مجھے گاہے گاہے وطن سے باہر جانے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ ماضی میں متعدد مرتبہ برطانیہ‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور قطر وغیرہ جانے کا موقع ملا۔ حالیہ ایام میں مجھے ایک مرتبہ پھر بنگلہ دیش کا سفر کرنے کا موقع ملا۔ میں ایک عرصے سے بنگلہ دیش جانے کا شدت سے خواہشمند تھا‘ اس لیے کہ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کے مشرقی بازو کے الگ ہو جانے کی کسک اپنے دل میں محسوس کر رہا تھا۔ میں جب بنگلہ دیش گیا تو وہاں عوام کی کثیر تعداد نے جس محبت کا مظاہرہ کیا‘ مجھے اس کی بالکل بھی توقع نہ تھی۔ نو بڑے اجتماعات میں تسلسل کے ساتھ ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ لوگ بڑی گرمجوشی کے ساتھ استقبال کرتے رہے۔ وہاں کے پڑھے لکھے دوست احباب نے جس انداز سے دو قومی نظریے اور پاکستان سے محبت کا اظہار کیا‘ سچی بات یہ ہے کہ اس کی وجہ سے بنگلہ دیش کا قیام مزید معنی خیز ہو گیا۔ اس قیام کے آخری دنوں میں مَیں نے یہ بات محسوس کی کہ وطن واپسی کی تمنا اور تڑپ میرے دل میں بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ ماضی میں بھی کئی مرتبہ بیرونِ ملک ایسے ایام آئے جب میں نے کانفرنسوں اور مجالس میں شرکت کے بعد وطن واپسی کی تمنا کو بڑی شدومد سے اپنے دل میں ابھرتے ہوئے محسوس کیا۔
پاکستان کے بدلتے ہوئے سیاسی ومعاشی حالات ہمیشہ وطن کے بارے میں تفکرات اور تشویش کا سبب بنتے ہیں اور ہمیشہ پاکستان پلٹنے کی تمنا پہلے سے بڑھ کر دل میں جگہ بنا لیتی ہے۔ ڈھاکہ سے واپسی پر میری طبیعت پہ رِقت کے اثرات تھے اس لیے کہ میں اسلام اور پاکستان سے محبت کرنے والے بہت سے لوگوں کو الوداع کہہ کر واپس جا رہا تھا۔ میں نے واپسی کی فلائٹ کے دوران ماضی کے بہت سے سفروں پر غور کیا تو مجھے احساس ہوا کہ ہمیشہ وطن واپسی کے موقع پر میں پاکستان کی سرزمین میں ایک عجیب کشش محسوس کرتا ہوں۔ کئی مرتبہ یورپ کے ترقی یافتہ ممالک سے واپسی پر بھی میں نے محسوس کیا کہ یورپ کی ترقی اور وہاں کی روشنیاں میرے دل میں وطن کی محبت کو مدہم نہیں کر سکیں۔ بیرونِ ملک سفر کے دوران میں نے دیکھا کہ تارکینِ وطن کی بڑی تعداد اپنی معاشی اور سماجی مصروفیات کے سبب لمبے عرصے تک وطن واپس آنے سے قاصر رہتی ہے۔ کئی مرتبہ مجبوریاں اس درجہ بڑھ جاتی ہیں کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اپنے اعزہ واقارب کی وفات اور قریبی رشتہ داروں کی شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی شرکت کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ وطن سے دور رہنا کسی آزمائش سے کم نہیں۔ یقینا وہ لوگ خوش نصیب ہیں جنہیں معاشی مجبوریوں کی وجہ سے لمبے عرصے کیلئے اپنے گھر بار سے دور نہیں رہنا پڑتا۔
ڈھاکہ سے واپسی پر مجھے ماضی کا ایک ایسا سفر یاد آ رہا تھا جب میں برطانیہ میں بہت سی کانفرنسوں سے خطاب کے بعد وطن واپس آنے کیلئے لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پہنچا تھا۔ فلائٹ کی لندن سے روانگی سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل جب میں ڈیپارچر لائونج میں داخل ہوا تو وہاں پاکستانیوں کی بڑی تعداد کو دیکھ کر یوں محسوس ہوا کہ میں پاکستان کے قریب ہوتا چلا جا رہا ہوں۔ وطن کی قربت کے ان احساسات کو میں محسوس کر ہی رہا تھا کہ مسافروں کو جہاز میں اپنی نشستوں پر بیٹھنے کی دعوت دی گئی۔ جہاز کی نشست پر بیٹھتے ہی میرے ذہن میں برطانیہ میں گزرے ایام اور واقعات گردش کرنے لگے اور میں برطانیہ میں والی کانفرنسوں اور ملاقاتوں کے حوالے سے غور وخوض میں مصروف ہوگیا مگر میرے احساسات اور جذبات مجھے مادرِ وطن کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتے جا رہے تھے۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی وطن سے والہانہ محبت‘ ملک کے مستقبل کے بارے میں پائی جانے والی تشویش اور اچھی امیدیں میرے ذہن میں مختلف طرح کی کیفیات پیدا کر رہی تھیں۔ اس موقع پر میں سوچ رہا تھاکہ انسان کئی مرتبہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی قدر وقیمت کو پہچاننے سے قاصر رہتا ہے۔ ہمارے پاس موجود صحت‘ فراغت‘ جوانی‘ رزق‘ محبت کرنے والے اہلِ خانہ اور پیار کرنے والے دوست احباب کی شکل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی عنایات اور نعمتوں کا انمول خزانہ موجود ہے۔ یقینا ہم ان بے مثال نعمتوں کی قدر وقیمت کو صحیح طور پر پہچاننے سے قاصر رہتے ہیں‘ لیکن جب ان میں سے کوئی نعمت چھن جاتی ہے یا اس میں کمی واقع ہو جاتی ہے تو ہمیں اس نعمت کی قدر وقیمت کا احساس ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ بہت سے لوگ اپنے والدین کی زندگی میں ان کی ناقدری کرتے ہیں‘ لیکن دنیا سے ان کے چلے جانے کے بعد والدین کی حقیقی اہمیت کا احساس دل میں جاگزیں ہوتا ہے۔ اسی طرح بہت سے لوگ جوانی اور صحت کی نعمت کا غلط استعمال کرتے ہیں‘ لیکن ان نعمتوں میں زوال کی وجہ سے انسان غیر معمولی بے چینی اور اضطراب کا شکار ہو جاتا ہے۔ کچھ یہی معاملہ وطن کا بھی ہے۔ وطن میں رہتے ہوئے کئی مرتبہ انسان کو آزادی کی قدر وقیمت کا احساس نہیں ہوتا‘ لیکن جب انسان اپنے وطن سے دور جاتا ہے اور تارکینِ وطن میں خوشحالی اور مالی استحکام کے باوجود وطن سے جدائی کے کرب کو دیکھتا ہے تو اس کو احساس ہوتا ہے کہ یقینا اپنا وطن بہت بڑی نعمت ہے۔ اسی طرح دنیا کے بہت سے خطوں میں پسے ہوئے مجبور اور محروم طبقات کی مشکلات اور پریشانیوں کو دیکھ کر بھی انسان کے ذہن میں اپنے وطن کی اہمیت زیادہ اجاگر ہوتی ہے۔ وطن کی محبت ہر حساس شخص کے دل میں موجود ہوتی ہے اور کوئی بھی ذی شعور آدمی جس طرح اپنے گھر کی محبت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا‘ اسی طرح اپنے وطن کی محبت کو محسوس کیے بغیر بھی نہیں رہ سکتا۔
ڈھاکہ سے واپسی پر جہاں مجھے اپنے اہلِ خانہ سے ملاقات کی تمنا تھی‘ وہیں اپنے وطن کی مٹی کی خوشبو کو بھی میں محسوس کرنا چاہتا تھا۔ ڈھاکہ کا پُرجوش ماحول‘ پاکستان اور دو قومی نظریے کی محبت سے سرشار لوگ‘ بڑی تعداد میں دینی تعلیم وتربیت کا اہتمام کرنے والے مدارس‘ انگریز کے خلاف جدوجہد کا طویل تاریخی پس منظر اپنے اندر کشش کا بہت سا سامان سمیٹے ہوئے تھا‘ لیکن مجھے لاہور ہر اعتبارسے باقی مقامات سے زیادہ بیش قیمت محسوس ہو رہا تھا۔ میں لاہور ایئر پورٹ پر اترا تو اپنے دل میں خوشی کے غیر معمولی احساسات کو محسوس کیا۔ اپنائیت کا عجیب احساس میرے اندر کروٹیں لے رہا تھا۔ وطن کی محبت کے ساتھ ساتھ انسان کے ذہن میں وطن کی تعمیر وترقی کے لیے بھی بہت سی امنگیں پیدا ہوتی ہیں۔ میں جب کبھی بیرونِ ملک سے وطن واپس آتا ہوں تو جہاں وطن واپس آکر طمانیت اور سکون کا احساس ہوتا ہے‘ وہیں دل میں یہ خواہش اور امنگ بھی پیدا ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے وطن کو معاشی اور سیاسی استحکام عطا فرمائے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں قانون کی عملداری کو دیکھ کر ہمیشہ میرے ذہن میں پاکستان میں قانون کی عملداری کی خواہش انگڑائیاں لینے لگتی ہیں۔ ملک کے کئی مقامات پر ہونے والے قتل وغارت گری اور بدامنی کے واقعات کو سننے کے بعد بھی لبوں سے یہی دعا نکلتی ہے کہ یا اللہ! ہمارے ملک کو امن وسکون کا گہوارہ بنا دے۔ مادرِ وطن کو اس وقت جہاں معاشی اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے‘ وہیں قانون کی عملداری کی بھی غیر معمولی اہمیت ہے۔ ماضی میں بہت سے سیاسی رہنمائوں نے اس بات کا وعدہ کیا کہ وہ برسر اقتدار آنے کے بعد انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے‘ لیکن تاحال ملک میں جرائم کا خاتمہ اور مثالی انصاف کا قیام ممکن نہیں ہو سکا۔ اگر ہمارے ملک میں قانون کا بول بالا ہو جائے‘ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنا دیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ سماجی انصاف کے لیے تگ ودو کی جائے‘ جس کا آغاز خلافت راشدہ بالخصوص سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روشن دور سے ہوا‘ تو وہ دن دور نہیں کہ جب پاکستان کا شمار بھی دنیا کی عظیم مملکتوں میں ہوگا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ پاکستان کو امن وسکون‘ خوشحالی اور ترقی کا گہوارہ بنا دے‘ آمین!