ضیا کا دور ہو یا موجودہ دور‘ لوگ ایک عجیب بھولپن کا شکار رہتے ہیں کہ یہ دور عارضی ہے اور جلد ختم ہو جائے گا۔ وقت طول پکڑنے لگتا ہے تو پھر ہوش ٹھکانے آتے ہیں کہ یہ عارضی نہیں‘ دائمی بندوبست ہے۔ ایک معاصر میں بڑا عمدہ اداریہ چھپا ہے 'ڈیڈ لاکڈ‘ کے عنوان سے جس میں یہ نوید سنائی گئی ہے کہ پاکستان کی ہچکچاتی جمہوریت بالآخر رک گئی ہے۔ معاصر مبارک باد کا مستحق ہے کہ تقریباً تین سال بعد اُس پر یہ حقیقت منکشف ہوئی۔ جمہوریت کا رہا سہا بوریا بستر تب گول ہو گیا تھا جب پچھلی حکومت کا قضیہ ختم ہوا۔ یہ اور بات ہے کہ بہت سے لوگوں نے بھول پن میں یہ امید لگائے رکھی کہ خان کی رہائی ہو جائے گی اور جہاں سے حالات پھسلے ہیں وہاں پر واپس آ جائیں گے۔ اب جب پچھلی حکومت کو ہٹائے اتنا عرصہ بیت چکا ہے کہ آہستہ آہستہ یہ خیال ذہنوں میں بیٹھ رہا ہے کہ یہ کسی فلم کا ٹریلر نہیں باقاعدہ فلم ہے۔
سیاست کا شوق رکھنے والوں کو چیئرمین ماؤ کا لافانی قول نہیں بھولنا چاہیے کہ طاقت بندوق کی نالی سے بہتی ہے۔ بندوق جس کے ہاتھ میں ہو طاقت کا ارتکاز وہیں ہوتا ہے۔ باقی آئین‘ قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی دکھاوے کی چیزیں ہیں۔ یعنی سامنے کی نمائش جو کہ اندر کی حقیقت پر ہلکا سا پردہ ڈالے ہوتی ہے۔ ایک لحاظ سے جن تجربوں سے پاکستان پہلے وقتوں میں گزر چکا ہے اُس کا یہ زیادہ نفیس نمونہ ہے۔ ضیاالحق تو سیدھے سادے ڈکٹیٹر تھے۔ ایوب خان بھی ایسی ہی کشتی کے سوار تھے۔ یہ جو دور اب بھگتا جا رہا ہے اس کی حقیقت وہی ہے جو پہلے ایسے ادوار کی تھی لیکن سامنے سے تو جمہوریت کی ہلکی سی وارنش نظر آتی ہے۔ عدلیہ ہے پارلیمان بھی‘ ٹی وی چینل بھی ہر شب جلوہ افروز ہوتے ہیں لیکن حقیقت وہی ہے جس کا انتباہ چیئرمین ماؤ کے قول میں ملتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر حقیقت یہ ہے تو اس کے سامنے سرتسلیم خم کر لیا جائے۔ لیکن اصل حقیقت کا کچھ ادراک تو ہو کہ بھول پن کے لطیف سایوں سے نکلا جائے۔
البتہ دو چیزوں نے قوم کا دماغ خراب کیا ہوا ہے۔ ایک سوشل میڈیا‘ کیونکہ سوشل میڈیا پر کسی بات کا تمسخر اُڑایا جائے اور خوب تالیاں بجیں تو قوم پر گمان گزرتا ہے کہ طاقتور پریشان ہو گئے ہیں اور زبردستی کی دیواروں میں تھرتھراہٹ پیدا ہو گئی ہے۔ زمین پر کچھ نہیں ہوتا‘ بس سوشل میڈیا پر ہو ہا ہو جاتی ہے اور خاص طور پر نوجوان خوش ہو جاتے ہیں کہ لو ہم نے بڑا معرکہ مار لیا۔ دوسرا وکیلوں نے دماغ خراب کیا ہوا ہے۔ کچھ رکاوٹ پیش آتی ہے تو اعلان ہو جاتا ہے کہ ہم عدالت کے دروازے پر دستک دینے چلے ہیں۔ خوش فہمی کا غبار پیدا ہو جاتا ہے۔ اخبارات کی سرخیاں لگ جاتی ہیں‘ ٹی وی چینلوں پر بے تکی بحث چھڑ جاتی ہے۔ ہوتا کچھ نہیں اور غبار بیٹھ جاتا ہے لیکن وکلا حضرات تھکتے نہیں اور پھر کہہ دیتے ہیں کہ ہم سپریم کورٹ جا رہے ہیں۔ ایسی خوش فہمیوں کی حالت میں پی ٹی آئی والے تین سال گزار چکے ہیں۔ ظاہر ہے حاصل کچھ نہیں ہوا نہ ایسی خوش فہمی سے کچھ حاصل ہو سکتا تھا۔
اگر اسلام آباد ہائیکورٹ کے متحرک جج صاحبان خود انصاف کی تلاش میں ہیں تو سوچا جا سکتا ہے کہ اُنہوں نے اوروں کو کیا انصاف فراہم کرنا ہے۔ کتنی امیدیں جسٹس منصور علی شاہ سے باندھی گئی تھیں لیکن چھبیسویں آئینی ترمیم کا ایسا مرکب تیار کیا گیا کہ عوام الناس بھی بھول چکے ہیں کہ کس کو چیف جسٹس بننا تھا اور کیسی امیدیں باندھی گئی تھیں۔ احتجاج کی آوازیں بھی ماند پڑ چکی ہیں۔ اس حوالے سے پچھلے سال 26 نومبر کو جو کچھ ڈی چوک میں ہوا وہ پی ٹی آئی کیلئے فیصلہ کن ثابت ہوا کیونکہ اس کے بعد اُسے سمجھ آ گئی کہ نام نہاد لانگ مارچوں کا سلسلہ بیکار کی کارروائی ہے۔
اس روداد سے یہ نتیجہ اخذ نہ کیا جائے کہ پاکستان کے سیاسی منظر پر استحکام چسپاں ہو گیا ہے۔ ہوا صرف اتنا کہ پنجاب جہاں پہ پی ٹی آئی کا زیادہ زور تھا وہاں پی ٹی آئی کی آواز قانون اور طاقت کے سہارے دبا دی گئی ہے۔ خیبر پختونخوا جو کہ پی ٹی آئی کا دوسرا زور کا مرکز ہے وہاں ایک بہت خوبصورت چال کھیلی گئی ہے۔ ایک ایسی حکومت بٹھا دی گئی ہے جو اس پوزیشن میں نہیں کہ کسی سے ٹکر لے سکے۔ اور کیونکہ وہ پی ٹی آئی کی حکومت ہے تو پی ٹی آئی کے کارکن چپ سے بیٹھے ہیں‘ اُس کے خلاف تو کھڑے ہو نہیں سکتے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ احتجاج کے دائرے سرے سے پاکستان میں ختم ہو گئے ہیں۔ احتجاج کی نوعیت بدل رہی ہے۔
بلوچستان کے بارے میں بے شک یہ ارشاد ہو کہ پندرہ سو کے لگ بھگ افراد اسلامی جمہوریہ اور اُس کی مسلح افواج کا کیا بگاڑ سکتے ہیں لیکن آنکھیں مکمل بند نہ کی جائیں تو دیکھا جا سکتا ہے کہ بلوچستان میں شورش کی نوعیت پہلے ادوار سے مختلف ہے اور اُن وقتوں کی نسبت زیادہ شدت اختیار کر چکی ہے۔ وہاں کے نوجوان اور متحرک لوگ جو راستہ اپنا رہے ہیں وہ اس سوچ پر مبنی ہے کہ اُن کیلئے اور کوئی راستہ رہا نہیں۔ ریاست پر ہے کہ وہ یہ بات سمجھے اور بلوچستا ن کی صحیح صورتحال کا ادراک رکھے۔ وہاں کی صورتحال واقعی حقارت کے قابل ہوتی تو اُس کا ذکر کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ وہاں کی صورتحال چبھن پیدا کر رہی ہے تبھی ذکر لبوں پر آیا۔
ایک غلطی ریاست سرزد کر رہی ہے اور کچھ مبصرین بھی‘ اس لحاظ سے کہ بلوچستان اور کے پی کی صورتحال کو گڈمڈ کر دیا جاتا ہے حالانکہ ان دونوں کی نوعیت مختلف ہے۔ ٹی ٹی پی کے مقامی حمایتی ہیں لیکن عوام الناس کی حمایت ٹی ٹی پی کو حاصل نہیں۔ پختونوں پر چھوڑا جائے توٹی ٹی پی کی بند دماغ والی حکمرانی کو کبھی قبول نہ کریں۔ اور جیسا دیکھا گیا ہے‘ کئی جگہوں پر پختون عوام ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر ٹی ٹی پی کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ صورتحال بلوچستان میں نہیں۔ بھاری دل سے اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ بلوچ شورش کرنے والوں کے پیچھے خاصی حمایت پائی جاتی ہے۔ یعنی جو حکمتِ عملی خیبر پختونخوا میں کامیاب ہو سکتی ہے لازمی نہیں کہ بلوچستان میں بھی وہ نتائج حاصل ہو سکیں۔ بلوچستان میں سیاسی اپروج کی ضرورت ہے‘ کے پی میں ٹی ٹی پی کے دماغوں میں کسی سیاسی اپروج کی گنجائش موجود نہیں۔
ریاست جانے اور اُس کے کام ۔ پی ٹی آئی کو کیا کرنا چاہیے؟ ایک تو مختلف لیڈرانِ کرام اپنی زبانوں پر کچھ کنٹرول کریں۔ جو عمران خان کو مل کے آتا ہے اپنی کہانی بیان کرتا ہے‘ دوسرا جاتا ہے کچھ اور کہہ رہا ہوتا ہے۔ اس تماشے کو تو بند کیا جائے۔ یہ بھی ہے کہ اندر بیٹھے لیڈر کو وہ ملیں جنہوں نے پارٹی کو چلانا ہے۔ ہر نتھو خیرے کے ملنے سے کیا حاصل ہو سکتا ہے؟ ایک اور کٹھن بات ثابت ہو رہی ہے کہ گو تب بات بڑی اچھی لگتی تھی کہ پی ٹی آئی کو اسمبلیوں میں بیٹھنا چاہیے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ظاہر ہو رہا ہے کہ اس حکمتِ عملی سے پی ٹی آئی کو کچھ خاص فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ لیکن مشکل صورتحال ہے‘ اسمبلیوں میں بیٹھنا اگر بیکار ہے تو اسمبلیوں کو چھوڑ کر کیا مقصد پورا ہو سکتا ہے؟ مشکل وقت ہے اور انتظار کی گھڑیاں لمبی ہو رہی ہیں۔ لیکن دیکھنا چاہیے کہ اور متبادل بھی کیا ہیں۔