھر عرفان بھائی کی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا۔ یہ 1970ء کی بات ہے جب انہیں راولپنڈی میں مال روڈ پر واقع معروف تعلیمی ادارے سرسید سکول سے ملازمت کی پیشکش کی گئی۔ اُن دنوں سر سید سکول اور کالج ایک ہی ادارہ تھا جس کا ایک سیکشن سکول اور دوسرا سیکشن کالج ہوا کرتا تھا۔ بعد میں کالج سیکشن اور سکول سیکشن علیحدہ علیحدہ ہو گئے اور کالج سیکشن کے سربراہ ایم ایچ ہمدانی کو مقرر کیا گیا۔ یہ 1974ء کی بات ہے جب سرسید کالج میں اردو لیکچرر کی ایک پوزیشن کو مشتہر کیا گیا۔ ان دنوں عرفان بھائی سرسید سکول میں پڑھاتے تھے۔ انہوں نے بھی اس پوزیشن کیلئے درخواست دے دی۔ انٹرویو کیلئے جن امیدواروں کو بلایا گیا ان میں عرفان بھائی بھی تھے۔ انٹرویو کینٹ بورڈ آفس میں تھا۔ انٹرویو کیلئے کال آنا ایک اچھی خبر تھی لیکن ایک مشکل آ پڑی تھی۔ انٹرویو کیلئے فارمل ڈریسنگ کی ضرورت تھی‘ اور عرفان بھائی کے پاس کوئی سوٹ نہ تھا۔ اس موقع پر ان کے ایک رفیقِ کار اکرام صاحب نے انٹرویو کیلئے عاریتاً عرفان بھائی کو اپنا سوٹ دیا۔ اتفاق سے دونوں کا ماپ ایک جیسا تھا۔ یوں انٹرویو کیلئے فارمل ڈریسنگ کا مسئلہ حل ہو گیا۔ انٹرویو کے دوران اور سوالوں کے علاوہ سہل‘ ممتنع کی بحث چھڑ گئی۔ اس ضمن میں عرفان بھائی نے عدم کے یہ اشعار سنائے:
ہنس کے بولا کرو بلایا کرو؍ آپ کا گھر ہے آیا جایا کرو
مسکراہٹ ہے حسن کا زیور؍ روپ بڑھتا ہے مسکرایا کرو
اس دن انٹرویو کے بعد عرفان بھائی گھر آئے تو وہ مطمئن تھے۔ اگلے ہی روز کالج کے پرنسپل ہمدانی صاحب نے ان سے رابطہ کر کے انہیں مبارکباد دی کہ انٹرویو بورڈ نے متفقہ طور پر ان کا انتخاب کیا ہے۔ یوں 1974ء میں عرفان بھائی کی تعیناتی سرسید کالج میں بطور لیکچرر ہو گئی۔ پرائمری سکول میں اسسٹنٹ ٹیچر سے ملک کے معروف اور معتبر کالج میں بطور لیکچرر تعیناتی عرفان بھائی کی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی تھی لیکن یہ تو محض ابتدا تھی۔ ابھی کتنے ہی نئے آسمانوں کی رفعتیں ان کی منتظر تھیں۔ (جاری)