برصغیر میں برطانوی سامراج کی تاریخ 200 برسوں پر محیط ہے‘ اس تمام عرصے میں اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کیلئے بدیسی حکمرانوں نے زور اور زبردستی کے تمام ہتھکنڈے استعمال کیے۔ عوام کی زباں بندی کیلئے جابرانہ قوانین بنائے گئے اور کوئی حکومت وقت کے خلاف آواز نہ اٹھا سکے‘ اس بات کو یقینی بنانے کیلئے ایسے ایسے اقدامات کیے گئے کہ جزیرہ انڈیمان میں کالا پانی کے نام سے بدنامِ زمانہ جیل بنائی گئی جہاں حریت پسندوں پر بہیمانہ تشدد کیا جاتا تھا لیکن ان سب ہتھکنڈوں کے باوجود آزادی کی خواہش لوگوں کے دلوں میں مچلتی رہی۔ حکومت کے جابرانہ اقدامات حریت پسندوں کو نہ روک سکے اور برطانوی سامراج کے خلاف ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بھرپور مزاحمت کی گئی۔ ملک کے طول و عرض میں بہت سی تحریکوں نے جنم لیا۔ ان تحریکوں میں مسلمانوں‘ سکھوں اور ہندوؤں نے شانہ بشانہ حصہ لیا۔ برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمت کا ایک اہم مرکز شمال مغربی سرحدی علاقہ تھا جہاں روحانی پیشواؤں اور مذہبی رہنماؤں نے لوگوں کو برطانوی استعمار کے خلاف اُٹھ کھڑا ہونے کیلئے ابھارا۔ ان رہنماؤں نے مذہب‘ ایمان اور قومی جذبے کو مزاحمت کا محرک بنایا۔
سب سے پہلی بڑی مزاحمتی تحریک سید احمد شہید کی قیادت میں اٹھی۔ یہ تحریک پشاور‘ ہزارہ اور بالا کوٹ کے علاقوں میں ایک مسلح جدوجہد کی شکل اختیار کر گئی۔ سید احمد شہید کا تعلق قبائلی علاقوں سے نہیں تھا‘ وہ اودھ کے علاقے رائے بریلی کے رہنے والے تھے۔ وہ 1786ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے دہلی میں شاہ عبدالقادر سے فیض حاصل کیا جو شاہ ولی اللہ کے صاحبزادے اور شاہ عبدالعزیز کے بھائی تھے۔ ان بزرگوں کا شمار انیسویں صدی کے سب سے بڑے مذہبی و فکری رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ بائیس سال کی عمر میں سید احمد نے شاہ عبدالعزیز کے ہاتھ پر بیعت کی۔ 1810ء میں وہ ٹونک کے نواب امیر خان کی فوج میں شامل ہوئے اور 1816ء تک خدمات انجام دیتے رہے۔ بعد ازاں انہوں نے ملازمت چھوڑ کر دوبارہ شاہ عبدالعزیز سے رہنمائی حاصل کی۔ ان کی روحانی عظمت کے اعتراف میں دو نامور علما شاہ اسماعیل شہید اور مولانا عبدالحئی نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ 1822ء میں سید احمد نے اپنے پیروکاروں کے بڑے قافلے کے ساتھ حج کا ارادہ کیا۔ حج سے واپسی پر سید احمد شہید نے ہندوستان میں جہاد اور اصلاح کی تحریک شروع کی۔ 1826ء میں مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا۔ کئی سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد 1830ء میں پشاور‘ جو اُس وقت سکھوں کے زیرِ تسلط تھا‘ مجاہدین کے ہاتھوں فتح ہوا۔ سید احمد نے حسنِ نیت کے تحت سلطان محمد خان کو‘ جو سکھوں کا حامی تھا‘ حکمران رہنے دیا جبکہ قاضی القضاہ کے طور پر مولوی ظفر علی کو مقرر کیا تاکہ فیصلے اسلامی قوانین کے مطابق ہوں۔ تاہم سید احمد کے پشاور سے روانہ ہونے کے بعد حالات بگڑ گئے۔ ان کے مقرر کردہ حکام کو قتل کر دیا گیا اور پشاور دوبارہ مجاہدین کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اس کے بعد سید احمد شہید بالاکوٹ پہنچے جہاں سکھوں سے ایک سخت جنگ ہوئی۔ 5 مئی 1831ء کو وہ شہید ہوئے۔ ان کی شہادت کے باوجود مزاحمت کا سلسلہ جاری رہا اور ان کے پیروکار جہاد کو آگے بڑھاتے رہے۔
سرحد کے علاقے میں ایک اور بڑا نام اخوند عبدالغفور (1793-1878ء) کا ہے‘ جنہوں نے سکھوں کے خلاف مزاحمت کی مگر زیادہ شہرت ان کے مرید مُلا نجم الدین ہدا کو ملی جو ''ہدا مُلا‘‘ کے نام سے معروف ہوئے۔ انہوں نے چترال میں برطانوی پیش قدمی کے خلاف بھرپور مزاحمت کی‘ جہاں انگریز ریلوے لائنوں اور چھاؤنیوں کے ذریعے اپنی گرفت مضبوط کر رہے تھے۔ ہدا مُلا نے اپنی روحانی کرشمہ سازی سے بونیر اور مہمند کے عوام کو برطانوی افواج کے خلاف متحد کیا۔ 1897ء اور 1898ء کی لڑائیوں میں انہوں نے انگریزوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ان کی کامیابی کا راز ان کا روحانی اثر اور عوام کے دلوں میں قومی جذبے کو ابھارنے کی صلاحیت تھی۔ اسی دور میں ایک اور عظیم مزاحمتی رہنما سامنے آ ئے۔ ان میں ایک حاجی صاحب ترنگزئی تھے جنہوں نے طویل عرصے تک برطانوی سامراج کے خلاف جنگ جاری رکھی۔ حاجی صاحب کا اصل نام فضل واحد تھا۔ وہ 1858ء میں ترنگزئی (ضلع چارسدہ) میں پیدا ہوئے۔ دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ دارالعلوم دیوبند گئے جہاں ان کی ملاقات شیخ الہند مولانا محمود الحسن سے ہوئی۔ جلد ہی دونوں میں گہری عقیدت پیدا ہو گئی۔ حج کے موقع پر وہ اپنے استاد کے ساتھ گئے اور وہاں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے حاجی امداد اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اپنے مرشد کے مشورے پر وہ اصلاحی مشن لے کر اپنے علاقے واپس آئے۔ واپسی پر انہوں نے ہدا مُلا کے ہاتھ پر دوبارہ بیعت کی‘ جو روحانیت اور برطانوی مخالف مؤقف کے حوالے سے مشہور تھے۔ یہ بیعت دراصل ان کی تحریک کو آگے بڑھانے کا وعدہ تھی۔ حاجی صاحب نے مالاکنڈ اور چکدرہ کے محاذوں پر سرگرم کردار ادا کیا۔ 1902ء میں ہدا مُلا کا انتقال ہوا تو مولوی عالم گل ان کے جانشین بنے اور حاجی صاحب ترنگزئی کو خلیفہ اور امیر المجاہدین کا لقب دیا گیا۔ انہوں نے عوام کو منظم کیا اور انگریزوں کے خلاف تحریک کو وسعت دی۔ 1915ء میں برطانوی حکومت نے انہیں اشتہاری قرار دیا اور گرفتاری کے احکامات جاری کیے۔
حاجی صاحب اپنے ساتھیوں کے ساتھ مہمند کے قبائلی علاقے میں منتقل ہو گئے‘ جو اُن کیلئے بہترین پناہ گاہ ثابت ہوا۔ وہیں سے انہوں نے اپنی حکمتِ عملی ترتیب دی اور شبقدر کے قلعے پر حملہ کیا۔ 1935ء میں ان کی آخری بڑی جھڑپ ہوئی جس میں انگریزوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور آخرکار وہ مذاکرات پر مجبور ہو گئے۔ بیس برس کی طویل جدوجہد کے بعد حاجی صاحب 1937ء میں وفات پا گئے۔ ان کی موت ایک دور کے اختتام کی علامت تھی‘ مگر ایک نیا باب جلد ہی کھلنے والا تھا۔ یہ نیا باب فقیر ایپی کی مزاحمت کا تھا۔ فقیر ایپی کا اصل نام مرزا علی خان تھا۔ وہ 1897ء میں شمالی وزیرستان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنے روحانی سفر کا آغاز چار باغ کے نقیب‘ ایک معروف افغانی عالم کی صحبت سے کیا۔ 1923ء میں حج ادا کرنے کے بعد وہ شمالی وزیرستان واپس آئے اور خانقاہی زندگی اختیار کی۔ تاہم کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے برطانوی حکومت کے خلاف گوریلا جنگ شروع کر دی۔ وسائل کی شدید کمی کے باوجود فقیر ایپی نے تقریباً دس برس تک انگریز افواج کو شمالی وزیرستان میں مصروفِ جنگ رکھا۔ ان کی قیادت میں قبائل نے ایک منظم مزاحمتی فورس کی شکل اختیار کر لی۔ انگریز فوج کیلئے یہ خطہ انیسویں صدی کے آخر تک دردِ سر بنا رہا۔
1947ء میں جب برطانوی سامراج نے برصغیر چھوڑا تو فقیر ایپی کی جدوجہد بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچی۔ یہ تحریکیں بظاہر مختلف علاقوں میں ہوئیں مگر ان کا بنیادی جذبہ ایک ہی تھا: مذہب‘ ایمان اور آزادی۔ ان رہنماؤں نے اپنے مریدوں کو بیعت کے رشتے میں باندھ کر مذہبی جذبے کو قومی شعور میں بدل دیا۔ یہی ان کی مزاحمت کی اصل قوت تھی‘ جس کی بدولت وہ برطانوی سامراج کے مقابل ڈٹے رہے۔ یہ تاریخ صرف ماضی کی یاد نہیں بلکہ برصغیر کے حریت پسندوں کی داستانِ استقلال ہے۔ ان رہنماؤں نے ثابت کیا کہ جب ایمان‘ خودی اور آزادی ایک دوسرے میں گھل مل جائیں تو بڑی سے بڑی سلطنت بھی کمزور پڑ جاتی ہے۔ سرحد کی سرزمین ان مجاہدوں کے خون سے رنگین ہے جنہوں نے غلامی کی زنجیریں توڑنے کیلئے اپنی جانیں قربان کر دیں۔ یہی مزاحمتی تاریخ کا وہ روشن باب ہے جس کے دم سے آج بھی آزادی اور حریت کا جذبہ ترو تازہ ہے۔