"RKC" (space) message & send to 7575

وزیراعظم سہروردی سے کابینہ سیکرٹری تک

ہمارے ہاں ایک مفروضہ ہے کہ ماضی کے حکمران اور بیورو کریٹس ایماندار تھے اور وقت کے ساتھ کرپشن اور بے ایمانی بڑھ گئی ہے۔ اب ہر دوسرا سیاستدان اور بیورو کریٹ کرپشن کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔ چلیں‘ اب یہ مِتھ بھی ٹوٹ گئی ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی میں انکشاف ہوا ہے کہ 1956ء میں اس وقت کے وزیراعظم حسین شہید سہروردی ایک سرکاری وفد لے کر چین گئے تھے۔ پاکستان اور چین‘ دونوں نئے نئے آزاد ہوئے تھے اور ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کے بعد دوستی کے بندھن میں بندھ رہے تھے۔ چین کی حکومت نے اس وفد کی بہت عزت افزائی اور بھرپور میزبانی کی۔ واپسی پر وفد کو بہت قیمتی اور مہنگے تحائف دیے گئے۔ تحائف کو دیکھ کر پاکستان کے سرکاری وفد کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ انہیں یہ خیال ستانے لگا کہ واپس جاکر یہ تحائف توشہ خانے میں جمع کرانے ہوں گے۔ اس پر تمام ممبران کا دل بیٹھ گیا۔ کسی سیانے نے مشورہ دیا کہ اس کا ایک حل موجود ہے۔ پاکستان واپسی کیلئے ہانگ کانگ میں سٹاپ ہو گا‘ وہاں سے ان تحائف کی نقل یا کاپی مل جائے گی۔ یوں ہانگ کانگ میں رک کر ان تمام تحائف کی کاپی یا نقول خریدی گئیں اور پاکستان پہنچ کر وہ نقلی تحائف توشہ خانے میں جمع کرا دیے گئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس بات کا علم وزیراعظم سہروردی کو نہیں تھا کہ وفد کے ارکان نے یہ گھٹیا حرکت کی ہے۔ جونہی کسی افسر نے یہ بات وزیراعظم سہروردی کو بتائی تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے ایک نوٹ فائل پر لکھا کہ انہیں افسوس ہے کہ ان کے وفد کے ارکان نے یہ حرکت کی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا اب یہ دعویٰ ہے کہ ان کے پاس وزیراعظم سہروردی کا لکھا ہوا وہ نوٹ موجود ہے اور اس کا انکشاف انہوں نے کمیٹی اجلاس میں کیا۔
اب بتائیں انسانی کردار اور ایمانداری کہاں سے ڈھونڈیں‘ کیونکہ یہ تب کا واقعہ ہے جب پاکستان کو آزاد ہوئے ابھی محض نو برس ہوئے تھے۔ ابھی ان دنوں کی روح باقی تھی کہ اپنا ملک لینا ہے جہاں ہم بہتر زندگیاں گزاریں گے۔ ابھی پاکستان نوزائیدہ ملک تھا اور ملک کو وسائل کی ضرورت تھی لیکن اس سرکاری وفد کے ارکان کو اپنی ''خوشحالی‘‘ کی فکر تھی۔ لہٰذا جونہی موقع ملا انہوں نے سب کچھ ہڑپ لیا۔ چلیں‘ رکھ لیا! لیکن طریقہ ملاحظہ کریں کہ ہانگ کانگ سے نقلی تحائف خرید کر توشہ خانے میں جمع کرا دیے اور وزیراعظم کو دھوکا دیا۔ یہ تھی آپ کی اولین سیاسی اور بیورو کریٹ کلاس‘ جو شروع سے اس ملک پر حکومت کر رہی ہے۔
مجھے پبلک اکائونٹس کمیٹی کو کور کرتے تقریباً چوبیس برس ہو چکے ہیں۔ مجھے یہ اعتراف کرنے دیں کہ میری پروفیشنل گرومنگ میں اس کمیٹی نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ میں نے اس کمیٹی کے مختلف ممبران‘ آڈٹ افسران اور وزارتوں کے بڑے بڑے افسران؍ سیکرٹریز اور دیگر سے بہت کچھ سیکھا ہے جس کیلئے میں ان کا بڑا شکرگزار ہوں۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے علاوہ بھی میں دیگر کمیٹی اجلاسوں میں جاتا رہتا ہوں اور خود کو ہر اجلاس کے بعد زیادہ انفارمڈ محسوس کرتا ہوں۔ وہاں ہمارے ملک کے ذہین لوگ بیٹھے ہوتے ہیں‘ جو اس ملک اور عوام پر حکمرانی کرتے ہیں۔ ہر کمیٹی میں چند ارکان ایسے ضرور ہوتے ہیں جو ان اجلاسوں میں Maverick کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر وہ نہ ہوں تو شاید کمیٹی اجلاس پھیکے ہوں اور سب مل ملا کر اپنا کام چلائیں۔ یہ چند ممبران ہی ان کمیٹیوں کی جان ہوتے ہیں اور اجلاس میں وزیروں اور بیورو کریسی کو آگے لگائے رکھتے ہیں۔ اسی سبب بہت ساری باتیں پتا چلتی رہتی ہیں۔
میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ پی اے سی واحد کمیٹی ہے جہاں آپ کی چالیس وزارتوں کے اعلیٰ افسران پیش ہوتے ہیں۔ یہاں ہر بیورو کریٹ کا پتا چلتا ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہے‘ اس کی کیا قابلیت ہے‘ اس نے پینتیس برس کی سرکاری سروس میں کتنا نالج‘ کیسا کردار اور کیا قابلیت حاصل کی ہے۔ کمیٹی میں بیٹھے ممبران اور آڈٹ افسران کے اعتراضات کا کس طرح سامنا کرنا ہے‘ میڈیا بھی وہاں آپ کی کارکردگی دیکھ رہا ہوتا ہے۔ سب سے بڑھ کر‘ وزارت کے ماتحت بھی آپ کو دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ ہمارا باس کتنا قابل ہے‘ کیا وہ کمیٹی ممبران سے آڈٹ پیرے میرٹ پر سیٹل کرا کے اٹھے گا یا پھر کچھ دیر جب اس کی نالائقی سامنے آنا شروع ہو گی تو وہ ہاتھ جوڑ کر منت ترلے پر اتر آئے گا۔ کبھی بیورو کریٹس کی ایک کلاس تھی کہ جو کمیٹی کے سامنے پیش ہوتی تھی تو اپنی قابلیت‘ تیاری اور انگریزی سے ممبران کو متاثر کرتی تھی اور کئی افسران تو شاباش لے کر اٹھتے تھے۔ لیکن دھیرے دھیرے وہ کلاس ریٹائرڈ ہوتی چلی گئی اور اب لگتا ہے کلرکس یا سپرنٹنڈنٹ ترقی لے کر اوپر پہنچ گئے ہیں۔ یقینی طور پر چند قابل افسران اب بھی آپ کو میٹنگز میں مل جاتے ہیں جو قائمہ کمیٹی اجلاسوں میں پوری تیاری کے ساتھ آتے ہیں اور اچھا بولتے ہیں لیکن اب ایسے افسران کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اچھے اور قابل افسران کب کے عنقا ہو چکے۔ اب افسران کی ترقیاں قابلیت سے زیادہ سفارش اور تعلقات پر ہو رہی ہیں جس کا مظاہرہ ہم نے پچھلے پروموشن بورڈ میں دیکھ لیا۔ چند افسران جنہیں ترقی دی گئی‘ ان پر کرپشن کے الزامات تھے۔ چند کے خلاف انکوائریاں ہو رہی تھیں۔ ایک دو کے خلاف تو انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹس بھی تھیں لیکن پھر بھی ان کا 'سیاسی پاوا‘ بھاری رہا لہٰذا وہ آرام سے بڑی بڑی پروموشن لے گئے۔ اب کل کو یہی نالائق افسران جب پی اے سی کے سامنے پیش ہوں گے تو وہ کیا کارکردگی دکھائیں گے؟ یہی وجہ ہے کہ اب پی اے سی میں افسران منت ترلے‘ ہاتھ جوڑنے یا پھر ڈانٹ کھانے کے بعد اپنے ماتحت سے آنکھیں تک نہیں ملا سکتے۔ یہ مناظر میں برسوں سے دیکھ رہا ہوں اور وقت کے ساتھ بیورو کریسی کا معیار بہتر ہونے کے بجائے مزید گرا ہے۔ جب بیورو کریسی کا معیار گرے گا تو ملک کا معیار بہتر ہو گا؟ ملک کو یہی کلاس چلاتی ہے جو اَب نالائقی اور کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔
جب کابینہ ڈویژن کے فیڈرل سیکرٹری کمیٹی میں آڈٹ رپورٹس کا دفاع کرنے پیش ہوئے تو توقع کی جا رہی تھی کہ اتنا سینئر اور اہم افسر بڑی تیاری کے ساتھ آئے گا مگر چند منٹ بعد پتا چلا کہ انہوں نے تیاری نہیں کی اور پھر انہیں ہر آڈٹ پیرے پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض ممبران نے بہت افسوس کا اظہار کیا کہ اتنا بڑا افسر اس اہم اجلاس میں بغیر تیاری کے آ گیا‘ جسے کچھ پتا نہ تھا۔ معلوم ہوا کہ سیکرٹری نے ڈیپارٹمینٹل اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس چیئر کرنا تھا‘ وہ انہوں نے جوائنٹ سیکرٹری کو کہا کہ تم اٹینڈ کر لو‘ کون سا آسمان ٹوٹ رہا ہے‘ حالانکہ قانون کے تحت جوائنٹ سیکرٹری یہ نہیں کر سکتا۔ یوں ڈیڑھ دو گھنٹے تک انہیں شدید شرمندگی اور مسلسل ''مہذب قسم‘‘ کی ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ جب اتنا بڑا افسر دو گھنٹے تک اجلاس میں شرمندگی کا سامنا کرے گا تو آپ کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ اب افسران کی کیسی کلاس اوپر آگئی ہے۔ ان لوگوں کے اندر کوئی قابلیت‘ احساس یا ڈیوٹی نہیں رہی۔
میں تو یہ جان کر حیران ہوا کہ یہی سیکرٹری کابینہ چند دن پہلے سینٹرل پروموشن بورڈ میں بیٹھ کر نئے افسران کو پروموشن دے رہے تھے۔ وہی اجلاس میں فیصلہ کر رہے تھے کہ کون اچھا بیورو کریٹ ہے اور کون نالائق ہے۔ جو دوسروں کو قابلیت اور نالائقی کے گریڈز بانٹ کر آئے تھے وہ خود پی اے سی میں بری طرح فیل ہوئے۔ کابینہ سیکرٹری کی بری کارکردگی دیکھ کر افسوس اس وقت کم ہوگیا جب اس اجلاس میں انکشاف ہوا کہ 1956ء میں وزیراعظم کے وفد کے ارکان نے چینی تحائف کیسے ہانگ کانگ میں نقلی نمونوں سے بدل لیے تھے۔ اب یہاں کابینہ سیکرٹری کی نالائقی کو کیا دوش دیں‘ جو حکمرانوں کی تحائف میں لوٹ مار کی ''قانونی وضاحتیں‘‘ دینے کے باوجود ممبران سے مسلسل ڈانٹ کھا رہے تھے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں