یاد کریں وہ سنہرے دن جب اس قلعۂ نظریات نے افغانستان میں چوکیداری اور خرکاری کیلئے اپنے آپ کو بخوشی وقف کیا تھا۔ اس کے عوض ہمارے امریکی مہربانوں نے ہمیں تھپکیاں دیں اور ڈالروں اور کچھ جنگی ساز وسامان سے نوازا۔ اس پر ہمارے نگہبان پھولے نہ سمائے کہ وہ کتنے ہوشیار اور دانا ہیں۔ چوکیداری کا دورانیہ ختم ہوا تو امریکی مہربانوں نے منہ ایسا پھیرا جیسے افغانستان میں کوئی مسئلہ کبھی تھا ہی نہیں۔ یہ فرائض نبھاتے ہوئے ہم رُل گئے‘ اپنی بربادی کا بھرپور سامان خود پیدا کیا‘ اور جن کی تھپکی پر یہ سب کچھ کیا اُن کی نظر ایسی بدلی جیسے ہمارا وجود ہی نہ تھا۔ غضب کی یہ داستان ہے لیکن اس دیس کی قسمت ہی ایسی رہی کہ جو نگہبان نازل ہوئے کچھ سمجھنے سے ہمیشہ قاصر رہے۔
جہاد کا عَلم ہم نے اٹھایا اور ناشکرے افغان بھائیوں کو مجاہدین کا لقب سب سے پہلے ہم نے ہی عطا کیا۔ لیکن آج صورتحال کیا ہے کہ ہماری تمام کاوشیں گئیں بھاڑ میں اور امریکہ کی آنکھ کا تارا ہمارا ازلی دشمن ہندوستان بنا ہوا ہے۔ ازلی دشمن تھا نہیں‘ پر ہم نے بنا دیا اور اپنے ہی تراشے مفروضے پر کہانیوں کا ایک سلسلہ بنتا رہا۔ اس بات سے انکار بھی ممکن نہیں کہ بے جا کی کہانیاں بنانے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ بہرحال اُس افسانوی جہاد کے زمانے میں امریکہ نے چوکیداری کا صلہ کچھ ایف سولہ طیاروں کی صورت میں بھی دیا۔ یہ اور بات ہے کہ جس انداز سے مکمل آنکھیں بند کرکے ہم امریکی مفادات کے تحفظ میں مرے جا رہے تھے اور اپنے اصلی مفادات قربان کر رہے تھے امریکہ شاید ہمیں ایف سولہ تحفتاً دے دیتا۔ لیکن اُس وقت ہمارے کچھ ایسے غیور نگہبان بھی تھے جنہوں نے امریکیوں سے کہا کہ ہم ایک باغیرت قوم ہیں اور ہم کچھ مفت نہ لیں گے اور ایف سولہ طیاروں کی مقررہ قیمت چکائیں گے۔ دروغ بر گردنِ راوی‘ غیرت میں ڈھکی اس بے وقوفی کو دیکھ کر امریکی حیران رہ گئے۔ بہرحال وہ ایف سولہ کا زمانہ اور آج صورتحال یہ کہ شری نریندر مودی کے دورۂ واشنگٹن کے دوران صدر ٹرمپ نے یہ اعلان فرمایا کہ ہندوستان کو جدید ترین ایف پینتیس طیارے فراہم کریں گے۔ یہ خبر آتے ہی فارن آفس چیخ اُٹھا کہ ایسا کرنے سے علاقے میں عدم توازن پیدا ہو جائے گا۔ فارن آفس اور جو اُن کے اوپر بیٹھے ہیں کو سمجھنا چاہیے کہ زمانہ بدل چکا ہے‘ افغانستان کا وہ پرانا مسئلہ رہا نہ وہاں کسی خرکاری کی ضرورت۔
علاقے کا نقشہ ہی نہیں امریکی نظروں میں دنیا کا نقشہ بدل چکا ہے اور اس تبدیلی کے تابع امریکہ کی جیو پولیٹکل ترجیحات بدل چکی ہیں۔ اس بات پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ بہت ہی واضح ہیں کہ باقی جھگڑے سب بیکار کے ہیں اور اُن میں امریکہ کو اپنی توانائیاں صرف کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اُن کی نظروں میں امریکہ کا اصل چیلنج چین ہے اور اس لیے اُن کی ترجیح اول اور ترجیح آخر چین کا سامنا کرنا ہے۔ اور اُنہی ملکوں کی اہمیت ہے جو اس مقابلے میں امریکہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ نائب صدر جے ڈی وینس‘ ڈیفنس سیکرٹری پیٹ ہیگسیتھ یا خود صدر ٹرمپ نے اپنے یورپین ساتھیوں کو واضح اور واشگاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ اپنے دفاع کیلئے اپنے وسائل بروئے کار لائیں یعنی اپنے دفاع کے اخراجات کو واضح طور پر بڑھائیں۔
پرانی امریکی اسٹیبلشمنٹ یہ بات نہ سمجھ سکی جو صدر ٹرمپ شروع سے سمجھتے آئے ہیں کہ امریکہ کو خطرہ روس سے نہیں‘ بڑا چیلنج چین کی طرف سے ہے۔ اسی لیے اُن کی نظروں میں یوکرین کی جنگ کی کوئی بڑی اہمیت نہیں۔ الیکشن سے پہلے وہ کہتے آئے تھے کہ اس فضول کی جنگ کو فوری ختم ہونا چاہیے اور وائٹ ہاؤس سنبھالنے کے بعد اُنہوں نے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ٹیلی فون پر لمبی گفتگو کی اور کہا کہ اس جنگ کا فوری حل ہونا چاہیے۔ یوکرین کے صدر زیلینسکی سے بھی یہی کہا ہے۔ لہٰذا اُن کی توجہ کا مرکز یورپ نہیں بلکہ انڈو پیسیفک ریجن ہے۔ اور اس مقابلے میں اہمیت اس علاقے کے ملکوں کی ہے جن کا اُنہوں نے ذکر بھی کیا: جاپان‘ جنوبی کوریا‘ فلپائن اور آسٹریلیا۔ اور ساتھ ہی اہمیت بھارت کی بڑھ جاتی ہے کیونکہ ان سب ممالک کو امریکہ پہلے بھی‘ اور اب ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں زیادہ شدت سے چین کے خلاف کاؤنٹر ویٹ کی صورت میں دیکھ رہا ہے۔
اس ساری منظرکشی میں ہماری اہمیت نہ کوئی ذکر۔ حالیہ واشنگٹن کے دورے میں تو امریکہ اور بھارت میں وہ قربت کے آثار نمایاں ہوئے جو پہلے اس انداز سے نہ تھے۔ دفاعی اور دیگر امور میں تعاون کی باتیں‘ پھر یہ کہنا کہ اسلامی انتہا پسندی کا مقابلہ دونوں ملک کریں گے اور یہ کہ ممبئی حملہ میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے‘ یہ سب اس نئی گرمجوشی کا مظہر ہیں۔ ٹرمپ نے مودی سے یہ بھی کہا کہ دونوں ملکوں میں تجارت کا توازن بھارت کے حق میں زیادہ ہے اور اس لیے بھارت کو امریکہ سے زیادہ اشیا خریدنی چاہئیں۔ اس ضمن میں دفاعی ساز وسامان پر زیادہ زور دیا گیا کہ بھارت کو امریکہ سے زیادہ ہتھیار خریدنے چاہئیں۔ ہم تو مانگے تانگے پر گزارا کرتے تھے۔ افسانوی جہاد کے زمانے میں امداد میں جو امریکی ڈالر ملتے تھے اُنہی سے ساز وسامان خریدا جاتا۔ لیکن بھارت کو کسی امداد کی ضرورت نہیں۔ اُس کے وسائل ایسے ہو چکے ہیں کہ جو چاہے امریکی مارکیٹ سے خرید لے۔ ہمارے پاس ایف سولہ ہی رہ جائیں گے اور گو یہ جہاز بہت اچھے ہیں لیکن ان کی عمر دیکھی جائے تو یہ گزرے ہوئے کل کے جہاز ہیں۔ آنے والے کل کے جہاز تو ایف پینتیس قسم کے لڑاکا طیارہ ہیں اور وہ امریکہ نے دینے ہیں نہ ہم خرید سکتے ہیں۔
ایک اور نکتہ ذہن نشین ہونا چاہیے۔ ہندوستانی نژاد امریکیوں نے اپنا خاصا مقام امریکی معاشرے میں بنا لیا ہے۔ نائب صدر وینس کی بیگم ہندوستانی نژاد ہے۔ ایف بی آئی کا نیا ڈائریکٹر ہندو ہے۔ ہوم لینڈ سکیورٹی کی سربراہ تلسی گبارڈ بھی ایسی ہی ہے۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں ڈونلڈ لُو کی جگہ ایک ہندوستانی نژاد افسر نے لی ہے۔ اس کے علاوہ کتنی ہی بڑی امریکن کارپوریشنیں ہیں جن میں اعلیٰ عہدوں پر ہندوستانی نژاد یا ہندو بیٹھے ہیں۔ ایسا کسی ہندو سازش کی وجہ سے نہیں ہے۔ ہندوؤں نے کوئی جال نہیں بچھایا جس میں امریکی پھنس گئے ہیں بلکہ ہندوستان کے معرضِ وجود میں آتے ہی ہندوستانیوں نے تعلیم اور تحقیق پر زور دیا۔ امریکہ میں آئے پڑھنے اور اپنا مقام بنانے۔ بم بنانے یا بلڈنگیں اُڑانے وہ امریکہ نہ آئے۔ اس کے برعکس ہم تو ہمیشہ بادشاہ لوگ ہی رہے۔ ہم اور قسم کے عَلم بلند کرتے رہے۔ خود تو اپنے ملکوں کا کچھ بنا نہ سکے لیکن ودیش گئے تو وہاں بھی اوٹ پٹانگ کی باتوں سے پرہیز نہ کر سکے۔ افسانوی جہاد کا بھوت ایسا پالا کہ ہر جگہ ناپختہ ذہنوں پر سوار رہا۔ نتیجہ پھر دیکھ لیں‘ کہیں کے نہ رہے۔
یہ کہنا غلط ہے کہ امریکہ نے ہمیں استعمال کیا۔ ہم نے تو ہمالیہ کے پہاڑوں پر چڑھ چڑھ کے آواز دی کہ لو ہم حاضر ہیں! ہمیں استعمال کیا جائے۔ اگلوں نے کیا اور پھر ضرورت پوری ہونے پر ایک طرف پھینک دیا۔ اس میں رونے کی تو کوئی بات نہیں بنتی۔ ہم سے کسی نے زبردستی نہ کی‘ ہمارے نگہبانوں نے اس دیس کو استعمال ہونے کیلئے پیش کیا۔ سیدھا سادہ سودا تھا‘ استعمال ہوئے تو اُس کیلئے کچھ ملا۔ ہم نے سیٹیاں بجائیں کہ ہم بڑے ہوشیار ہیں۔ جنہوں نے استعمال کرنا تھا اُن کا مقصد پورا ہوا تو آگے چل دیے۔ ہم ہاتھ ملتے رہ گئے۔
فقط نعرے ہی بچے ہیں‘ محض نعروں سے کام کب چلتا ہے۔ ستم یہ دیکھئے کہ امریکی مہربان تو ایک طرف رہے افغان بھائی بھی آنکھیں دکھانے لگے ہیں۔