رواں سال جنوری میں چودہ سالہ حرا کو نیو یارک سے سکول چھڑوا کر اور کوئٹہ لا کر جب اس کا باپ اپنی بیٹی کے ماموں کے ساتھ مل کر اس کے قتل کی منصوبہ بندی کر رہا تھا تو آپ کا کیا خیال ہے اس وقت اس کے ذہن میں کیا چل رہا تھا؟ چلیں باپ کو ایک طرف کر دیتے ہیں‘ ذرا یہ سوچیں کہ جب باپ نے اپنے سالے اور حرا کے ماموں کو کہا ہو گا کہ اسے اپنی بیٹی کو قتل کرانا ہے تو ماموں کا کیا ردعمل ہو گا؟ دونوں نے ایک دوسرے کو کن نظروں سے دیکھا ہو گا۔ امریکہ پلٹ بہنوئی نے اپنے سالے کو کیسے قائل کیا ہو گا کہ اسے اپنی بھانجی کو قتل کرنا ہو گا۔ کیا سالے نے نہیں پوچھا ہوگا کہ یہ کام تم نے خود کیوں نہیں کیا‘ مجھ سے کیوں کرانا چاہتے ہو؟ تمہاری بیٹی ہے‘ خود اس کا گلہ دبا دو‘ جیسے پاکستان میں اکثر کیا جاتا ہے۔ یا پھر حرا کے باپ نے اپنے بہنوئی کو پیسوں کی آفر کی ہو گی یا پھر وہ امریکہ سے اتنے پیسے بھیجتا رہا تھا کہ اب وہ ان پیسوں کے بوجھ تلے انکار نہیں کر سکتا تھا یا پھر بردار نسبتی کو لگا ہوگا کہ اب تک اسے بہنوئی کی طرف سے جو بھی پیسے ملتے رہے ہیں‘ اس کا بدلہ چکانے کا یہ بہترین موقع ہے کہ اپنی بھانجی کے قتل میں معاونت کر دو۔
ہمارے ذہن میں یہ بات آ سکتی ہے کہ جب حرا کے باپ نے اپنے سالے سے اسے قتل کرانے کے بات کی ہو گی تو انسانی جبلت کا تقاضا ہے کہ اسے شدید صدمہ ہوتا کہ باپ ہو کر کیوں بیٹی کو قتل کرنا چاہتا ہے؟ ماموں تو سمجھانے اور روکنے کی کوشش کرتا۔ دوسرا فطری ردعمل یہ ہوتا کہ اپنی بہن اور حرا کی ماں کو فوراً نیویارک میں بتاتا کہ تمہارا خاوند اپنی بیٹی کو قتل کرنا چاہ رہا ہے‘ تم فوراً کوئٹہ پہنچو اور بیٹی کی جان بچاؤ یا پھر وہ پولیس کو اطلاع کرتا یا پھر رشتہ داروں کو بتاتا کہ یہ کام ہونے والا ہے لیکن اس نے ان میں سے کوئی ایک کام بھی نہیں کیا۔ کجا یہ کہ وہ اپنے بہنوئی کو قائل کرتا کہ بیٹی کو قتل نہ کرو بلکہ الٹا بہنوئی نے اسے قائل کر لیا کہ تم ہی میری بیٹی کو قتل کرو گے۔ اب فیصلہ ہوا کہ ماموں ہی بھانجی کو قتل کرے گا لیکن منصوبہ ایسا ہو کہ لگے جیسے دورانِ ڈکیتی مزاحمت پر بچی کو گولی ماری گئی ہے۔
یوں بہنوئی اور سالے نے چودہ سالہ حرا کے قتل کا سارا منصوبہ مکمل کیا۔ پھر اچانک باپ کو یاد آیا کہ وہ تو بیٹی کو پاکستان پھرانے لایا تھا‘ اگر اسے بغیر گھمائے پھرائے قتل کرا دیا تو بے چاری کی روح بے چین رہے گی۔ لہٰذا اس نے بیٹی کو کہا کہ چل بیٹا تجھے لاہور دکھا کر لاتا ہوں۔ وہ بیٹی کو لاہور لایا اور واہگہ باڈر پر پریڈ دکھانے لے گیا۔ باپ بیٹی نے وہ پریڈ دیکھی جسے اس بچی حرا نے بہت انجوائے کیا۔ وہ اس پریڈ کے وڈیو کلپس نیویارک میں اپنی کلاس فیلوز اور کچھ دوستوں کو بھی بھیجتی رہی بلکہ اپنے انسٹاگرام پر بھی اس نے پوسٹ کیں۔ کچھ دن لاہور میں گزارنے کے بعد باپ بیٹی کو واپس کوئٹہ لے گیا جہاں اس کا ماموں قتل کا منصوبہ تیار کیے بیٹھا تھا۔ بہنوئی اور برادر نسبتی نے طے یہ کیا تھا کہ اس واقعہ کو راہزنی کی شکل دینی ہے۔ طے ہوا کہ باپ بیٹی صبح سویرے کہیں جانے کیلئے گھر سے نکلیں گے۔ باپ بیٹی کو گلی میں روک کر تھوڑی دیر کیلئے دوبارہ گھر میں جائے گا جیسے وہ کوئی چیز بھول گیا ہے اور اس دوران اس کا ماموں آ کر اس بچی کو قتل کر کے فرار ہو جائے گا اور اسے راہزنی سمجھا جائے گا۔
یہی کچھ ہوا۔ باپ بیٹی کو باہر لے کر نکلا اور اچانک کہا کہ ذرا ادھر رکنا‘ میں اندر فون بھول گیا ہوں۔ جونہی باپ اندر گیا تو باہر سے گولیاں چلنے کی آواز آئی اور ساتھ اس نے بیٹی کی چیخیں سنیں جو درد کی شدت سے اپنے باپ کو پکار رہی تھی۔ باپ باہر نکلا اور بیٹی کو لہو میں لت پت دیکھا تو وہیں دھاڑیں مار کر رونے لگا تاکہ ڈرامے میں خوب رنگ بھرا جا سکے۔ آس پاس کے لوگ بھی دوڑے چلے آئے۔ باپ زار و قطار روتا رہا۔ اب اچانک ہی باپ کو فکر پڑ گئی کہ اس کی بیٹی کو فوراً دفنایا جائے۔ اسی دوران پولیس کو اس واقعہ کی خبر ملی تو پولیس کو شک گزرا کہ کچھ اور کہانی ہے۔ باپ اسے فوراً دفنانا چاہ رہا ہے اور امریکہ میں اس بچی کی ماں اور دو دیگر بہنوں کو بھی نہیں بلوایا جا رہا‘ نہ ہی کوئی ان کا انتظار کرنا چاہ رہا ہے۔ پولیس نے سادہ کپڑوں میں اپنے بندے قبرستان بھیج دیے جنہیں اس لڑکی کے باپ کی حرکتیں مشکوک لگیں۔ شام تک باپ کو گرفتار کر کے تحقیق کی تو سالے بہنوئی دونوں نے قتل کی پلاننگ کا اعتراف کر لیا۔
اصل سوال یہ ہے کہ چودہ سالہ حرا قتل کیوں ہوئی؟ برسوں پہلے حرا کا باپ جس کے خاندان کا کوئٹہ میں ٹینٹ سروس کا کاروبار تھا‘ امریکہ میں لاٹری نکلنے پر نیویارک چلا گیا تھا۔ وہاں پر اس نے برسوں تک ٹیکسی چلائی۔ اس کی تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ سب سے بڑی اس وقت بائیس برس کی ہے۔ وہاں اس نے محنت کی اور چار کمروں پر مشتمل ایک فلیٹ بھی خرید لیا‘ اب اس کے حالات بہت اچھے ہو گئے تھے۔ تاہم دو سال پہلے اس میں بڑی تبدیلی آئی۔ اس نے داڑھی رکھ لی تھی۔ بیوی بھی پردہ کرتی تھی۔ اب وہ شلوار قمیض پہننے لگ گیا تھا۔ حرا نیویارک کے ایک ہائی سکول میں پڑھتی تھی جسے وہ ہر روز صبح سکول چھوڑنے جاتا تھا۔ سکول میں داخل ہوتے ہی حرا اپنا نقاب؍ سکارف ہٹا دیتی تھی جسے سکول کی پرنسپل نے نوٹ کیا۔ ایک دن اس نے حرا کو بلایا۔ پرنسپل کو لگا کہ شاید سکول کی دیگر لڑکیاں اسے مسلمان ہونے اور سکارف کی وجہ سے تنگ کرتی ہیں لہٰذا ان سے بچنے کیلئے وہ سکول میں داخل ہوتے ہی سکارف اتار دیتی ہے۔ حرا نے پرنسپل کو بتایا کہ ایسی کوئی بات نہیں‘ وہ خود سکارف اتارتی ہے۔
حرا بھی دیگر ماڈرن بچوں کی طرح امریکن ماحول کے مطابق سوچتی تھی اور شاید یہیں سے اس کے باپ کے ذہن میں اسے قتل کرنے کا منصوبہ بنا۔ اسے لگا کہ اگر امریکہ میں قتل کیا تو وہ بچ نہیں پائے گا لہٰذا اسے وہ پاکستان کوئٹہ لے جائے اور ڈکیتی کا رنگ دے کر قتل کرا دے۔ یوں پہلے قدم کے طور پر اس نے اپنی بیٹی حرا کا نام سکول سے نکلوایا۔ امریکن قانون کے تحت آپ اگر اپنے بچے کا نام ایک سکول سے کٹوا تے ہیں تو بتانا پڑتا ہے کہ اسے کون سے دوسرے سکول میں داخل کرایا ہے۔ حرا کے باپ نے اس کا بھی بندوبست اپنے سالے کی مدد سے کرایا ہوا تھا اور کوئٹہ کے ایک سکول کا داخلہ سرٹیفکیٹ پیش کر دیا کہ وہ بچوں کو واپس پاکستان لے کر جا رہا ہے۔ یوں وہ حرا کو پاکستان پھرانے کے نام پر لے آیا اور گھر میں اپنی بیوی اور دو بیٹیوں کو شک تک نہیں ہونے دیا کہ وہ بیٹی کو قتل کرنے جارہا ہے۔ یوں بیس‘ پچیس سال پہلے جو باپ امریکہ میں اپنے اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کیلئے گیا تھا وہ واپس آیا تو بھی کس کام کیلئے‘ بیٹی کو قتل کرانے کیلئے۔ اس کا منصوبے تھا بیٹی کو قتل اور دفن کرانے کے بعد آرام سے امریکہ لوٹ جائے گا اور اپنی نارمل زندگی شروع کر دے گا۔
جس دن حرا کی ایک دوست لیلی بینکا کو پتہ چلا کہ حرا پاکستان میں قتل کر دی گئی ہے‘ اس روز وہ صدمے سے سکول نہ جا سکی۔ وہ سارا دن غمزدہ رہ کر اس کے پرانے میسجز پڑھتی رہی۔ حرا نے اسے واٹس ایپ پر آخری میسج 26جنوری کو صبح 5:10 پر بھیجا تھا۔ وہ وڈیو کلپ پاکستانی گلوکار زین ملک کا گانا تھا۔ حرا زین ملک کو پسند کرتی تھی۔ وہ گانا زین ملک نے نیویارک کے ایک کنسرٹ میں گایا تھا جس کے بول تھے I Love you۔ (اس کالم کا مواد دی نیویارک ٹائمز سے لیا گیا ہے)