"AYA" (space) message & send to 7575

اتنے گئے گزرے تو نہ تھے

پاکستانیوں کو غور کرنا چاہیے کہ ہمارا ہمسایہ ایران کن مشکل حالات میں پھنسا ہوا ہے۔ مجبوری کے تحت امریکہ سے بات چیت کرنی پڑ رہی ہے اور امریکہ ہے کہ اُس نے واضح دھمکی دی ہے کہ ایٹمی ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیں گے۔ روس اور چین ایران کے حمایتی ہیں لیکن ایران کو پھر بھی امریکی دھمکی ملحوظِ خاطر رکھنی پڑ رہی ہے۔ طاقت کا توازن آپ کے خلاف ہو تو مجبوریاں آن گھیرتی ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ ایران کو ڈر ہے کہ ایٹمی معاملے پر کچھ بات نہ بنی تو امریکہ اور اسرائیل اُس کے ایٹمی ٹھکانوں پر حملہ کر سکتے ہیں۔ اس اندیشے کے پیشِ نظر ایران کو امریکہ سے بات چیت کرنی پڑ رہی ہے۔
اس تناظر میں دیکھیں تو پاکستان میں کچھ تو ہوگا کہ امریکی پریشر اور پابندیوں کے باوجود ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس کا سہرا بہتوں کو جاتا ہے‘ بھٹو سے لے کر ضیا تک۔ ہمارے سائنسدانوں بالخصوص ڈاکٹر اے کیو خان کا بڑا کمال ہے کہ نامساعد حالات کے باوجود انہوں نے اس صلاحیت پر عبور حاصل کرلیا۔ ہر چیز یا ہر پرزہ ہمارا بنایاہوا نہ تھا‘ کچھ یہاں سے چیز لی کچھ وہاں سے حاصل کی لیکن آخری نتیجہ تو یہی نکلا کہ تمام مشکلات کے باوجود پاکستان نے جوہری صلاحیت حاصل کرلی جو کہ لیبیا نہ کرسکا‘ عراق نہ کرسکا۔ اور جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں اتنے جتن کے باوجود ایران اب تک ایٹم بم نہیں بنا سکا۔ مطلب سارے تذکرے کا یہ کہ لاکھ کمزوریوں کے باوجود پاکستان اتنا گیا گزرا ملک نہیں ہے۔ جب کسی مقصد کی طرف تمام توانائیاں مرکوز ہوئیں تو جو حاصل کرنا تھا وہ کر لیا۔ رونا پھر یہ ہے کہ ہماری توانائیاں بکھری پڑی ہیں‘ ایک نکتے پر اُنہیں ہم اکٹھا نہیں کر پا رہے۔ ایٹمی پروگرام کے حوالے سے قومی یکسوئی نظر آتی تھی‘ اس لیے کامیابی حاصل ہوئی۔ باقی چیزوں میں یکسوئی پیدا کیوں نہیں ہو رہی‘ یہ ہمارا قومی المیہ ہے۔
کئی اور مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ ایک وقت تھا جب ریاستِ پاکستان کا کراچی اور فاٹا پر کنٹرول کھو چکا تھا۔ کراچی میں ہم جانتے ہیں کس خاص نوعیت کی دہشت گردی کی حاکمیت چلتی تھی۔ اور اُس کے حکم کے سامنے انکار ممکن نہیں تھا۔ جب وہ چاہتے تھے کراچی بند ہو جاتا تھا۔ یعنی کراچی‘ پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور تجارتی مرکز‘ اُن کی مٹھی میں تھا۔ فاٹا میں افغانستان میں جھمیلوں کی وجہ سے حاکمیت کسی اور کی قائم ہو چکی تھی۔ وہاں ٹی ٹی پی اور القاعدہ کی چلتی تھی اور جو وہ چاہتے تھے وہی کچھ ہوتا تھا۔ لیکن 2014-15ء میں جب ریاستِ پاکستان نے ارادہ باندھا تو کراچی میں الطاف حسین کی حاکمیت سے چھٹکارا حاصل ہوا اور فاٹا میں ٹی ٹی پی اور القاعدہ کو بھی اپنے ٹھکانے چھوڑنے پڑے اور افغانستان میں پناہ لینی پڑی۔ یہ کوئی چھوٹے واقعات نہیں تھے‘ بہت بڑے چیلنج تھے اور اِن سے نمٹنے میں ریاستِ پاکستان کامیاب رہی ۔
اس کا مطلب ہے کہ ریاستِ پاکستان میں اتنی صلاحیت اور قوت ہے کہ جب یکسوئی پیدا ہو تو بہت کچھ حاصل کرسکتی ہے۔ وہ یکسوئی کیوں پیدا نہیں ہو رہی؟ ہماری توانائیاں کیوں بکھری پڑی ہیں؟ قومی سمت اس وقت درست زاویے پر کیوں نہیں ؟ افراتفری کا منظر ہر طرف سے کیوں نظر آ رہا ہے؟ قومی معاملات میں جو ایک ٹھہراؤ اور استحکام ہونا چاہیے وہ ہمیں کیوں نصیب نہیں ہو رہا؟ ان سوالات پر ہمیں غور کرنا چاہیے۔ 2014-15ء کے سال اتنے دُور کے تو نہیں۔ ہم جیسے کہتے تھے کہ کراچی اور فاٹا کی دہشت گردیوں سے نمٹنا بہت مشکل ہے لیکن اُن سے بھرپور ٹکر لی گئی اور ریاست پاکستان کا پلڑا بھاری رہا۔ ایران کے پاس تیل ہے‘ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔ لیکن ایران اور اُس کے زیرا ثر تنظیموں نے غزہ اور لبنان میں غلط فیصلے کیے جس سے ان کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ اوراس نقصان کی وجہ سے ایران کی پوزیشن بھی کمزور ہوئی۔ وہ وقت اتنا دور کا نہیں تھا جب حزب اللہ اسرائیل کو للکارتا تھا اور اسرائیل اس کا کچھ نہ بگاڑ سکتا تھا۔ لیکن غزہ کے المیے کے بعد حزب اللہ کی لیڈر شپ کو ختم کر دیا گیااور بطورِ تنظیم حزب اللہ کمزور ہو گئی۔ حماس کے سرابراہ اسماعیل ہنیہ تہران میں سرکاری مہمان کی حیثیت سے موجود تھے اور اسرائیل کے ہاتھوں وہاں ان کا قتل ہو جاتا ہے۔ حزب اللہ کی قیادت کہیں زیر زمین اجلاس کر رہی تھی اور اسرائیل کے بم وہاں نیچے پہنچ جاتے ہیں۔ قومیں غلط فیصلے کریں تو نقصان اس قسم کا اٹھانا پڑتا ہے۔
کچھ اندازہ ہے کہ معمرقذافی جب لیبیا کے سربراہ تھے کتنی دولت کے مالک تھے؟لیکن جب حالات بدلے اور امریکہ ‘ برطانیہ اور فرانس نے انہیں ختم کرنے کی ٹھانی تو پھر انہیں چھپنے کیلئے کوئی جگہ نہ ملی۔ کمزور دعا کرسکتے ہیں اور ہاتھ اٹھا سکتے ہیں لیکن تاریخ کمزوروں کو معاف نہیں کرتی۔ اپنے ماضی کے حالات ہی دیکھ لیں‘ مغل سلطنت کے دور میں ہندوستان دنیا کا امیر ترین ملک تھا۔ دولت کے انبار تھے لیکن عسکری اعتبار سے ہندوستان یورپ سے پیچھے جا چکا تھا۔ جب ہندوستان کے ساحلوں پر یورپی آئے تو دیکھا گیا کہ ان کی بندوقتیں اور توپیں یہاں کے اسلحے سے افضل تھیں اور ان کی فوجی صلاحیت وہ تھی جس کا ہندوستان کی مختلف فوجیں تصور نہ کرسکتی تھیں۔ یورپی بالخصوص انگریز یہاں لاکھوں کی تعداد میں نہیں محض ہزاروں کی تعداد میں آئے لیکن اس قلیل تعدادکے انگریزوں نے میدانِ جنگ میں ہندوستانیوں پر اپنی سبقت ثابت کی اور دنیا کے اتنے بڑے خطے پر اتنی طویل حکمرانی کی۔
آج بھی دیکھ لیں‘ مسلم ممالک کے پاس دولت کی کمی تو نہیں لیکن عسکری اور ذہنی سبقت کس کی ہے؟ امریکیوں کی‘ چین کی‘ روس والوں کی۔ قذافی کے ساتھ کیا ہوا‘ شام میں بشارالاسد کا انجام ہم دیکھ چکے ہیں اور عراق میں صدام حسین آخری لمحوں میں ایک چھوٹی سی خندق میں چھپے پائے گئے تھے۔ کمزوروں کا یہی حال ہوتا ہے۔ تو ہم شکر کریں کہ پاکستان کسی کا لقمہ نہیں بنا۔ فوج ہماری اتنی کمزور نہیں‘ ایٹمی صلاحیت ہمارے پاس ہے۔ لوگ ہمارے اتنے بے ہنرے بھی نہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ان سب چیزوں کے ہونے کے باوجودبحیثیت مجموعی ہم لگتے ایسے ہیں جیسے دنیا کے اول ترین بھکاریوں کی صف میں کھڑے ہوں؟جوہری صلاحیت تو ہم نے حاصل کر لی‘ چھوٹے مسائل ہم سے حل کیوں نہیں ہوتے؟ سیاسی عقل و فہم ہم میں کیوں نہیں؟ چوبیس پچیس کروڑ کی آبادی ہے لیکن اس خلقت میں سے جو حکمران اٹھتے ہیں انہیں دیکھ کر خدا کی خدائی کی یاد آ جاتی ہے۔ پچھلے دس پندرہ سالوں میں برطانیہ کے اتنے وزیراعظم آئے کہ انہیں گننے بیٹھیں تو بھول ہو جائے۔ یہاں خدا کا عذاب دیکھیں کہ جو پچاس سال پہلے کے حکمران تھے آج تک قوم کے نصیبوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ گھوم گھوم کے وہی دائرے بنتے ہیں۔ جہاں سے شروع کریں اختتام انہی پرانے مہروں پر ہوتا ہے۔ کیا ہمارے گناہوں کی یہ سزا ہے یا ہمارا نصیب ہی کچھ ایسا لکھا گیا ہے کہ یہی کچھ ہمارے ساتھ ہونا ہے؟
بلوچستان کے سیاسی مسائل کوئی اتنے گمبھیر تو نہیں۔ بلوچ نوجوان چاند تو نہیں مانگ رہے۔ اسلام آباد پر چڑھائی تو نہیں کرنا چاہتے۔ ان کی پکار اتنی ہے کہ ہمیں بھی کسی گنتی میں رکھا جائے۔ یہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ بلوچستان میں انتخاب ہونے ہیں تو دھاندلی زدہ ہی ہونے ہیں‘ وہاں کے عوام کے ووٹوں سے نہیں ہونے‘ فیصلے اوروں کی مرضی سے ہونے ہیں۔جب ایسی حرکتیں سرزد ہوں گی تو پھر ردِعمل بھی آئے گا۔ کچھ توعقل سے کام لیں‘ کچھ سوزِ جگر پیدا کریں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں