"AIZ" (space) message & send to 7575

عالمی کانفرنس ڈھاکہ

سات اور آٹھ فروری کو جمعیت اہلحدیث بنگلہ دیش کے زیر اہتمام انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں اہمیتِ سنت پر عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس کانفرنس میں بہت سے ممالک کے مندوبین نے شرکت کی۔ پاکستان سے جانے والے اکثر جید علما نے سات تاریخ کو اپنی معروضات کانفرنس میں پیش کیں‘ مجھے آٹھ فروری کو نمازِ مغرب کے بعد کانفرنس سے خطاب کرنا تھا۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بڑے رقبے پر مشتمل ایک تعلیمی ادارہ ہے جس میں آرٹس اور سائنس کی تعلیم دینے والے پروفیشنل اساتذہ ہیں اور طلبہ کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ جب میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پہنچا تو جمعیت بنگلہ دیش کے امیر ڈاکٹر عبداللہ فاروق اور ناظم اعلیٰ شہید اللہ خان نے گرمجوشی کے ساتھ میرا استقبال کیا۔ ڈاکٹرعبداللہ فاروق نے انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔ امیرِ جمعیت کی گرمجوشی اور ان کا والہانہ پن دیکھ کر میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اگرچہ سیاسی اور لسانی عصبیتوں کی وجہ سے ہم جدا ہوگئے لیکن دین کی نسبت سے آج بھی بنگلہ دیش میں کثیر تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اہلِ پاکستان کے ساتھ محبت اور پیار کرتے ہیں۔ جب میں سٹیج پر پہنچا تو وہاں پر موجود علما اور کارکنان نے پُرتپاک طریقے سے استقبال کیا۔ اس موقع پر امیرِ جمعیت اور ناظم اعلیٰ نے مجھے یادگاری شیلڈ پیش کی۔ سعودی عرب کی وزارتِ مذہبی امور کے مشیر اور سعودی سفیر نے بھی اہمیتِ سنت کے موضوع پر مفید علمی گفتگو کی۔ نیپال سے آئے عالمِ دین نے بھی اپنے ارشادات لوگوں کے سامنے رکھے۔ معروف بنگلہ دیشی خطیب مولانا مظفر نے بڑا پُرجوش خطاب کیا جسے عوام نے بہت سراہا۔
مقررین کی تقاریر کے دوران لوگوں کو متوجہ دیکھ کر مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ بنگلہ دیش کے لوگ سماعت کا بڑا اچھا ذوق رکھتے ہیں اور ایسے خطبا جو مدلل اور پُرجوش گفتگو کرنے والے ہوں‘ ان کے خطاب کو خصوصی دلچسپی سے سنتے ہیں۔ مجھے دعوتِ خطاب دینے کیلئے امیرِ جمعیت خود سٹیج پر تشریف لائے اور انہوں نے والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ کے ساتھ بہت زیادہ عقیدت کا اظہار کیا اور میری بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی۔ اس موقع پر میں نے بنگلہ دیش کے لوگوں کے سامنے جن گزارشات کو رکھا ان کوکچھ ترامیم اور اضافے کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
دنیا میں بہت سی زبانیں اور ثقافتیں رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ ہر قوم کا اپنا ایک تاریخی پس منظر ہے لیکن دنیا میں وہ واحد تعلق جو رنگ‘ علاقے اور نسل پر غالب آ جاتا ہے وہ دین کا تعلق ہے۔ بنگلہ دیش کے مسلمانوں سے ملنے کی مجھے عرصہ دراز سے خواہش تھی اور اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ بنگلہ دیش کا پاکستان کے ساتھ ایک مذہبی اور تاریخی تعلق ہے۔ مسلم لیگ کی بنیاد بھی ڈھاکہ میں رکھی گئی تھی اور یہاں کے لوگوں نے دو قومی نظریہ کے فروغ کے لیے نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ آج کی اس کانفرنس میں جو موضوع زیر بحث ہے وہ سنت نبویﷺ کی اہمیت ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس زمین میں انسانوں کی جملہ ضروریات کو پوراکرنے کیلئے بڑے خوبصورت انداز میں بندوبست کیا ہے۔ انسانوں کی غذائی ضروریات ہوں یا جسم ڈھانکنے کی ضروریات‘ اللہ تعالیٰ نے ان تمام تقاضوں کو اسی زمین میں سے پورا کیا ہے۔ طبعی ضروریات کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کی روحانی ضروریات کو پورا کرنے کا بندوبست بھی اسی زمین پر فرمایا اور مختلف ادوار اور علاقوں میں انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث کیا جن پر اللہ تعالیٰ کی وحی آتی رہی۔ ان تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کو نبی کریمﷺ پر نازل فرمایا اور ان کے سر پر تاجِ ختم نبوت رکھا۔ اللہ تعالیٰ اس وحی کے نزول کے حوالے سے سورۃ النساء کی آیت: 163میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بیشک ہم نے وحی بھیجی ہے تمہاری طرف جیسے وحی بھیجی تھی ہم نے نوح اور ان نبیوں کی طرف جو ان کے بعد ہوئے اور وحی بھیجی ہم نے ابراہیم‘ اسماعیل‘ اسحاق‘ یعقوب اور اولادِ یعقوب کی طرف اور عیسیٰ‘ ایوب‘ یونس‘ ہارون اور سلیمان کی طرف اور دی ہم نے داؤد کو زبور‘‘۔ جب اللہ تبارک وتعالیٰ کسی نبی پر وحی کا نزول فرماتے تو اس کے ساتھ وحی کی کامل تفہیم بھی اس نبی کو عطا فرماتے تاکہ جو لوگ وحی کے مفہوم کو صحیح طور پر جاننا چاہتے ہوں وہ اپنے نبی کی طرف رجوع کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے تورات‘ انجیل اور زبور کے بعد نبی کریمﷺ پر جب قرآن مجید کا نزول فرمایا تو اس حقیقت کو واضح فرما دیا کہ اس کو نازل کرنے کے بعد اس کا بیان بھی نبی کریمﷺ کے ذمے ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ النحل کی آیت: 44 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بھیجا تھا ان کو کھلی نشانیاں اور کتابیں دے کر اور اتارا ہم نے تم پر بھی یہ ذکر‘ تاکہ کھول کھول کر بیان کرو تم انسانوں کے سامنے وہ تعلیم جو نازل کی گئی ہے ان کے واسطے اور تاکہ وہ غور کریں‘‘۔
اب اگر کوئی شخص قرآنِ مجید سے رہنمائی حاصل کرنا چاہے تو اس کو نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کے ساتھ بھی رجوع کرنا پڑے گا۔ قرآن مجید میں متعدد ایسے حقائق کو بیان کیا گیا جن کو مکمل طور سمجھنے کیلئے حدیث و سنت سے تعلق استوار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں حج کے مہینوں کا ذکر کیا کہ حج کے مہینے معلوم ہیں جبکہ قرآنِ مجید کے کسی دوسرے مقام پر ان مہینوں کا ذکر نہیں۔ جب ہم حدیث و سنت سے رجوع کرتے ہیں تو شوال‘ ذوالقعدہ اور ذوالحج میں احرام باندھنے والے حج کا قصد کر سکتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے صفا و مروہ کی سعی کا بھی ذکر کیا۔ صفا و مروہ کی سعی کا آغاز کہاں سے ہونا چاہیے اور اس کے چکر کس طرح مکمل ہوتے ہیں‘ اس کا ذکر حدیث و سنت میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نماز کے قیام کا ذکر کیا جبکہ قرآن مجید میں نماز کی رکعتوں اور اس کے طریقۂ ادائیگی کا کوئی ذکر نہیں‘ اس کیلئے ہمیں حدیث و سنت سے رجوع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیا گیا جبکہ زکوۃ کے نصاب کا ذکر قرآن مجید میں موجود نہیں‘ اس کیلئے ہمیں حدیث و سنت سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح روزے کے احکامات و مسائل کا تفصیلی علم ہمیں حدیث و سنت کی طرف مراجعت سے ہی ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں ایک سورۃ مبارکہ ابولہب کے بارے نازل ہوئی۔ ہم تمام لوگ جانتے ہیں کہ ابولہب کا جرم کیا تھا۔ اس کا جرم بنیادی طور پر دعوتِ حق کو ٹھکرانا اور اس حوالے سے عناد کا مظاہرہ کرنا تھا لیکن یہ تفاصیل قرآن مجید میں موجود نہیں بلکہ یہ تفصیل کتب احادیث سے حاصل ہوتی ہے۔ انسان کے یومِ ولادت سے لے کر اس کی جوانی تک اور اس کے نکاح سے لے کر اس کی وفات تک‘ زندگی کے ہر مرحلے میں انسان حدیث و سنت کا محتاج ہے۔ اسی لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے متعدد مقامات پر حدیث و سنت کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ کتاب و سنت سے وابستگی اختیار کرنا تمام مسلمانوں کیلئے یکساں ضروری ہے۔ مشرق و مغرب میں رہنے والا ہر مسلمان تبھی فلاح کے راستے پر گامزن ہو سکتا ہے جب وہ کتاب و سنت سے وابستگی اختیار کرے۔ کتاب و سنت سے وابستگی ایک عالمگیر بنیاد ہے جو سیاسی اور لسانی عصبیتوں کا تدارک کر دیتی ہے۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کو سیاسی عصبیت رکھنے والے تنگ نظر لوگوں نے تقسیم کیا لیکن آج بھی کتاب و سنت کی بنیاد پر ہم متحد اور مجتمع ہیں۔
شرکا نے بہت زیادہ توجہ کے ساتھ یہ خطاب سنا اور جب قوم پرستی کی مخالفت کی بات آئی تو بھرپور انداز سے اس بات کی تائید کی۔ بنگلہ دیش کے عوام کے جوش اور جذبے کو دیکھ کر اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہ تھا کہ دین کی بنیاد پر اگر ہم مضبوط اور مستحکم ہوں تو اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل و کرم سے ہر قسم کی عصبیتوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ یہ عالمی کانفرنس اپنے جلو میں بہت سی خوبصورت یادوں کو لیے اختتام پذیر ہوئی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں