جب بھی کبھی ملکی اور بین الاقوامی معاملات پر پاکستان کی دینی قیادت یکسو ہوتی ہے تو اسکے بہت ہی نمایاں نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ پاکستان میں مذہبی جماعتیں بڑی کامیابی سے کئی تحریکوں کو مکمل کر چکی ہیں۔ ختم نبوت کے حوالے سے ریاست پاکستان پر بہت زیادہ دبائو تھا لیکن علماء کرام نے جہاں رائے عامہ کو ہموار کیا وہیں انہوں نے قانونی طور پر بھی بھرپور انداز سے یہ جنگ لڑی۔ برسہا برس تک سید عطاء اللہ شاہ بخاری‘ مولانا سید محمد دائود غزنوی‘ مولانا مفتی محمود‘ مولانا شاہ احمد نورانی‘ علامہ احسان الٰہی ظہیر اور پاکستان کے دیگر رہنما رائے عامہ کو ہموار کرتے رہے اور پاکستان کی قومی اسمبلی میں بھی اس حوالے سے بڑے احسن طریقے سے بحث ہوئی جس پر ختم نبوت کے منکرین بری طرح شکست سے دوچار ہوئے اور 7 ستمبر 1974ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے تاریخ ساز فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ پاکستان میں آئینی طور پر جو شخص نبی کریمﷺ کے بعد اعلانِ نبوت کرتا ہے اور جو کوئی اس کی تائید وتوثیق کرتا ہے‘ وہ ہر اعتبار سے دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ 7 ستمبر کے اس تاریخ ساز فیصلے کے نتائج پوری دنیا پر مرتب ہوئے اور پاکستان کے علاوہ بھی دنیا کے بہت سے ممالک میں پاکستان کے قومی اسمبلی کے اس فیصلے کو بطور حوالہ پیش کیا گیا اور اس فیصلے ہی کے نتیجے میں ختم نبوت کے منکرین کا حجازِ مقدس میں داخلہ بند ہوا۔ اس سے قبل پاکستان کے پاسپورٹ پر وہ اپنے مذہب کو اسلام کے طور پر پیش کرتے اور حجازِ مقدس میں داخل ہو کر وہاں پر بھی اپنی سازشوں کے تانے بانے بُننے کی کوششیں کیا کرتے تھے۔ اسی طرح حرمتِ رسو لﷺ کے تحفظ کیلئے 295C کا قانون بنوانے کیلئے بھی علماء نے اپنی ذمہ داریوں کو بطریق احسن ادا کیا۔ پاکستان کی تمام مذہبی جماعتوں نے 1977ء میں بہت ہی احسن طریقے سے تحریک چلائی اور اس بات کو ثابت کیا کہ پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہے۔ 1973 کے آئین کی بنیاد پر مستقبل میں پاکستان کے سیاسی خدوخال کا تعین کر دیا گیا کہ پاکستان میں ہر صورت کتاب وسنت ہی کو سپریم لاء تسلیم کیا جائے گا۔
پاکستان میں دفاعِ شعائراللہ کیلئے بھی ہمیشہ کوششیں جاری رہی ہیں اور اس حوالے سے کبھی بھی علما نے کسی غفلت اور کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ تمام مکاتب کے جید علما نے قومی اسمبلی سے ناموسِ صحابہ کرامؓ بل کو بھی پاس کرایا اور سینیٹ سے بھی اس کی منظوری لی‘ تاہم بوجوہ صدر علوی نے اس پر دستخط نہ کیے وگرنہ اب تک یہ بل آئین پاکستان کا حصہ بن چکا ہوتا۔ پاکستان میں جہاں بہت سے آئینی مسائل کو مذہبی جماعتوں کے اتفاقِ رائے سے طے کیا گیا وہیں یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ مذہبی جماعتیں جب بھی کسی مسئلے پر یکسو ہوتی ہیں تو ان کو عوام کی غیر معمولی تائید حاصل ہوتی ہے۔ 2002ء میں متحدہ مجلس عمل کو وسیع پیمانے پر عوام کی تائید حاصل ہوئی اور مجلس عمل ملک کی دوسری بڑی پارلیمانی جماعت بن کی ابھری۔
پاکستان میں ایک عرصے سے دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کیساتھ اظہارِ یکجہتی کے حوالے سے آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں اور اس ضمن میں مذہبی جماعتیں پیش پیش رہتی ہیں۔ کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے حوالے سے ہر سال 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کی بنیاد رکھنے والے پاکستان کے ممتاز مذہبی رہنما قاضی حسین احمدؒ ہی تھے۔ پاکستان میں فرقہ ورانہ کشیدگی کو ختم کرنے کیلئے بھی تمام مکاتب فکر کے جید علماء نے 'ملی یکجہتی کونسل‘ کے پلیٹ فارم پر متحرک کردار ادا کیا اور اس حوالے سے ایسی تجاویز پیش کیں کہ جن پر اگر عمل درآمد ہو جائے تو پاکستان ہمیشہ کیلئے فرقہ واریت کے ناسور سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ تمام مکاتب کے علما نے متفقہ طور پر یہ بات طے کی کہ صحابہ کرام کی تکفیر کفر اور ان کی تنقیص حرام ہے اور اس پر تمام مکاتب کے جید علماء نے دستخط کیے اور تاحال اسی کی بنیاد پر ملک میں فرقہ ورانہ کشیدگی پر قابو پانے کیلئے تمام مذہبی جماعتیں اور تمام مکاتب کے علما اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ مدارسِ دینیہ تدریس‘ تعلیم اور خدمتِ انسانیت کے حوالے سے نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ جہاں سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے لاکھوں طلبہ کی تعلیم وتربیت کا انتظام و انصرام کیا جاتا ہے وہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے انکی رہائش اور معیاری کھانے کا انتظام بھی کیا جاتا اور ان کو منفی راستوں پر چلنے کے بجائے معاشرے کیلئے مفید کارکن بنا کر معاشرے کے مختلف مقامات پر متعین کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے تمام مکاتب کے علما نے وفاق کا مشترکہ بورڈ تشکیل دے رکھا ہے جہاں سے ہر سال کثیر تعداد میں علما اسناد حاصل کرکے مختلف مساجد ومدارس میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے اور انہی اسناد کی بنیاد پر دنیا کی ممتاز اسلامی یونیورسٹیوں میں علوم اسلامیہ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے جاتے ہیں جبکہ مدینہ منورہ‘ مکہ مکرمہ‘ ریاض اور مصر کی مشہور اسلامی جامعات سمیت دنیا کے مختلف مقامات سے تعلیم مکمل کرکے بے شمار علما ملک واپس آکر اپنی تدریسی وتعلیمی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔
فلسطین کے علاقے کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ یہود کے موجودہ تسلط سے قبل بیت المقدس اور گرد ونواح کا علاقہ عرصہ دراز تک مسلم حکومتوں کے تابع رہا ہے۔ نبی کریم ﷺ کے بعد دورِ خلافت راشدہ میں سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس کی چابیوں کو حاصل کیا اور اس کے بعد سے مسلمان ہی اس پر حکمران رہے۔ بیچ میں ایک دور ایسا بھی آیا کہ جب صلیبیوں نے بیت المقدس کے علاقے پر قبضہ کر لیا لیکن صلاح الدین ایوبیؒ نے صلیبیوں کو جنگ میں شکست دے کر بیت المقدس کو بازیاب کروا لیا لیکن بدنصیبی کی بات یہ ہے کہ انیسویں صدی کے اواخر سے لے کر بیسویں صدی کے ساتویں عشرے تک یہود مسلسل پوری دنیا سے نقل مکانی کر کے بیت المقدس کے اردگرد آباد ہوتے رہے اور انہوں نے بیت المقدس کے علاقے میں زمینیں خرید کر اپنی ایک مصنوعی اکثریت قائم کر لی اور مسلم آبادی کے حقوق کو غصب کر لیا گیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک فلسطینی مسلمان مسلسل پسماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں اور ہر آنے والا سال ان کی پسماندگی اور آزمائش میں اضافے کا سبب بنتا جا رہا ہے۔
فلسطین کے کئی ممتاز مذہبی و سیاسی رہنما اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن چکے ہیں اور انکی شہادتوں کے بعد اسرائیل کے ظلم وتشدد میں مزید اضافہ ہوتا گیا ہے۔ حالیہ ایام میں غزہ پہ ڈھائے جانیوالے مظالم نے ماضی کے تمام واقعات کو ماند کر دیا ہے اور جس انداز سے مسلمانوں کا لہو بہایا گیا‘ اور بہایا جا رہا ہے‘ اسکی کوئی مثال ماضی میں پیش نہیں کی جا سکتی۔ ہزاروں کی تعداد میں مسلم نوجوانوں کو ذبح کیا گیا اور معصوم بچوں اور عورتوں کو بغیر کسی جرم کے شہید کر دیا گیا۔ بمباری سے مسلمانوں کے نہ صرف یہ کہ گھروں کو تباہ کیا گیا بلکہ علاقے کے طبی مراکز‘ ہسپتالوں اور دیگر اہم مقامات پر بھی زبردست بمباری کی گئی جو ایک عظیم انسانی المیہ ہے۔ اس حوالے سے اقوام عالم نے بھی اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کیا۔ امت محمدی پر بحیثیت مجموعی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کو اس آزمائش سے نکالنے کیلئے اپنا ہر ممکن کردار ادا کریں۔ مذہبی طبقات اس حوالے سے اگر یکسو ہوں تو حکمرانانِ وقت سے راست اقدام کا مطالبہ کرنے میں آسانی ہو سکتی ہے۔ اسی پس منظر میں 10 اپریل کو اسلام آباد میں ایک کل جماعتی اقصیٰ کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس کیلئے جمعیت علمائے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن‘ مفتی تقی عثمانی‘ قاری حنیف جالندھری‘ مفتی منیب الرحمن اور دیگر بہت سی ممتاز شخصیات کو دعوت دی گئی ہے۔ مجھے بھی اس موقع پر اپنی گزارشات کو علما اور سامعین کے سامنے رکھنے کا موقع ملے گا۔ امید کی جاتی ہے کہ اقصیٰ کانفرنس میں کچھ ایسے فیصلے بھی کیے جائیں گے کہ جس سے امت مسلمہ کے اضطراب میں کمی واقع ہو اور فلسطینیوں کے دکھوں کے مداوے اور اس مسئلے کے حل کیلئے اہم تجاویز اور مطالبات بھی سامنے آئیں گے۔