ہر راگ کا ایک وقت ہوتا ہے اور اُسی سمے اس کی ادائیگی بہتر سمجھی جاتی ہے۔ جب برصغیر میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کا جواز ڈھونڈا جا رہا تھا تب دو قومی نظریے کی بات بنتی تھی اور اسی بنیاد پر تحریکِ پاکستان استوار ہوئی۔ لیکن اب جب دو نہیں تین ریاستیں بن چکی ہیں‘ دو قومی نظریے کی تکرار کیا معنی رکھتی ہے؟ پاکستان بن گیا اور پاکستان میں سے بنگلہ دیش نے جنم لیا۔ ہندوستان دنیا میں اپنا مقام بنا رہا ہے۔ اب دھیان آگے کی طرف ہونا چاہیے۔ اور کیونکہ پاکستان بنے ستتر سال ہو چکے ہیں تو شاید یہ بھی موزوں ہو کہ دیکھا جائے کہ ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ یعنی دو قومی نظریے کا ایک وقت تھا‘ اب قومی زندگی کے تقاضے کچھ بدل چکے ہیں اور بہتری اسی میں ہے کہ ان تقاضوں کو سمجھا جائے اور ان سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کی جائے۔
دنیا کے کسی اور ملک میں ایسی تکرار کی گفتگو نہیں پائی جاتی۔ جہاں مخاصمت بھی ہو گفتگو کسی اور انداز میں کی جاتی ہے۔ امریکہ اور چین کے اپنے اپنے پیمانے اور زاویے ہیں لیکن وہاں بھی کوشش ہوتی ہے کہ مخاصمت کے باوجود کچھ مشترکہ پہلو ڈھونڈے جائیں تاکہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور کام چلانے کا راستہ اپنایا جائے۔ جس طرح کی جنگ ویتنام نے امریکہ کے خلاف لڑی اس نوعیت کی جنگ تو ہندوستان اور پاکستان میں نہیں ہوئی لیکن امریکہ اور ویتنام بھی آپس میں مشترکہ پہلو ڈھونڈنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر اُن کے تجارتی رشتے قائم ہیں۔ جنگ کی یادیں زندہ ہوں گی لیکن ہر موقع پر جنگ کی یادیں تازہ کرکے ایک دوسرے کو للکارتے نہیں۔ ایک زمانہ تھا کمیونسٹ چین اور امریکہ میں کوئی روابط نہ تھے۔ باہمی سفارتی تعلقات قائم نہیں تھے۔ لیکن اُس دور سے دونوں ممالک نکلے اور گو مخاصمت کا ایک نیا دور شروع ہو چکا ہے آپس کے تجارتی روابط اب بھی دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔
ہندوستان اور پاکستان کا کوئی عجیب پرابلم ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف بے تکے کلمات سے گریز نہیں کیا جاتا۔ کوئی ہندوستانی وزیر ایسا بیان داغ دے گا اور یہاں پر فرض سمجھا جاتا ہے کہ اُسی پیرائے میں یا اُس سے زیادہ میں جواب دیا جائے۔ ہم جو پاکستانی ہیں‘ ہمارے تو اپنے مسائل بڑے گمبھیر ہیں۔ ترقی کی دوڑ میں ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ مانگے تانگے پر ہی گزارا چل رہا ہے۔ قرضہ نہ ملتا رہے تو ریاستی پہیے جام ہو جائیں۔ ہندوستان کے ساتھ مسائل ہیں لیکن ہم ہمسائے ہیں اور کسی اور چیز نہیں تو جغرافیے کا حکم ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے طریقے سیکھیں۔ ہندوستان اور چین کے درمیان مسائل ہیں لیکن اُن کی تجارت دیکھی جائے تو باہمی تعاون کے اصولوں پر دونوں ممالک چل رہے ہیں۔ ہماری عجیب سوچ ہے کہ اپنے سب سے بڑے ہمسائے سے الگ تھلک ہو کے رہنا ہے۔ یہ عقل پر مبنی سوچ نہیں لیکن دہائیوں سے اسی کو سنہری اصول سمجھا گیا ہے۔
رہا دو قومی نظریہ اس کے بارے میں اتنا تو سوچنا چاہیے کہ ہر موقع پر اس کا ذکر چھڑے تو کوئی بلوچ یا سندھی قوم پرست کہہ سکتا ہے کہ حضور ہم بھی تو یہی بات کر رہے ہیں کہ ہم مختلف ہیں اور ہمارے مفادات مختلف ہیں۔ اور اگر اس کے جواب میں یہ کہا جائے کہ ہم مختلف نہیں ہمارا مذہب ایک ہے تو جواب در جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضور افغانستان کے ساتھ بھی آپ کا مذہب ایک ہے لیکن آپ کے مسائل اپنی جگہ ہیں۔ جن حالات کا ہمیں آج سامنا ہے اُن کی نزاکتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پھر یہ ہم کیوں بھلا دیتے ہیں کہ جتنے مسلمان پاکستان میں ہیں تقریباً اتنے ہی ہندوستان میں ہیں۔ جب وہ مسلمان ہندو انتہا پسندی کی زد میں آ رہے ہیں تو یہ کہاں کی حکمتِ عملی ہے کہ بار بار یاد دلایا جائے کہ ہندو اور مسلمان سرے سے مختلف ہیں اور ان میں کوئی مشترکہ پہلو اجاگر نہیں ہو سکتا۔ اور اگر دو قومی نظریے پر بہت ہی اصرار کیا جائے تو وہاں کی حکمران جماعت کے لوگ بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ ہم نہ کہتے تھے کہ ہندوستانی مسلمانوں کا وجود ہندوستان کیلئے خطرہ ہے اور ہندوستانی مسلمان ہندوستان کے کبھی وفادار نہیں ہو سکتے۔
ویسے بھی مسلمان علیحدگی پسندی کا نعرہ مسلمانوں کے زوال کا نعرہ ہے۔ جب ہندوستان پر مسلم حاکمیت قائم تھی تب تو کسی مسلمان حکمران نے دو یا مختلف قوموں کا نعرہ نہیں لگایا۔ سیدھی سادی بات تھی‘ ایک طرف مسلمان حاکم دوسری طرف محکوم قومیں۔ یہ تو جب سلطنت گئی‘ حاکمیت گئی اور انگریز سامراج کی نسبت سے جمہوری اصولوں کی باتیں ہونے لگیں تو وسط ہندوستان کے مسلمان زعما میں یہ ڈر پیدا ہونے لگا کہ انگریز رخصت ہوئے اور پیچھے جمہوریت چھوڑ گئے تو اکثریت ہندوؤں کی ہو گی اور ایسا ہوا تو ہم مارے جائیں گے۔ اُس خاص ماحول میں یہ آواز اٹھی کہ مسلمان اور ہندو دو مختلف قومیں ہیں اور کیونکہ مسلمان قوم عددی لحاظ سے اقلیت میں ہے تو اپنے تحفظ اور وجود کیلئے اُسے خاص رعایتیں ملنی چاہئیں۔ اس ضمن میں سب سے بڑی رعایت جداگانہ طرزِ انتخاب تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ نظریاتی علیحدگی جغرافیائی علیحدگی کی صورت اختیار کر گئی۔ لیکن جب یہ سب کچھ ہو گیا تو جیسے عرض کیا آگے دیکھنے کی ضرورت تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ رشک بھری نظروں سے ہندوستانی ہمیں دیکھتے۔ ہر اعتبار سے پاکستان آگے ہوتا۔ یہاں سارا حساب ہی الٹ ہو گیا ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کی حاکمیت صدیوں تک رہی تو مسلمان ہندوؤں کو اپنے برابر نہ سمجھتے تھے۔ لیکن آج ہندوستان آگے ہے اور کشکول اُٹھائے سیاسی سے لے کر معاشی مسائل تک میں ہم گھرے ہوئے ہیں۔
دو قومی نظریے نے اپنا کام کر دکھایا۔ اب تو ایک قومی نظریے کا نعرہ لگنا چاہیے۔ لیکن ایسا نعرہ جس میں پاکستان کی مختلف اکائیوں کا ہر فرد اپنی پہچان پا سکے۔ امریکہ میں بہت سی قومیں بستی ہیں لیکن وہاں ہر ایک اپنے آپ کو امریکی سمجھتا ہے۔ برطانیہ میں کھل کے کہا جاتا ہے کہ یہاں چار قومیں بستی ہیں لیکن پھر بھی برطانیہ کی وحدت قائم ہے۔ سکاٹ لینڈ والے آزادی کی بات کرتے ہیں تو اُس کا حل آئینی اور قانونی ڈھانچے میں ڈھونڈا جاتا ہے۔ سکاٹ لینڈ کی آواز دبانے کیلئے برطانوی فوج چڑھائی نہیں کرتی اور ضمناً یہ بھی یاد رہے کہ برطانوی فوج کی باقاعدہ تعداد پنجاب پولیس سے کم ہے۔ ستتر سالوں میں پتا نہیں ہمیں کہاں پہنچ جانا چاہیے تھا لیکن گہرے پانیوں میں ہچکولے کھاتے پھر رہے ہیں۔
ہماری تاریخ سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ دو قومی نظریہ علیحدگی کی تحریک کیلئے تو کافی تھا لیکن نئے ملک میں جن مسائل نے جنم لیا اُن کے حل کیلئے ناکافی تھا۔ جب بنگالیوں نے اپنی زبان کی بات کی تو دو قومی نظریہ اُنہیں کون سا افاقہ پہنچا سکتا تھا؟ بلوچوں نے اپنے حقوق کی بات کی تو یہاں جو ڈنکا بجایا گیا اُن کے کسی کام نہ آیا۔ یہاں ہوتا یہ رہا ہے کہ نظریہ اور نظریات کو عذر کے طور پر استعمال کیا گیا۔ آئین نہ بن سکا تو مقاصدِ مملکت بیان ہونے لگے۔ بنگالیوں کو اُردو کی عظمت کا بھاشن دیا گیا اور جب وہ یہ بات سمجھ نہ سکے تو اُن کی حب الوطنی پر سوال اُٹھائے گئے۔ سیاسی اور معاشی مسائل حل نہ ہوئے تو اسلام کا نعرہ لگایا گیا۔ اور اسلام کی بات تو یہاں تک پہنچی کہ جو آیا پاکستان کی مسلم آبادی کو پھر سے مسلمان بنانے میں لگ گیا۔ اچھا بھلا ملک تھا اور بہت آگے جا سکتا تھا لیکن نظریات کے ان جھمیلوں نے اور کچھ قدرتی نکمے پن نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔