"SSC" (space) message & send to 7575

کمپنی بہادر: تجارت‘ سیاست اور حکومت … (7)

سراج الدولہ نے کلکتہ فتح کر لیا تھا۔ اس کے سپاہی فورٹ ولیم میں گشت کر رہے تھے کہ نشے میں دھت ایک گورے سپاہی نے دیسی سپاہیوں کو روک کر برُا بھلا کہا۔ اس پر سراج الدولہ کے سپاہیوں نے بھی اپنا ردِعمل دیا۔ بات جب سراج الدولہ تک پہنچی تو اس نے تمام انگریز قیدیوں کو رات بھرکیلئے ایک کمرے میں بند کرنے کا حکم دیا۔ انگریزوں کی لکھی تاریخ میں اکثر Black Holeکا ذکر آتا ہے۔ یہ بلیک ہول دراصل وہ کمرہ تھا جہاں انگریز قیدیوں کو رکھا گیا تھا۔ یہ جون کا مہینہ تھا اور بلا کا حبس۔ کمرے میں نہ ہوا نہ پانی۔ نتیجہ یہ کہ اگلے روز دم گھٹنے سے بہت سے قیدی مردہ حالت میں پائے گئے۔ یہ خبر جب باہر پہنچی تو انگریزوں نے رائی کا پہاڑ بنا لیا اور ہلاک شدگان کی تعداد کو مبالغے کی حد تک بڑھا چڑھا کر بتایا گیا۔ ان کے بقول کمرے میں قید کیے گئے 146قیدیوں میں سے صرف 23 زندہ بچے‘ لیکن مورخین نے اس خبر کو اس بنا پر گمراہ کن قرار دیا کہ 18مربع فٹ کمرے میں تو 146افر اد سما ہی نہیں سکتے۔ بہرحال یہ خبر لندن پہنچی تو اسے بڑھا چڑھا کر پراپیگنڈا کیلئے استعمال کیا گیا۔
سراج الدولہ 16جون 1756ء کو کلکتہ پہنچا تھا۔ کلکتے کی فتح کے بعد اس نے مانک چند کو کلکتہ کا گورنر بنایا اور وہاں کے معاملات اس کے سپرد کر کے 24جون کو وہاں سے روانہ ہو کر 11جولائی 1756ء کو مرشد آباد پہنچ گیا۔ میر جعفر کو یہ بات پسند نہ آئی کہ کلکتہ کی گورنری کیلئے سراج الدولہ نے اس کے بجائے مانک چند کا انتخاب کیا۔ وہ دل ہی دل میں انتقام کیلئے مناسب موقع اور وقت کے بارے میں سوچنے لگا۔جگت سیٹھ پہلے ہی سراج الدولہ سے ناراض تھا۔ کلکتہ ہاتھ سے چلے جانے پر ایسٹ انڈیا کمپنی بھی سراج الدولہ کے خون کی پیاسی تھی اور اب اس کی فوج کا اہم جنرل میر جعفر کلکتے کی گورنری نہ ملنے پر سراج الدولہ سے برگشتہ ہو گیا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی شکست کی خبر جب انگلستان پہنچی تو وہاں صفِ ماتم بچھ گئی۔ اس شکست سے نہ صرف انگریزوں کی سبکی ہوئی بلکہ ان کے معاشی مفادات پر بھی زد پڑی اور یہ انہیں ہرگز قبول نہ تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے بڑے سر جوڑ کر بیٹھے۔ انہیں برطانوی حکومت کی حمایت بھی حاصل تھی۔ دو ماہ تک سراج الدولہ پر جوابی حملے کی تفصیلی منصوبہ بندی کی گئی۔ منصوبے کو ہر پہلو سے دیکھا گیا تاکہ غلطی کی گنجائش باقی نہ رہے۔ انگریز اس بار سراج الدولہ کو ایسا سبق سکھانا چاہتے تھے جسے وہ ہمیشہ یاد رکھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی شکست کا بدلہ لینے کیلئے دو سطحوں پر منصوبہ بندی کی تھی۔ ایک طرف تو وہ مکمل فوجی تیاری کے ذریعے آ رہے تھے۔ چونکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو برطانوی حکومت کی باقاعدہ حمایت حاصل تھی اس لیے بحری جہازوں میں برطانیہ سے جدید اسلحہ اور فوجی آرہے تھے۔ دوسری طرف کلائیو نے سراج الدولہ کے مخالفین کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ سراج الدولہ کے مخالفین میں سب سے اہم جگت سیٹھ تھا جو جلد از جلد سراج الدولہ کی حکومت کا خاتمہ چاہتا تھا۔ وہ بظاہر خاموش تھا اور اپنے کسی عمل سے سراج الدولہ کو دشمنی کا تاثر نہیں دینا چاہتا تھا۔ سراج الدولہ کا دوسرا اہم مخالف میر جعفر تھا جو اُس کی فوج کے ایک حصے کا کمانڈر تھا۔ وہ بظاہر سراج الدولہ کا وفادار بنا ہوا تھا لیکن درونِ خانہ سراج الدولہ کے خلاف تھا۔ اس مخالفت کی دو اہم وجوہات تھیں؛ پہلی وجہ تو میر جعفر کی عمر اور وسیع تجربہ تھا‘ اس کے برعکس سراج الدولہ کو نوجوانی میں ہی بنگال کی نوابی مل گئی تھی۔ میر جعفر نے ذہنی طور پر کبھی سراج الدولہ کی قیادت کو نہیں مانا تھا۔ میر جعفر کی ناراضی کی دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ جب سراج الدولہ نے کلکتہ فتح کیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کو وہاں سے پسپا ہونا پڑا‘ سراج الدولہ نے مانک چند کو کلکتہ کا گورنر بنا دیا۔ میر جعفر کو پوری امید تھی کہ اس عہدے کیلئے اسے منتخب کیا جائے گا۔ جب ایسا نہ ہوا تو میر جعفر کا خون کھولنے لگا اور اس نے تہیہ کر لیا کہ سراج الدولہ کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا جائے اور اس کی جگہ وہ خود بنگال کا حکمران بنے۔ دربار میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا نمائندہ William Watsonبھی اقتدار کی راہداریوں میں ہونے والی سرگوشیوں سے بے خبر نہ تھا۔ ان سرگوشیوں میں سازش کی بُو تھی۔ یہ ساری صورتحال ایسٹ انڈیا کمپنی کیلئے سازگار تھی۔ ولیم واٹسن نے فیصلہ کیا کہ کلائیو سے فوری ملاقات کی جائے۔ اس ملاقات میں ولیم واٹسن نے کلائیو کو دربار میں سراج الدولہ کے خلاف ہونے والی سازشوں سے آگاہ کیا تو کلائیو کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔ وہ اس صورتحال کو اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتا تھا۔ اس نے فوری طور پر یہ اہم اطلاع ایسٹ انڈیا کمپنی کی سلیکٹ کمیٹی کو دی اور اس منصوبے کی منظوری چاہی کہ جگت سیٹھ اور میر جعفر سے مل کر سراج الدولہ کے اقتدار کا تختہ اُلٹ دیا جائے۔ سلیکٹ کمیٹی نے کلائیو کے دلائل سن کر اسے جگت سیٹھ اور میر جعفر سے اتحاد کی اجازت دے دی۔
یوں اب اس سازش میں میر جعفر اور جگت سیٹھ کے ساتھ کلائیو بھی شامل ہو چکا تھا۔ میر جعفر بنگال کا اقتدار چاہتا تھا۔ جگت سیٹھ اپنی مرضی کی حکومت چاہتا تھا۔ کلائیو ان دونوں کی خواہشات سے واقف تھا۔ کلائیو کے اپنے مقاصد تھے اور اس میں سب سے اہم مقصد ایسٹ انڈیا کمپنی کے معاشی اور سیاسی مفادات کیلئے ایک ایسے ماحول کا حصول تھا جس میں مکمل آزادی ہو اور مغل بادشاہ یا بنگال کے نواب کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ اب سازش کی شطرنج سج چکی تھی جس پر تین شاطر جگت سیٹھ‘ میر جعفر اور کلائیو اپنی اپنی چال چلنے کو تیار تھے۔ تینوں کو ایک دوسرے کی ضرورت تھی لیکن تینوں کو ایک دوسرے کا اعتبار نہ تھا۔ اس کا ایک ہی حل تھا کہ زبانی کلامی وعدوں کے بجائے تحریری شکل میں معاہدہ کیا جائے جس پر تینوں فریقین کے دستخط ہوں۔ معاہدے کے مطابق بنگال کے اقتدار کی مسند پر میر جعفر کو بٹھایا جائے گا۔ اس کے عوض میر جعفر اپنی زیر کمان فوج کے ہمراہ میدانِ جنگ میں انگریزوں کے ساتھ مل کر سراج الدولہ کے خلاف لڑے گا۔ کیسی ستم ظریفی تھی کہ سراج الدولہ کو خبر نہ تھی کہ بظاہر اس کا وفادار سپہ سالار اسی کے خلاف سازش کا حصہ بن گیا تھا اور سراج الدولہ کو ہٹا کر خود بنگال کا حکمران بننے کے خواب دیکھ رہا تھا۔
ادھر یہ منصوبہ تشکیل پا رہا تھا اور دوسری طرف ایک اور شاطر کو اس منصوبے کی بھنک پڑ گئی تھی۔ اس شاطر کا نام اومی چند تھا۔ اب وہ بھی اس کھیل میں اپنا حصہ چاہتا تھا۔ اس نے کلائیو سے رابطہ کیا اور اسے دھمکی دی کہ وہ اس سارے منصوبے کی اطلاع سراج الدولہ کو دے دے گا۔ یہ صورتحال کلائیو کیلئے پریشان کن تھی۔ اومی چند نے کلائیو کی پریشانی دیکھ کر ترپ کا پتہ پھینکا اور کلائیو کو پیشکش کی کہ اگر اسے 30لاکھ روپے دے دیے جائیں تو وہ اپنی زبان بند رکھے گا۔ کلائیو کو اومی چند پر غصہ تو بہت آیا لیکن یہ وقت غصے کا نہیں حکمت سے کام لینے کا تھا۔ ذرا سی بے احتیاطی بنا بنایا کھیل بگاڑ سکتی تھی۔ کلائیو نے اومی چند سے کہا کہ اسے سلیکٹ کمپنی سے اجازت لینا ہو گی۔ اومی چند بھی جہاندیدہ آدمی تھا‘ اس نے کہا زبانی کلامی بات نہیں ہو گی‘ اسے بھی تحریری معاہدے کا باقاعدہ فریق بنایا جائے۔کلائیو نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے افسران سے مشورہ کیا۔ 30لاکھ روپے اُس زمانے میں کوئی معمولی رقم نہ تھی لیکن دوسری صورت میں اومی چند سارے منصوبے کو چوپٹ کر سکتا تھا۔ بہت غورو خوض کے بعد کلائیو اور اس کے ساتھیوں نے نہلے پر دہلا مارنے کا فیصلہ کیا اور ایک ایسا منصوبہ تیار کیا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں