"AIZ" (space) message & send to 7575

بنگلہ دیش کا سفر

بنگلہ دیش کے ساتھ اہلِ پاکستان کی بہت سی یادیں اور جذبات وابستہ ہیں۔ 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کو بنگال ہی میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کے بعد انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کیلئے چلائی جانے والی آزادی کی تحریک میں پنجاب‘ خیبرپختونخوا‘ سندھ اور بلوچستان کے عوام کے ساتھ ساتھ بنگال کے عوام نے بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ 23مارچ 1940ء کو مینارِ پاکستان کے مقام پر قراردادِ لاہور کو پیش کرنے والے بھی بنگال کے راہنما مولوی اے کے فضل الحق تھے۔ بنگال 1947ء تک جدوجہد آزادی میں پاکستان کے شانہ بشانہ رہا۔ 1947ء میں ملنے والی آزادی پر جہاں پاکستان کے دیگر صوبوں کے لوگ خوش تھے وہیں بنگال کے لوگ بھی خوشی سے سرشار تھے۔ لیکن ابتدائی طور پر لسانی اختلافات کی وجہ سے شروع ہونے والی کشیدگی کو بنگال کے سکولوں میں پڑھانے والے ہندو اساتذہ نے تحریک دی اور نفرت کے بیج بوئے۔ اس عمل کی وجہ سے بنگال کے لوگ پاکستان کے مغربی حصے سے بدگمان ہوئے۔ 1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ کی فتح کے بعد جب انتقالِ اقتدار نہ ہوا تو سیاسی کشیدگی اپنے پورے عروج پر پہنچ گئی جس کی وجہ سے ملک دولخت ہوگیا۔سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ یقینا سقوطِ بیت المقدس‘ سقوطِ بغداد اور سقوطِ غرناطہ کے بعد ایک انتہائی المناک سانحہ تھا جس کی کسک آج تک ہر دردِ دل رکھنے والا انسان محسوس کرتا ہے۔
پاکستان عوامی لیگ نے گزشتہ کئی برسوں کے دوران بنگال پر حکومت کی اور اس دوران ان راہنماؤں کو انتقام اور اذیت کا نشانہ بنایا جو دو قومی نظریے اور پاکستان سے محبت کرتے تھے۔ بنگلہ دیش کے قیام میں حصہ لینے والے انتہا پسندوں کیلئے جب ملازمتوں میں ان کی آبادی کے لحاظ سے بہت بڑے کوٹے کا تعین کیا گیا تو بنگلہ دیش کے نوجوان طلبا نے اس بات کو گوارہ نہ کیا اور اس فیصلے کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ اس پر حسینہ واجد نے ان کو پاکستان کی حمایت میں کام کرنے والے کارکنوں اور رضا کاروں سے تعبیر کیا۔ اس طعنے کو طلبا نے خوش دلی سے قبول کیا اور حسینہ کے خلاف بھرپور مزاحمتی تحریک چلائی جس کے نتیجہ میں حسینہ واجد اقتدار سے محروم ہوکر انڈیا فرار ہو گئی۔ اس سیاسی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے نظریاتی لوگوں کے ایک دوسرے کے قریب آنے کے مواقع اور امکانات پیدا ہو گئے۔ گزشتہ چند مہینوں سے جامع سلفیہ ڈھاکہ اور جمعیت اہلحدیث بنگال کے دوست ساتھی مجھ سے رابطہ میں تھے‘ انہوں نے تواتر کے ساتھ مجھے بنگلہ دیش آنے کی دعوت دی۔ سات اور آٹھ فروری کو بنگلہ دیش میں جمعیت اہلحدیث کی سالانہ کانفرنس کا انعقاد ہونے جا رہا تھا۔ اسی طرح جامع سلفیہ ڈھاکہ کی کانفرنس بھی اتفاق سے اسی مہینہ کی 13اور 14تاریخ کو منعقد ہو رہی تھی جس کی وجہ سے میں نے اس دعوت کو بہت زیادہ خوشی اور مسرت کے ساتھ قبول کیا۔ میری عرصہ دراز سے خواہش تھی کہ میں بنگلہ دیش آؤں اور یہاں کی گلیوں‘ شاہراہوں اور علاقوں میں اسلام اور پاکستان سے پائی جانے والی محبت کو محسوس کر سکوں۔
پانچ فروری کو گوجرانوالہ کے علاقہ کامونکی‘ قلعہ دیدار سنگھ اور گوجرانوالہ شہرمیں کچھ پروگراموں میں شرکت کے بعد میں مرکز قرآن و سنہ لارنس روڈ پر کتاب و سنت کانفرنس میں شرکت کیلئے پہنچا تو وہاں پر عوام کی کثیر تعداد کو منتظر پایا۔ ان کے جذبات اور ولولے کو دیکھ کر روحانی مسرت حاصل ہوئی اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کی کہ اللہ تعالی دین کیلئے کام کرنے والے تما م اداروں کو قائم اور دائم رکھے۔ چھ تاریخ کی صبح ساڑھے چھ بجے سری لنکن ایئر لائن پر لاہور سے کولمبو کیلئے روانگی تھی۔ میرے ہمراہ میرے شریک سفر قرآن و سنہ موومنٹ پاکستان کے راہنما حافظ ابوبکر ایوب بھی تھے۔ ہم لاہور ایئر پورٹ سے کولمبو کیلئے ٹھیک وقت پر روانہ ہوئے۔ پونے چار گھنٹے تک پرواز برصغیر کے مختلف علاقوں سے گزرتی ہوئی سری لنکا کے ایئر پورٹ پر اتر گئی۔ چونکہ کولمبومیں ہمارا قیام 20گھنٹے سے زیادہ تھا اس لیے یہاں پر ایک مقامی ہوٹل میں قیام کیلئے پہلے سے بکنگ کروائی جا چکی تھی۔ ہوٹل پہنچنے تک یہ محسوس کیا کہ سری لنکا کے لوگ دھیمے مزاج کے ہیں اور ان میں بد اخلاقی اور اشتعال انگیزی نہیں پائی جاتی۔ جب ہوٹل پہنچے تو وہاں پر مسلمانوں کیلئے حلال کھانے کا انتظام الگ سے موجود تھا۔ ہوٹل میں کھانا کھانے کے بعد نمازوں کی ادائیگی اور آرام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران یہ بات محسوس کی کہ اس ملک میں نفاست اور صفائی پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے اور یہاں پر شوروغل کے بجائے تحمل اور برد باری لوگوں کے مزاج کا حصہ بنی ہوئی ہے۔ یہاں پر سفر کی تھکاوٹ اور اُکتاہٹ دور کرنے کا موقع میسر آیا۔ فجر کی نمازکے بعد سری لنکا کے ایئر پورٹ پر روانگی ہوئی اور سات بج کر پچاس منٹ پر کولمبو سے ڈھاکہ کا سفر شروع ہو گیا۔ سقوطِ ڈھاکہ پر والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ نے بہت زیادہ دکھ اور قرب کو محسوس کیا تھا اور بہت سے ایسے جملے کہے تھے جن سے ان کے جذبات کی شدت کا اظہار ہوتا تھا۔ ڈھاکہ کی طرف سفر کرتے ہوئے آپ کی تقریر کے بہت سے جملے میرے ذہن میں گردش کررہے تھے۔ ڈھاکہ کے سقوط کے حوالے سے بہت سے سیاسی محرکات اور دشمنوں کی بہت سی سازشوں پر غور و خوض بھی کرتا رہا اور اہلِ بنگال کے ساتھ ملنے کی خواہش اور تڑپ کو پوری شدت کے ساتھ اپنے اندر ابھرتے ہوئے محسوس بھی کرتا رہا۔ پونے تین گھنٹے کے بعد جہاز جب بنگا ل کے ایئر پورٹ پر اُترا تو میں نے محسوس کیا کہ اس شہر کی کراچی کے ساتھ مشابہت ہے۔ جہاز سے نظر آنے والے فضائی منظر سے یہ بات واضح ہو رہی تھی کہ شہر میں بلند عمارتیں بڑی تعداد میں موجود ہیں اور عام رہائش گاہیں اس کے مقابلے میں کم ہیں۔ بنگال ایئر پورٹ پر اُترے تو وہاں پر جامعہ سلفیہ کے ذمہ دار نامور عالم دین عبداللہ بن عبدالرزاق موجود تھے۔ انہوں نے بڑے پُرتپاک انداز سے استقبال کیا۔ جمعیت اہلحدیث کے نمائندگان بھی وہاں پر منتظرتھے۔ جب ہوٹل پہنچے تو ہمارے ہمراہ مولانا عبدالرب بن عفان‘ جو کہ جمعیت کے نمائندہ ہیں اور عبداللہ بھائی تھے۔ ہوٹل میں بڑے پُر تکلف کھانے کا انتظام تھا۔ انواع و اقسام کے کھانے اور سفر کی تھکاوٹ کی وجہ سے بھوک میں تیزی پیدا ہو چکی تھی۔ کھانا کھایا تو یوں محسوس ہوا کہ کھانے کے ذائقہ میں پاکستانی کھانے کے ذائقے سے انیس بیس کا فرق بھی نہیں تھا۔ اس ہم آہنگی کو دیکھ کر میرا ذہن ایک مرتبہ پھر ماضی کی ورق گردانی کرنا شروع ہو گیا کہ ایک ہی دین اور ایک ہی جیسے کھانے پینے‘ رہن سہن اور لباس کے باوجود ہم سیاسی اور علاقائی عصبیتوں کا شکار ہو کر ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ اس جدائی اور عصبیت پر قابو پانے کیلئے اگر کوئی چیز کلیدی کردار ماضی‘ حال اور مسقبل میں ادا کر سکتی ہے تو فقط دین اور شریعت کا تعلق ہے جو رنگ و نسل کے اختلاف کے باوجود انسانوں کو یکجا کرتا ہے۔ بنگال میں 12دن کا قیام طے تھا اور یہاں پر بہت سے پروگرام اور کانفرنسوں میں شرکت کیلئے دوست اور ساتھی منتظر تھے۔ بنگال آنے کے بعد جہاں پر طبیعت میں ایک رقت کی کیفیت پیدا ہوئی وہیں پر ملاقات کے منتظر دوست احباب کے جذبات محبت اور گرم جوشی دیکھ کر طبیعت میں ایک فرحت اور مسرت کی کیفیت بھی پیدا ہوئی اور یوں محسوس ہوا کہ اگرچہ ہم بہت کچھ کھو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود مستقبل میں بہت سے نقصانات کے ازالے کے امکانات اب بھی باقی ہیں۔ لیکن اس کیلئے ہمیں علاقائی اور قومی عصبیتوں کو نظر انداز کرکے دین کی بنیاد پر یکجا ہونا پڑے گا۔ اگر ہم ان علاقائی عصبیتوں پر قابو پانا چاہتے ہیں تو اس کیلئے ہمیں اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینا چاہیے اور رنگ و نسل کے بتوں کو توڑ کر ایک اُمت کی شکل اختیار کر لینی چاہیے تاکہ ہم اپنے کھوئے ہوئے عروج کو حاصل کر سکیں۔اللہ تعالی ہم سب کو کلمہ طیبہ پر متفق ہونے کی توفیق دے۔ آمین!

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں