ٹرمپ ٹیرف کے دنیا اور امریکہ پر اثرات

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تین اپریل کو عالمی تجارتی نظام پر ٹیرف بم گرا کر تقریباً ایک سو ممالک کی معیشت کو راتوں رات تہ و بالا کر دیا ہے۔ امریکہ کے اہم ترین تجارتی میگزین فوربز کے مطابق ٹرمپ کے اس اقدام کی وجہ سے صرف دو روز میں 500 امریکی کمپنیوں نے پانچ ٹریلین ڈالرز کا نقصان اٹھایا اور امریکی سٹاک مارکیٹ کریش کر گئی۔
خاکسار ان دنوں امریکہ میں ہے۔ میں نے گزشتہ تین روز کے دوران لوئی ول‘ ڈیٹرائٹ‘ پٹس برگ اور واشنگٹن میں امریکی بزنس مینوں‘ تجزیہ کاروں اور عام لوگوں سے ٹرمپ کے درآمدی محصولات بارے سوال کیا کہ اس کے امریکی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ان میں سے اکثریت کا کہنا یہ ہے کہ بھاری درآمدی محصولات کے نتیجے میں امریکہ پر مثبت بہت کم اور منفی اثرات بہت زیادہ پڑیں گے۔ اگرچہ اس وقت زیادہ تر امریکی مایوسی کی لہرکی لپیٹ میں ہیں مگر کچھ ایسے بھی ہیں جو ٹرمپ کے شجرِ محصولات سے پیوستہ رہ کر امیدِ بہار میں مگن دکھائی دیتے ہیں۔ ہلچل مچانا شاید صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مزاج کا حصہ ہے یا اُن کی پالیسی کا۔ وہ پہلے ایسے ایسے غیرمتوقع اعلان کر دیں گے کہ جس سے محسوس ہو گا کہ اب ہر نقشِ کہن مٹ جائے گا اور امریکیوں کیلئے خوشی اور خوشحالی کے نئے نئے باب وا ہوں گے مگر جب ان پالیسیوں کو زمینی حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے تب ثابت ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی خواب و خیال کی دنیا اور حقیقی دنیا کے درمیان بُعد المشرقین ہے۔
پانچ اپریل کو امریکی دارالحکومت واشنگٹن سمیت اکثر ریاستوں ٹرمپ کی امیگریشن اور تجارتی پالیسیوں کے خلاف بڑے بڑے احتجاج ہوئے۔ اس کے علاوہ برطانیہ‘ جرمنی‘ پرتگال‘ فرانس‘ کینیڈا اور میکسیکو میں بھی ہزاروں لوگوں نے مظاہرے کیے اور ٹرمپ کے بھاری درآمدی محصولات کی پُرزور الفاظ میں مذمت کی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکیوں کو یہ نوید سنائی کہ وہ ان کے روزگار واپس لائیں گے اور اشیا اب دوسرے ملکوں میں نہیں امریکہ میں تیار ہوں گی۔ اشیائے صرف‘ ملبوسات‘ ادویات وغیرہ کی تیاری کیلئے اب کمپنیاں امریکہ کے اندر ہی فیکٹریاں لگائیں گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے یا نہیں۔ کہنے اور سننے کی حد تک ہوم انڈسٹری کا نعرہ بہت خوش نما لگتا ہے۔ ہم ہوم انڈسٹری کے امکانات کا زمینی حقائق کی روشنی میں جائزہ لینے سے پہلے امریکہ کی سٹاک مارکیٹ کے کریش کرنے اور اس سے عام امریکی کے متاثر ہونے کا ایک مختصر نقشہ‘ امریکیوں کی فراہم کردہ تازہ ترین معلومات کی روشنی میں آپ کے سامنے پیش کریں گے۔ پاکستان یا دوسرے کئی ممالک کی طرح امریکی سٹاک مارکیٹ میں زیادہ تر پنشن والے افراد سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ پہلے ذرا امریکہ کا پنشن نظام سمجھ لیجئے۔ ہماری طرح امریکہ میں سرکاری یا پرائیویٹ ملازمت کرنے والوں کو حکومت یا کمپنیوں کی طرف سے لگی بندھی پنشن نہیں ملتی۔ ہر شخص کو اپنی اولڈ ایج کیلئے بچت ضرور کرنا پڑتی ہے۔ تاہم لوگ مالی اور اقتصادی مشیروں کے ذریعے اپنی پنشن کی رقوم سے مختلف کمپنیوں میں شیئرز خریدتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص نے یہ حساب کتاب لگایا ہے کہ وہ جب 70 سال کی عمر کو پہنچے گا تو اُس وقت کمپنیوں سے ملنے والے منافع سے اس کی پنشن بچت چار لاکھ ڈالر ہو جائے گی۔ اب ہمیں ایسے لوگ ملے ہیں کہ جن کے شیئرز کی قیمت ٹرمپ کے ٹیرف لگانے سے صرف دو دنوں میں بہت نیچے آ گئی۔ اب ان کی بچت چار لاکھ کے بجائے صرف تین لاکھ رہ گئی اور اگلے چند دنوں میں اس میں مزید کتنی کمی آئے گی۔ اسلئے اب انہوں نے اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق ریٹائرمنٹ لینے کا پروگرام منسوخ کر دیا ہے۔ امریکہ میں بالعموم لوگوں کو اپنی صحت کے مطابق کام کرنے کی سہولت حاصل ہے‘ انہیں جبری طور پر حکومت یا کمپنیاں ریٹائر نہیں کرتیں۔ اسلئے سٹاک مارکیٹ کے دھڑام سے نیچے آنے سے بزنس مین یا امیر لوگ ہی متاثر نہیں ہوئے‘ عام شہری زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور ان کی ریٹائرمنٹ‘ سیر و تفریح‘ بچوں کی ہائر ایجوکیشن وغیرہ کے پروگراموں میں بھی زلزلہ برپا ہوا ہے۔ پٹس برگ کے ایک امریکی نے بتایا کہ اس نے ایلون مسک کی کار سازکمپنی 'ٹیسلا‘ کے شیئرز خریدے ہوئے تھے۔ ان میں اسے صرف دو روز میں ایک لاکھ امریکی ڈالرز کا نقصان ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ کے سادہ سے اندازوں اور تخمینوں کے مطابق بیرونی درآمدات مہنگی ہو جائیں گی اور اندرونِ ملک بننے والی اشیا پر چونکہ کوئی محصولات نہیں ہوں گے تو وہ سستی ہو جائیں گی مگر ایں خیال است و محال است والی صورتحال ہے۔ مثلاً 'ایپل‘ نے اپنے آئی فون پر واضح طور پر لکھا ہے کہ یہ آئی فون کیلیفورنیا میں ڈیزائن کیا گیا ہے اور اس کی مینو فیکچرنگ چین میں ہوتی ہے۔ اب کیا ایپل کمپنی اپنے آئی فونز کی مینوفیکچرنگ چین سے ختم کر کے امریکہ میں کرنے پر آمادہ ہو جائے گی؟ ایسا کسی طور ممکن نہیں‘ کیونکہ چین میں ٹیکنیشنز کی اجرت ایک ڈالر فی گھنٹہ ہو گی لیکن امریکہ میں کم از کم 15 ڈالر فی گھنٹہ ادا کرنا پڑیں گے۔ اگر اتنی بھاری لاگت سے فون تیار ہوگا تو اس کی قیمت آسمان پر پہنچ جائے گی۔ اس لیے ایپل کمپنی کبھی بھی مینوفیکچرنگ امریکہ کے اندر کرنے پر تیار نہ ہو گی۔
ڈیٹرائٹ میں فورڈ کار کمپنی کے معاملات کو اچھی طرح سمجھنے والے ایک امریکی نے بتایا کہ پہلے فورڈ گاڑیوں کے اسمبلی پلانٹ کے ہر سٹال پر ایک ٹیکنیشن مقرر ہوتا تھا اب اس کار کمپنی نے فنی ماہرین میں کمی کر کے ان کی جگہ روبوٹ کھڑے کر دیے ہیں۔ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسیوں کی بنا پر جب کاروں کی تیاری میں درآمدی آئٹمز مہنگے ہو جائیں گے تو وہ ٹیکنیشنز کی جگہ مزید روبوٹس لے آئیں گے۔ یہی طریق کار مزید کمپنیاں اختیار کر کے بے روزگاروں کی تعداد میں اضافہ کر دیں گی۔ امریکی ماہرین نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ موجودہ دور میں کسی ایک چیز کی تیاری صرف ایک ملک سے ہی فراہم کردہ خام مال‘ پرزوں‘ مطلوبہ ٹیکنالوجی اور دیگر تمام اہم ضروریات حاصل نہیں کی جا سکتیں۔ اب مینوفیکچرنگ انفرادی نہیں‘ ایک اجتماعی عمل بن چکا ہے۔
اب ذرا یہ دیکھیے کہ امریکہ کے سٹوروں پر صرف دو ہفتوں میں مہنگائی کا طوفان برپا ہونے والا ہے۔ مثلاً امریکہ میں آنے والی نصف ٹیکسٹائل درآمدات ویتنام سے آتی ہیں‘ جب ویتنام کو 46 فیصد درآمدی محصول ادا کرنا پڑے گا تو وہاں سے درآمد کردہ اشیا کی قیمتیں کہاں جا پہنچیں گی؟ امریکی سٹوروں پر کھیلوں کے ملبوسات اور عام ملبوسات‘ جن میں مردانہ اور زنانہ پینٹ کوٹ‘ شرٹس‘ جرابیں‘ بچوں کے ملبوسات وغیرہ شامل ہیں‘ ویتنام سے آتے ہیں۔ محصولات کے بعد ان کی قیمتیں بہت اوپر چلی جائیں گی۔ اوّل تو امریکی کمپنیاں یہ ساری اشیا امریکہ میں تیار نہیں کر سکتیں‘ اگر کر بھی لیں تو بھی درآمدی اشیا کی قیمتیں امریکہ میں تیار کردہ اشیا کی قیمتوں سے کم ہی ہوں گی۔ اس طرح چین سے بے شمار اشیائے صرف آتی ہیں۔ ادویات کے کئی اجزا وہاں سے آتے ہیں۔ اب چین پر 34 فیصد نیا ٹیرف لگانے سے 19 اپریل کے بعد سے چین پر لگایا گیا درآمدی ٹیرف 54 فیصد ہو جائے گا۔ ان محصولات کے بعد چین سے درآمدی اشیا تک امریکی عوام کی رسائی بہت دشوار ہو جائے گی۔ جب کپڑے مہنگے ہوں گے‘ جوتے مہنگے ہوں گے‘ کھیلوں کے ملبوسات مہنگے ہوں گے‘ ضروری ادویات کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کرنے لگیں گی تو امریکی عوام بلبلا اٹھیں گے۔
امریکی شہری ابھی سے صدر ٹرمپ کے مشیر ایلون مسک کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں یہ سب کچھ اسی کا کیا دھرا ہے۔ ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی عوام کو سخت صبر سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آخر کار ہماری پالیسی سے امریکہ میں زبردست اقتصادی انقلاب برپا ہوگا۔ ہمارا بھی آپ کیلئے مشورہ ہے کہ آپ بھی صبر سے کام لیں اور آئندہ چند مہینوں میں نہیں محض چند ہفتوں میں صدر ٹرمپ کے بھاری درآمدی محصولات کے نتائج دنیا اور امریکہ کے سامنے آ جائیں گے۔ اور ان نتائج کے مثبت ہونے کی توقع نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں