"AIZ" (space) message & send to 7575

فلسطین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی

اہلِ فلسطین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیلئے ملک کے طول و عرض میں مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ 18اپریل کو اہلِ حدیث جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل ادارے ''تنظیم المساجد والمدارس السلفیہ‘‘ کے زیر اہتمام جہاں بعض مساجد کی بحالی کیلئے ایک بڑے مارچ کا انعقاد کیا گیا وہیں اقصیٰ کے مظلوموں کے ساتھ بھی بھرپور طریقے سے اظہارِ یکجہتی کیا گیا۔ اس حوالے سے جامعہ بیت العتیق میں ایک اجتماعی جمعہ کے پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر خطبۂ جمعہ میں اور بعد ازاں ہونے والے مارچ میں اپنی جن گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا‘ ان کو کچھ کمی بیشی کے ساتھ قارئین کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں:
اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ الحجرات کی آیت10 میں اس بات کو واضح فرمایا کہ ''دراصل مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘۔ اسی طرح حدیث پاک میں بھی مومنوں کی مثال جسدِ واحد دی گئی ہے۔ اس حوالے سے صحیح مسلم میں حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''مسلمانوں کی ایک دوسرے سے محبت‘ ایک دوسرے کے ساتھ رحم دلی اور ایک دوسرے کی طرف التفات و تعاون کی مثال ایک جسم کی طرح ہے‘ جب اس کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو باقی سارا جسم بیداری اور بخار کے ذریعے سے (سب اعضا کو ایک دوسرے کیساتھ ملا کر ) اس کا ساتھ دیتا ہے‘‘۔ مسند احمد میں بھی حضرت نعمانؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ''مومن کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ اگر انسان کی آنکھ کو تکلیف ہوتی ہے تو سارے جسم کو تکلیف کا احساس ہوتا ہے اور اگر سر میں تکلیف ہو تب بھی سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے‘‘۔ ان احادیثِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسلمان ہمیشہ دوسرے مسلمان کے درد کو محسوس کرتا ہے۔
امت مسلمہ میں اس وقت اس اعتبار سے بے حسی پائی جاتی ہے کہ ہم بالعموم اپنی قوم اور وطن کے بارے میں تو حساس ہیں لیکن دوسرے اوطان میں بسنے والے مسلمانوں کے بارے میں ہم میں بے حسی پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان اس بات کا گمان کرتے ہیں کہ اگر اہلِ برما‘ اہلِ کشمیر اور اہلِ فلسطین تکلیف میں ہیں تو ان کی تکلیف سے انہیں کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ اس بات کو فراموش کر دیتے ہیں کہ گردشِ ایام کی لپیٹ میں کوئی بھی شخص اور قوم کسی بھی وقت آ سکتی ہے۔ چنانچہ اگر امت کا کوئی حصہ تکلیف کا شکار ہو تو ہمیں اس تکلیف کو دل کی گہرائی تک محسوس کرنا چاہیے اور ان کی تکلیف کے ازالے کیلئے جس حد تک ممکن ہو‘ اپنی کوششوں کو جاری رکھنا چاہیے۔ جمعہ کے اجتماع اور اسکے بعد رائیونڈ روڈ پر ہونے والے اس مارچ میں لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ مارچ سے حافظ عبدالغفار روپڑی‘ حافظ شفیق الرحمن زاہد‘ علامہ طارق یزدانی اور دیگر راہنماؤں نے خطاب کیا اور اہلِ فلسطین کے ساتھ بھرپور انداز میں اظہارِ یکجہتی کیا۔
20اپریل کو اہلِ حدیث یوتھ فورس پاکستان کے زیر اہتمام مرکز اہلحدیث راوی روڈ سے لے کر اسمبلی ہال تک سیو غزہ مارچ کا انعقاد کیا گیا جس میں حافظ سلمان اعظم‘ برادر اصغر معتصم الٰہی ظہیر‘ ڈاکٹر عبدالغفور راشد‘ حافظ محمد علی یزدانی اور دیگر راہنماؤں نے خطاب کیا۔ اس موقع پر میں نے اپنی جن گزارشات کو عوام کے سامنے رکھا‘ ان کو کچھ کمی بیشی کے ساتھ قارئین کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں:
یہود عرصۂ دراز سے اللہ تبارک و تعالیٰ کے دین کے حوالے سے منفی طرزِ عمل کا شکار ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات کے بارے میں یہود نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے معاذاللہ‘ اللہ کے ہاتھوں کو تنگ کہا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے اس قول شنیع پر لعنت کی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہود اللہ تبارک و تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتے رہے اور انبیا علیہم السلام اور نیکی کا حکم دینے والوں کو شہید بھی کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ البقرہ کی آیت 61میں ارشاد فرماتے ہیں ''ان پر ذلت اور مسکینی ڈال دی گئی اور اللہ تعالی کا غضب لے کر وہ لوٹے‘ یہ اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کیساتھ کفر کرتے تھے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے‘ یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا نتیجہ ہے‘‘۔
یہود اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مسلسل اِیذا دیتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے کبھی ان پر من و سلویٰ کو نازل کیا اور کبھی بادلوں کو سایۂ فگن کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی بہت سی نشانیاں بھی دکھلائیں لیکن اس کے باوجود وہ سرکشی کے راستے پر گامزن رہے۔ انکو ہفتے کے دن مچھلی کا شکار کرنے سے روکا گیا لیکن وہ ہفتے کے دن جال لگا کر مچھلیوں کو روک لیتے اور اگلے دن پکڑ لیا کرتے تھے۔ احکاماتِ الٰہی میں تاویل کرتے‘ حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے‘ سود کھاتے اور اللہ کے احکامات سے انحراف کرنے میں مصروف رہتے۔ جب ان کو جہاد کا حکم دیا گیا تو مختلف حیلے بہانے سے جہاد کرنے سے اعراض کرتے رہے۔ اپنی کتابوں اور انبیا علیہم السلام سے نبی کریمﷺ کی بعثت کے بارے میں حاصل ہونے والی معلومات کی وجہ سے مدینہ طیبہ اور اس کے اطراف و اکناف میں آکر مقیم ہوئے لیکن جب دیکھا کہ نبی مہرباں حضرت محمد کریمﷺ کا تعلق بنو اسحاق کے بجائے بنو اسماعیل کے ساتھ ہے تو آپﷺ کی عداوت اور دشمنی کے راستے پر چل نکلے۔ انہوں نے آپﷺ کے کھانے میں زہر ملانے کی ناپاک جسارت کی۔ آپﷺ پر جادو کا حملہ کیا اور آپﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخیاں کیں۔ ان گستاخیوں کی وجہ سے کعب ابن اشرف‘ محمد بن مسلمہؓ کے ہاتھوںکیفر کردار تک پہنچا اور ابو رافع یہودی کو حضرت عبداللہ ابن عتیکؓ نے اسکے انجام تک پہنچایا۔ یہودیوں کے سردار مرحب کو حضرت علی المرتضیٰؓ نے خیبر کے قلعے کی فتح کے دوران شکست دی۔ رسول اللہﷺ نے جزیرۃ العرب سے یہود و نصاریٰ کو باہر نکالنے کا حکم دیا جس پر حضرت فاروق اعظمؓ کے دور میں عمل کیا گیا۔
یہود اس دن سے لے کر آج تک مسلسل مسلمانوں کے خلاف برسرِپیکار ہیں۔ دینی عصبیت کیساتھ ساتھ نسلی عصبیت کے جذبات سے مغلوب ہو کر مسلمانوں کیخلاف شر انگیزی کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ یہود نے ایک تدبیر کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر نقل مکانی کے عمل کو جاری و ساری رکھا اورالقدس کے علاقے میں مقامی آبادی کو جبراً ایک سازش کے ذریعے اقلیت میںتبدیل کر دیا گیا۔ کئی عشروں سے مظلوم مسلمان یہود کے ظلم اور چیرہ دستیوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ اس نسل کشی کو دیکھ کر بھی اقوام عالم کا ضمیر بیدار نہیں ہوتا۔ گو مسلمان امت غفلت کا شکار ہے لیکن اب بھی مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد فلسطین میں ہونے والے ظلم و تشدد پر پریشانی اور اضطراب کا شکار ہے۔ مسلمان چاہتے ہیں کہ فلسطینیوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کیلئے راست اقدام کیے جائیں لیکن مسلمان حکمران یہود کے بین الاقوامی نیٹ ورک‘ ان کی مادی ترقی اور عسکری قوت کی وجہ سے ان کا سامنا کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ اگر مسلمان بحیثیت مجموعی یہود کے مظالم کے خلاف یکسو ہو کر منظم حکمت عملی اختیار کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ اہلِ فلسطین کے دکھوں کا مداوا ہو جائے۔ اسی مناسبت سے آٹھ اپریل کو اسلام آباد میں قومی فلسطین کانفرنس کا بھی انعقاد کیا گیا تھا اور ایک مرتبہ پھر مجلس اتحاد امت کے زیر اہتمام مینارِ پاکستان گراؤنڈ میں بھی ایک عظیم الشان کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس میں تمام مکاتب فکر کے جید علما خطاب کریں گے۔ مسلمان امت کے اظہارِ یکجہتی کی وجہ سے اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ مسلمان حکمران اہلِ فلسطین کی حمایت کیلئے کوئی مناسب تدبیر اختیار کریں جس سے فلسطینیوں کے دکھوں کا ازالہ ہو سکے۔
امید ہے کہ آنیوالے دنوں میں مسلسل رابطہ عوام مہم کے نتیجے میں کوئی مثبت خبر سننے کو ملے۔ اللہ تعالیٰ مظلوم فلسطینیوں کی مدد فرمائے اور ہم سب کو ان کی معاونت اور تائید کرنے کی توفیق دے‘ آمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں