دریائے سندھ سے چھ نہریں نکالنے کا منصوبہ

ہمارے حکمران اور سیاستدان اہم مسائل سنوارنے کے بجائے بگاڑنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ دس اپریل کو اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے قومی اسمبلی میں ایک دھواں دھار تقریر کے دوران الزام لگایا کہ ایوانِ صدر کے ایک اجلاس میں آصف علی زرداری نے بقلم خود نئی چھ نہروں کی منظوری دی مگر اب ان کی پارٹی واویلاکیوں کر رہی ہے؟ البتہ انہوں نے ان نہروں کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کے اس بیان پر اسمبلی کے اندر پیپلز پارٹی کے اراکین نے زبردست احتجاج کیا۔
اس وقت دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں اور بارشوں کی کمی کی بنا پر پانی کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔ پانی کی قلت کا شکار ملکوں میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ اس سال پاکستان میں بارشیں بہت کم ہوئیں اس لیے پانی کی کمی اور بھی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ تازہ خبروں کے مطابق سندھ میں پانی کا شدید بحران پیدا ہو چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 80 لاکھ ایکڑ فصلوں کی کاشت متاثر ہوئی ہے اور دریا سوکھ گئے ہیں۔ پہلے ذرا یہ سمجھ لیجئے کہ دریائے سندھ سے چھ نہریں نکالنے کی غرض و غایت کیا ہے؟ جون 2023ء میں وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف کی سربراہی میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا اجلاس ہوا جس میں ''گرین پاکستان‘‘ منصوبے کی تفصیلات بیان کی گئیں۔ اس پروگرام کے تحت ملک کے چاروں صوبوں میں 48 لاکھ ایکڑ بنجر زمینوں کو لیز پر حاصل کر کے کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے آباد اور سر سبز و شاداب بنانے اور زیادہ سے زیادہ فصلیں اگانے کا اعلان کیا گیا۔ منصوبے کا مقصد ملک کو خود کفیل بنانا اور ضرورت سے زائد زرعی فصلوں سے حاصل ہونے والی گندم اور چینی وغیرہ کو برآمد کرنا ہے۔ بظاہر یہ ایک خوش نما منصوبہ ہے‘ تاہم پانی کی قلت کی بنا پر سندھی عوام‘ قوم پرست جماعتیں اور دانشور شدید احتجاج کر رہے ہیں۔ بعض ماہرینِ معیشت نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ پاکستان میں پہلے ہی پانی کی شدید قلت ہے‘ اگر یہ نہریں نکال کر چولستان کو سیراب کیا گیا تو پہلے سے سر سبز و شاداب زمینوں کے بنجر ہو جانے کے شدید خطرات ہیں۔ چولستان میں بہاولنگر اور بہاولپور کے ریگستان شامل ہیں۔ سندھ کی 90فیصد زراعت کا انحصار دریائے سندھ پر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ سے سیراب ہونے والی زمینوں کیلئے ہی پانی ناکافی ہے تو پھر بنجر زمینوں کیلئے پانی کہاں سے آئے گا۔
پنجاب چولستان کے علاقے میں صحرائی زمین کو سیراب کرنے کیلئے 211 ارب روپے کی لاگت سے جو چولستان کینال بنا رہا ہے اس نہر کیلئے پانی پنجاب دے گا۔ بڑا صوبہ پہلے ہی اپنے حصے سے 20فیصد کم پانی لے رہا ہے۔ اتنی فیاضی سے پنجاب کی پہلے سے آباد زمینوں کی فی ایکڑ پیداوار میں کمی کے شدید خدشات ہیں۔ ارسا کے ترجمان نے نہروں کے دفاع میں دلچسپ دلائل دیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نہریں دریائے سندھ کا پانی حاصل کرنے کے بجائے بارشوں سے جمع شدہ پانی کیلئے بنائی جا رہی ہیں۔ جب بارشیں ہی نہیں ہو رہیں تو پھر نہروں پانی کہاں سے آئے گا۔ غالباً یہی سوچ کر ترجمان نے دوسرے سانس میں یہ بھی کہا کہ ان نہروں کو دریائے سندھ سے نہیں بلکہ دریائے جہلم اور چناب سے پانی دیا جائے گا۔ کارپوریٹ فارمنگ کے اپنے مثبت اور منفی پہلو ہیں۔ اپنی زمینوں پر غیر ملکی سرمایہ کاری سے فارمنگ زیادہ مستحسن بات نہیں۔ اپنی زرعی زمینوں پر اپنے ہی کاشتکار جدید مشینری کے استعمال سے فی ایکڑ زیادہ پیداوار حاصل کریں تو اس سے دولت چند افراد کے بجائے لاکھوں تک پہنچے گی۔ سندھ کی قوم پرست جماعتوں نے نومبر 2024ء سے دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف ڈاکٹر قادر مگسی کی قیادت میں قومی شاہراہوں اور شہروں میں احتجاجی جلسوں اور دھرنوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ ان کا بنیادی نعرہ یہ ہے کہ سندھ کے حصے کا پانی کسی کو نہیں لینے دیں گے۔ ان کا مؤقف یہ ہے کہ اگر دریائے سندھ سے نہروں کے ذریعے پانی نکال لیا گیا تو پہلے سے خشک سالی کی زد میں آئی ہوئی سندھ کی زرعی زمین بالکل بنجر ہو جائیں گی۔ لگتا یہ ہے کہ سندھ میں پہلی بار قوم پرست اور قومی سیاسی جماعتیں نہروں کے مسئلے پر ایک ہی صف میں کھڑی ہو گئی ہیں۔ حیرت ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کی اب تک کوئی میٹنگ نہیں بلائی گئی۔
یہاں امریکہ میں موجود سندھ سے تعلق رکھنے والے پاکستانی امریکن دوستوں سے نہروں کے مسئلے پر گفتگو ہوئی تو سیہون شریف کے قاضی خالد احمد نے بتایا کہ انہوں نے اس معاملے کے تمام پہلوؤں کا کھلے دل و دماغ کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔ قاضی صاحب نے پاکستان میں کئی بزرگ سیاستدانوں سے بھی رابطہ کیا۔ دادو کے سائیں اللہ داد بھگیو نے قاضی صاحب کو بتایا کہ سندھ میں میاں نواز شریف کے ساتھ جو چند وڈیرے تھے‘ وہ بھی پانی کے مسئلے پر عوام سے چھپتے پھرتے ہیں۔ احتجاج کا پس منظر بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں سب سے پہلے سندھ کے ادیبوں اور دانشوروں نے سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو متنبہ کرنا شروع کیا‘ اس کے بعد قوم پرست لیڈروں نے ریلیاں نکالیں‘ یوں ہر طرف ہاہاکار مچ گئی۔ قاضی خالد احمد بھی اس منصوبے کے حق میں نہیں۔ امریکہ میں مقیم صاحبِ مطالعہ دوست فرید بھٹو اور ڈاکٹر ندیم تالپور سے اس مسئلے پر بات ہوئی تو وہ بھی پانی کی کمی کی بنا پر دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے خلاف ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اس وقت حکومتی اتحاد کا حصہ ہے۔ آصف علی زرداری صدرِ مملکت کے عہدے پر متمکن ہیں۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کے اتفاق کے بغیر حکومت نے کوئی یکطرفہ فیصلہ کر لیا ہو؟ لگتا یہ ہے کہ صدر زرداری نے زبانی یا تحریری طور پر نہروں کے منصوبے سے اتفاق کیا۔ اب جب ساری سندھی جماعتیں بشمول پیر پگاڑا کی جماعت جی ڈی اے ایک صفحے پر یکجا ہو گئی ہیں تو پیپلز پارٹی بھی مجبوراً پیچھے چل پڑی ہے۔ یہ بھی امکان ہے کہ صدر زرداری نے شاید بلاول بھٹو اور پارٹی کے دیگر زعما کو اعتماد میں لیے بغیر بہت سے حلقوں کو خوش کرنے کیلئے نہروں کے منصوبے پر اپنی حمایت کی مہر ثبت کر دی ہو۔ پاکستان میں حکومت کسی پارٹی یا پارٹیوں کی ہو‘ سب کو اپنی من مانی کرنے کے بجائے وسیع تر اتفاقِ رائے کا کلچر اپنانے کا فیصلہ کر لینا چاہیے۔ اسی میں سب کا بھلا اور سب کی خیر ہے۔
عزیز دوست طارق باجوہ کی رحلت: طارق باجوہ سے گہرا تعلق خاطر تقریباً چار دہائیوں پر محیط تھا۔ جانے والے نے ام القریٰ یونیورسٹی مکۃ المکرمہ سے لے کر ایریزونا امریکہ تک تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ ایک ایسا جانِ محفل تھا جو رسم زمانہ کے برعکس سنتا زیادہ اور بولتا کم تھا مگر وہ جب بولتا تو دوستوں کا دل موہ لیتا تھا۔ وہ دوستوں کیلئے سراپا محبت و اخلاص تھا۔ اس کی بیگم پاکستانی برٹش‘ بچے امریکن اور خود وہ ایک سچا پاکستانی تھا۔ ایک بڑے عرب ملک میں اسکی شہریت کے امکانات پیدا ہوئے تو طارق نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مجھے اپنا پیارا پاکستان دل و جان سے عزیز تر ہے۔ دنیا سے اچانک رخصت ہونیوالے مرحوم دوست کو نہ کبھی دوستوں کا گلہ کرتے سنا اور نہ ہی اسکے لب پر کبھی شکایتِ زمانہ آتی تھی۔ طارق کے بھائیوں احسن اور امین کی گواہی ہے کہ بھائی جان بیماری کی حالت میں بھی ملازمین کو پکارنے کے بجائے اپنے کام خود کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اپنے دور کے امیر جماعت اسلامی سید منور حسن اور طارق کے مابین گہرا قلبی تعلق تھا۔ سید صاحب کی وفات کے بعد طارق کا بھی اس دنیا سے دل اچاٹ ہو گیا تھا۔ اللہ مرحوم کی حسنات کو اضافوں کے ساتھ قبول کرے اور اس کی بشری کوتاہیوں سے درگزر فرمائے اور اسے اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ آمین!

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں