اکثر لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ عمران خان کے خلاف کیوں ہیں؟ اس سوال کے جواب سے پہلے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب آصف زرداری پہلی بار صدر بنے تو ان کے ایک قریبی سیاستدان نے مجھے کہا کہ چلیں میں آپ کی زرداری صاحب سے صلح کراتا ہوں۔ میں حیران ہوا اور کہا کہ میری ان سے لڑائی کب ہوئی کہ صلح ہونی چاہیے۔ باقی وہی نصرت جاوید صاحب والی بات کہ ہم دو ٹکے کے صحافی ہیں‘ ہماری کیا اوقات کہ ہم ملک کے صدر یا فوج کے سپریم کمانڈر بارے یہ تصور کر لیں کہ ہماری ان سے دشمنی چل رہی ہے۔ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔
اس طرح نواز شریف اور شہباز شریف کے حامی اور وہ خود بھی یہی سمجھتے ہیں کہ میرا ان سے کوئی مسئلہ ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ 2008ء میں شہباز شریف کو وزیراعلیٰ پنجاب بنے ابھی کچھ ماہ ہوئے تھے کہ میں نے ان پر ایک سخت کالم لکھا جس کا عنوان تھا ''لندن سے اوکاڑہ تک‘‘۔ یہ کالم ایماندار افسران کی ٹرانسفر پوسٹنگ سے متعلق تھا جس میں انہیں یہ یاد دلانے کی کوشش کی گئی تھی کہ لندن میں تو وہ انقلابی گفتگو کرتے تھے لیکن پاکستان پہنچ کر وہ پرانی وارداتوں میں لگ گئے۔ اس کالم کے اگلے دن ان کے سٹاف افسر کا فون آیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب آپ سے ناشتے پر ملنا چاہتے ہیں۔ شہباز شریف کی ایک خوبی رہی ہے کہ وہ میڈیا پر اپنے اور اپنی حکومت کی خبروں بارے بہت حساس ہیں۔ اگر انہیں لگے کہ کسی خبر میں خبر دینے والے کا کوئی ذاتی مفاد نہیں تو وہ اس پر ضرور کارروائی کرتے ہیں۔ اب ایسا کالم چھپ گیا تھا جس میں ان کے لندن میں کیے گئے دعوؤں پر سنگین سوالات اٹھائے گئے تھے لہٰذا وہ مجھ سے ملنا چاہ رہے تھے۔جس صبح مجھے ناشتے کیلئے بلایا گیا شہباز شریف اسی صبح لندن سے واپس آرہے تھے۔ ناشتے پر پہلے ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ مجھے اندازہ تھا کہ مجھ سے ملنے کی وجہ میرا کالم تھا لیکن وہ اس موضوع پر نہیں آرہے تھے۔ میں نے ان کا کام آسان کرنے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ سر جی میں کبھی کبھار قلم سے گستاخی کر لیتا ہوں۔ سنجیدہ ہو کر بولے کہ ایسی بات نہیں ہے۔ آپ کی رائے یا اپروچ سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس بات کا ہمیں علم ہے کہ آپ کسی کے کہنے پر ہمارے خلاف نہیں لکھتے۔ مجھے اس دن پنجاب ہاؤس میں 2008ء کی اس صبح احساس ہوا کہ ایک رپورٹر یا صحافی کیلئے یہ کتنا ضروری ہے کہ اس کا ایسا امیج ہو کہ وہ جس کے خلاف کوئی خبر لگائے یا کالم لکھے تو وہ بھی یہ بات مانتا ہو کہ اس صحافی نے جو کچھ لکھا ہے وہ اس کی ذاتی رائے ہے‘ اس نے کسی مخالف کے کہنے پر میری پگڑی نہیں اتاری۔ یہی چیز ہم صحافیوں کا سب سے بڑا سیف گارڈ ہوتا ہے۔ ایک صحافی کو اس کی ساکھ اور غیرجانبداری ہی بچا سکتی ہے‘ نہ کہ کسی جماعت کی ترجمانی۔
جہاں تک عمران خان کی بات ہے‘ مجھے 2018ء میں ان کے الیکشن جیتنے کے بعد بہت جلد احساس ہو گیا تھا کہ خان نے جو بھی باتیں کی تھیں وہ ملک یا عوام کی خدمت کیلئے نہیں بلکہ محض وزیراعظم بننے کیلئے تھیں۔ 2018ء میں الیکشن جیت کر انہوں نے ابھی وزیراعظم کا حلف نہیں اٹھایا تھا اور وہ علیم خان کے جہاز پر سعودی عرب عمرہ کرنے جارہے تھے۔ ان کے ساتھ بشریٰ صاحبہ کے علاوہ زلفی بخاری بھی تھے۔ امیگریشن کے وقت ایئرپورٹ پر پتہ چلا کہ زلفی بخاری کا نام بلیک لسٹ میں ہے۔ عمران خان نے ایئر پورٹ سے نگران حکومت کے وزیر داخلہ اور سیکرٹری داخلہ کو فون کر کے کہا کہ اس کا نام فوراً بلیک لسٹ سے نکالو۔ انہیں بتایا گیا کہ اس کام کیلئے ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جس کا اجلاس بلانا پڑے گا اور پھر فیصلہ ہو گا۔ اس میں کچھ دن لگ جائیں گے۔ خان صاحب نے حکم دیا کہ نہیں‘ سب کچھ ابھی کر کے دیں۔ ذہن میں رکھیں کہ عمران خان ابھی وزیراعظم نہیں بنے تھے۔ زلفی بخاری کیلئے فوری طور پر اجلاس بلایا گیا۔ اس اجلاس کی فوری سمری تیار ہوئی اور زلفی بخاری کا نام بلیک لسٹ سے نکال دیا گیا اور یوں جہاز روانہ ہوا۔ اس عمل میں ڈھائی گھنٹے لگے اور خان صاحب اور ان کے ساتھی ڈھائی گھنٹے تک ایئر پورٹ پر رہے۔اسی دن مجھے احساس ہوا تھا کہ خان صاحب کے نزدیک انصاف وہی ہے جو مخالفوں پر اپلائی ہو۔ اپنے اور اپنے ڈونرز کیلئے ان کا انصاف الگ ہے۔ زلفی بخاری کا نام چند گھنٹوں میں بلیک لسٹ سے نکلوا لیا‘ جو قانوناً ایک دو ہفتے کا عمل تھا۔ خان کو اس معاملے میں اپنی تقریریں‘ اپنے حلف اور اپنے وعدے یاد نہیں رہے۔ اس کے بعد عمران خان نے وزیراعظم بن کر ہر اس بات کی خلاف ورزی کی جس کا وعدہ وہ بیس‘ بائیس سال کرتے رہے۔ وہ ہر بات سے مکرے۔ جب وہ وزیراعظم تھے اُس دور میں ان کے وڈیو کلپس ہی عوام کی تفریح کا ذریعہ تھے۔
تازہ صورتحال دیکھ لیں۔ پارلیمنٹ میں بلوچستان کے ایشو پر سیاسی جماعتوں کو بریفنگ کا انتظام کیا گیا جس میں تمام پارٹیوں کو دعوت دی گئی تاکہ مشترکہ پالیسی بنائی جا سکے۔ پہلے تو پی ٹی آئی نے ہامی بھر لی اور اپنے چودہ پارلیمنٹرینز کے نام بھی منظور کرکے دے دیے‘ لیکن پیر کی رات پی ٹی آئی رہنماؤں نے یہ شرط رکھ دی کہ وہ اس اجلاس سے پہلے عمران خان سے جیل میں ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ان کی ملاقات عمران خان سے نہ کرائی گئی تو وہ اس اجلاس میں شریک نہ ہوں گے۔ کچھ تو یہ کہہ رہے تھے کہ عمران خان کو پروڈکشن آرڈر پر جیل سے اسمبلی لایا جائے۔ اس پر مجھے پی ٹی آئی کے ایک پارلیمنٹرین کو یاد دلانا پڑا کہ عمران خان اس وقت اسمبلی کے رکن نہیں ہیں لہٰذا سپیکر قومی اسمبلی ان کے قانونی طور پر پروڈکشن آرڈر ایشو نہیں کر سکتا۔ ہاں انہیں پیرول پر رہا کر کے لایا جا سکتا ہے۔اس وقت بیرسٹر گوہر پی ٹی آئی کے چیئرمین‘ سلمان اکرم راجہ سیکرٹری جنرل اور عمر ایوب اپوزیشن لیڈر ہیں۔ کیا انہیں علم نہیں کہ اس ایشو پر پارٹی کا کیا مؤقف ہے یا کیا ہونا چاہیے؟ کیا پارٹی کے لوگ سیاسی لحاظ سے باشعورنہیں ہیں کہ اگر عمران خان سے ملاقات نہیں ہو گی تو وہ اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے اور بائیکاٹ کریں گے؟ اس بائیکاٹ کا فائدہ حکومت کو ہو گا جو بار بار یہ بات کہتی ہے کہ پی ٹی آئی نیشنل سکیورٹی کے ایشوز میں دلچسپی نہیں دکھاتی جو کہ اس بڑی پارٹی کو دکھانی چاہیے۔ حیران ہوں کہ آج عمران خان انہی چور ڈاکوؤں کے ساتھ کیوں بیٹھنا چاہتے ہیں جن کے ساتھ وہ FATF کے حوالے سے اجلاس میں نہ بیٹھے تھے۔
چند برس قبل جب عمران خان وزیراعظم تھے تو اس وقت FATF کا مسئلہ سنگین ہو گیا تھا۔ پاکستان گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں شامل ہونے کے قریب تھا۔ اس پر پاکستان کو کہا گیا کہ اگر بلیک لسٹ سے بچنا ہے تو پھر آپ کو قوانین میں تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ اس قانون سازی کیلئے عمران خان کے پاس اکثریت نہ تھی۔ اپوزیشن جماعتوں سے مدد لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے بریفنگ دینی تھی۔ جب اپوزیشن ارکان‘ جن میں شہباز شریف‘ مولانا فضل الرحمن‘ بلاول بھٹو‘ خواجہ آصف اور دیگر شامل تھے‘ پہنچے تو پتہ چلا وزیراعظم عمران خان موجود نہیں ہیں۔ وزیراعظم کا پوچھا گیا تو علم ہوا انہوں نے ''چور ڈاکوؤں‘‘ کے ساتھ بیٹھ کر بریفنگ دینے یا سننے سے انکار کر دیا ہے۔ سب حیران ہوئے کہ اگر ملک کا وزیراعظم اس اہم ایشو پر بھی اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں تو پھر وہ ملک کیسے چلائے گا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کو ہٹانے کا فیصلہ کرانے میں اس بریفنگ کا بھی کچھ رول تھا جس میں خان نے شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ جس نے مقتدرہ کو یہ احساس دلایا کہ یہ بندہ کیا ملک چلائے گا۔ خان وزیراعظم تھا تب بھی اہم قومی معاملات پر بریفنگ کا بائیکاٹ کیاتھا‘ آج خان جیل میں ہے تو بھی اس کا بائیکاٹ کیا ہے۔ ہمارا خان واقعی ایک دلچسپ کردار ہے۔