ایک دفعہ اتوار والے دن میں لاہور انار کلی بازار میں پرانی کتابوں کے درمیان ڈوبا ہوا تھا۔ اگر میں اتوار کو لاہور میں ہوں تو دنیا ادھر کی اُدھر ہو جائے میں کتابوں کے پرانے بازار ضرور جاتا ہوں۔کئی دفعہ ملتان سے واپس اسلام آباد جاتے ہوئے اتوار کا روز ہونے کے باعث گاڑی کا رُخ لاہور کی طرف موڑ دیا کہ چلیں چھ بجے تک انار کلی بازار سے اسلام آباد چلے جائیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ انار کلی نے شہزادہ سلیم کو اپنے حسن یا اداؤں سے متاثر کیا ہو لیکن اکبر بادشاہ کو اس نے سخت مایوس کیا کہ وہ اس کے ولی عہد کو بگاڑ رہی تھی۔ لیکن مجھے کم از کم کتابوں کی حد تک تو انار کلی نے کبھی مایوس نہیں کیا۔ جب میں انار کلی بازار میں کتابیں دیکھ رہا تھا تو ایک نوجوان مجھے پہچان کر بولا: ملکی سیاست کا کیا حال ہے؟ ہمارا خان کب باہر آئے گا؟میں نے کتابوں کے پرانے ڈھیر سے آنکھیں ہٹا کر اُس کی طرف دیکھا۔ میں اکثر بحث مباحثے سے گریز کرتا ہوں۔ دوسروں کی رائے سن لیتا ہوں۔ اس طرح کچھ دیر کیلئے ان کے دل کا بوجھ بھی ہلکا ہو جاتا ہے۔ مجھے یہ بھی علم ہے کہ جو لوگ آپ سے رائے مانگ رہے ہوتے ہیں وہ دراصل اپنی رائے سنانا چاہتے ہیں لہٰذا بہتر ہے کہ ان کو سن لیا جائے‘ ہو سکتا ہے وہ آپ کے علم میں نئی بات یا زاویے کا اضافہ کریں۔ میں نے اُس نوجوان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ چھوڑو برادر‘ دیکھو کتنا خوبصورت موسم ہے‘ کتنی شاندار کتابیں ہر طرف بکھری پڑی ہیں‘ آپ بھی کتابیں دیکھو‘ میں بھی دیکھ رہا ہوں۔ ایک کتاب کی خریداری کے بعد دوسری کتاب خریدنے کا فیصلہ کرنے میں جو تھوڑا وقت بچ جاتا ہے‘ میری کوشش ہوتی ہے کہ اس وقت میں کوئی جاننے والا نہ ہی ملے تو بہتر ہے۔ مل جائے تو پھر دس پندرہ منٹ تو گئے اور جس کو آپ اچھی طرح نہیں ملیں گے وہ آپ کو بدتمیز اور مغرور قرار دے دے گا اور فیس بک پر پوسٹ لکھتا پھرے گا‘ لہٰذا ہر کسی کو وقت دینا پڑتا ہے۔ خیر میں نے خاموش رہ کر کتابوں کی تلاش جاری رکھی لیکن اس نوجوان نے بھی ہمت نہیں ہاری اور پھر کہا‘ سر جی ہمارا خان کب باہر آئے گا؟میں نے کہا کہ اگر میں یہ بتا دوں کہ خان کب جیل سے باہر آئے گا تو مجھے چائے پلاؤ گے؟ اس بات پر مجھے اپنا ایک سرائیکی بھائی یاد آیا جو ڈاکٹر کے پاس گیا اور کہا مجھے درد ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر نے پوچھا کہاں ہو رہا ہے؟ وہ سرائیکی بھائی بولا کہ اگر میں بتا دوں تو پھر آپ اپنی فیس نہیں لیں گے؟ ڈاکٹر نے کہا کہ فیس تو لوں گا۔ وہ سرائیکی بولا تو پھر ڈاکٹر صاحب آپ خود ہی درد کو ڈھونڈیں کہ کہاں ہو رہا ہے‘ اگر درد بھی میں نے بتانا ہے اور فیس بھی میں نے دینی ہے تو میں کیوں آپ کا کام آسان کروں؟ خیر میری چائے والی بات پر وہ بولا ‘جی بالکل میں چائے پلاؤں گا۔ میں کتابیں دیکھتا رہا اور اس دوران اس لڑکے سے سوال کیا کہ ینگ مین ایک بات بتاؤ‘ آپ کو وزیراعظم بننے کا شوق ہے؟ وہ میرے سوال پر کچھ حیران ہوا۔ بولا: کیا مطلب؟ میں نے کہا کہ ایک سوال پوچھا ہے۔ وہ بولا: نہیں‘ مجھے شوق نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کو اس ملک کا وزیراعظم بننے کا شوق کیوں نہیں ہے؟ کیا آپ کو شوق نہیں کہ آپ کو بھی پروٹوکول ملے‘ آپ کے آگے پیچھے گاڑیوں کے قافلے چلتے ہوں‘ آپ کے لیے ٹریفک روک دی جائے‘ آپ کے ایک قلم سے لوگوں کی زندگی موت کے فیصلے ہوں۔ آرمی چیف‘ ڈی جی آئی ایس آئی اور وزرا تک سب آپ کی مرضی سے لگیں۔ آپ دنیا بھر کے دورے کریں‘ آپ کو کروڑوں روپوں کے تحائف ملیں جو آپ کوڑیوں کے مول گھر لے جائیں۔ تحائف کے نام پر ملنے والی قیمتی گاڑیاں آپ ڈیوٹی معاف کر کے اپنے پورچ میں کھڑی کر لیں۔ آپ بیوروکریسی میں جس کو چاہیں اوپر نیچے کر دیں۔ لوگوں کی تقدیریں بدل دیں۔ آپ کے بھی آف شور بینک اکاؤنٹس ہوں‘ بیرونِ ملک جائیدادیں ہوں‘ ارب پتی لوگ آپ کو پارٹی فنڈ کے نام پر چندہ دیتے ہوں‘ بڑے بڑے بلڈرز آپ کو خیرات کے نام پر پیسہ کھلاتے ہوں‘ رہائشی کالونیوں کے ارب پتی مالکان اپنے نجی جہازوں پر آپ کو عمرہ کرانے خاندان سمیت لے جائیں۔ آپ کسی ایسے شخص کو‘ جو لاہور بھی پہلی دفعہ آیا ہو‘ صوبے کا وزیراعلیٰ بنا دیں۔ آپ کا پورا خاندان عیاشی اور مزے کرے۔ کیا آپ کو اس سب کا شوق نہیں ہے؟ وہ کچھ دیر حیرانی سے مجھے دیکھتا رہا کہ میں کیا اول فول بک رہا ہوں۔ پھر بڑی مشکل سے بولا کہ جی مجھے اس سب کا شوق نہیں ہے۔
میں نے کہا ہو سکتا ہے شوق ہو لیکن آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے اندر اس درجے تک جانے کی صلاحیت نہیں ہے لہٰذا آپ اپنی زندگی میں جو چل رہا ہے اسی پر خوش ہیں۔ میں نے کہا کہ مزے کی بات یہ ہے کہ مجھے بھی ان تمام چیزوں کا کوئی شوق نہیں ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ میرے اندر وہ صلاحیت نہیں ہے یا میرا مزاج ایسا نہیں ہے۔ میں نے اسے کہا کہ نوجوان نہ تمہیں شوق ہے نہ مجھے شوق ہے کہ ہم اپنے جیسے انسانوں پر راج کریں اور عوام کے پیسوں پر عیاشی کریں۔ ہم خود بھی اور ہمارے خاندان اور یار دوست بھی تو نارمل زندگی گزار رہے ہیں۔ آج کا دن دیکھ لیں۔ آپ اور میں کتنی محبت اور آزادی سے ان کتابوں کے درمیان پھر رہے ہیں اور ہم اسی میں کتنے خوش ہیں۔
میں نے کہا کہ اب آتے ہیں آپ کے خان صاحب والے سوال کی طرف۔ جتنے بھی سیاستدان یا لوگ اس ملک کے وزیراعظم بننا چاہتے ہیں وہ سب اپنی خواہشات کے غلام ہیں۔ وہی گوتم بدھ والی بات کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن اس کی خواہشات ہیں۔ انسان کی خواہشات جتنی زیادہ اور بڑی ہوں گی‘ اس کی تکلیف اور دکھ اور شاید انعام بھی اتنا بڑا ہو گا۔ ذوالفقار علی بھٹو‘ محترمہ بینظیر بھٹو‘ میاں نواز شریف‘ میاں شہباز شریف یا عمران خان سب اس ملک کے بادشاہ بننا چاہتے تھے اور بنے۔ ان سے کسی نے نہیں کہا تھا کہ آپ اپنی نارمل زندگیاں ترک کر کے ہمارے بادشاہ بنیں۔ انہوں نے کوئی حساب کتاب تو کیا ہو گا کہ بادشاہ بننے میں کیا دکھ سکھ ہیں۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد تو سیاستدانوں کو یہ بھی پتا چل گیا تھا کہ پاور کے اس کھیل میں جان بھی جا سکتی ہے۔ اس کے باوجود میاں نواز شریف اور عمران خان اس دوڑ میں شریک ہوئے۔ انہیں یہ بھی علم تھا کہ اس کھیل میں جان رِسک پر رہتی ہے۔ عمران خان نے میاں نواز شریف‘ میاں شہباز شریف اور آصف زرداری کو جیل میں ڈال رکھا تھا تو آج وہ خود جیل میں ہیں۔ انہیں جیل میں کسی اور نے نہیں ڈالا‘ ان کی خواہشات انہیں جیل تک لے گئی ہیں جبکہ میری اور آپ کی چھوٹی چھوٹی خواہشات ہمیں آج اتوار بازار انارکلی لے آئی ہیں۔ آپ کیوں پریشان ہیں‘ آپ کا خان تو اپنی خواہشات کے ہاتھوں جیل میں بیٹھا ہے جیسے کبھی ذوالفقار علی بھٹو‘ میاں نواز شریف تو کبھی بینظیر بھٹو اور کبھی آصف زرداری جیل میں تھے۔ سب کو اقتدار کے کھیل کی شرائط کا علم ہے اور یہ خوش ہو کر کھیلتے ہیں۔ انہوں نے کون سا صبح نو سے شام پانچ بجے تک نوکری کر کے روزی روٹی کمانی ہوتی ہے۔ ان کی یہی روزی روٹی ہے۔ وہ نوجوان پہلے تو بدحواس ہو کر میرا چہرہ دیکھتا رہا اور پھر بھاگ گیا اور جاتے جاتے کہہ گیا کہ آپ ادھر ہی رکیں‘ میں ابھی چائے لایا۔پھر ہم دونوں انارکلی بازار میں اپنی مستی میں بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ ہماری خواہشات پرانی کتابوں اور گرم گرما چائے تک محدود تھیں۔