"RKC" (space) message & send to 7575

حرا کیوں قتل ہوئی؟

میرے پچھلے کالم (I Love You) کے بعد بہت سے لوگوں نے پوچھا ہے کہ حرا کیوں قتل ہوئی؟ قتل کی کیا وجہ بنی؟
حرا کے بارے میں دو تین دن پہلے نیویارک ٹائمز نے ایک فل پیج تحقیقاتی سٹوری چھاپی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ کوئٹہ کا ایک باپ‘ جو برسوں پہلے امریکہ شفٹ ہو گیا تھا‘ اپنی چودہ برس کی بیٹی حرا کو نیویارک سے جنوری میں لایا۔ کوئٹہ میں بچی کے ماموں سے گولیاں مروا کر قتل کو راہزنی کی شکل دینے کی کوشش کی لیکن دونوں پکڑے گئے۔ اس دردناک کہانی کو پڑھ کر جہاں بہت سے حساس دل رو دیے کہ بھلا کون اتنے بے رحمانہ انداز میں اپنی اولاد کو قتل کراتا ہے۔ وہاں سب کے ذہن میں یہ سوال بھی ابھرا کہ آخر ایسی کیا وجہ بنی کہ ایک باپ نے اپنی بیٹی کو قتل کرایا۔ شاید میں نے وہ وجوہات تفصیل سے اپنی تحریر میں شامل نہیں کی تھیں کہ قتل کیوں ہوا۔ سوال یہ ہے کہ جو وجوہات میں دینے والا ہوں‘ کیا اس سے کسی انسان کا قتل جائز ہو جاتا ہے؟
اسلامی قوانین‘ اخلاقیات سے لے کر دنیا کے کسی بھی قانون قاعدے کے تحت آپ اس بچی کے قتل کا جواز نہیں ڈھونڈ سکتے بلکہ یوں کہیں کہ کسی معصوم انسان کا قتل کسی طرح جائز قرار نہیں پاتا۔ اسلام میں ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کے برابر ہے۔ اس میں انسان کا ذکر ہے نہ کہ کسی مذہب کے مخصوص پیروکاروں یا زبان یا علاقہ کی بات ہو رہی ہے۔ اس لیے جو کچھ اس بچی کے باپ اور ماموں نے کیا‘ وہ انتہائی بھیانک اور دردناک ہے۔ ذرا اُس ماں کا تصور کریں جو نیویارک میں بیٹھی اپنی بیٹی اور خاوند کی واپسی کا انتظار کر رہی تھی اور اچانک اسے بتایا جاتا ہے کہ بچی اپنے گھر کے باہر قتل ہو گئی ہے۔ پھر پتا چلتا ہے کہ اس قتل کی منصوبہ بندی اُس کے خاوند یا بچی کے باپ نے کی اور اس بچی کو گولیاں مارنے والا بچی کا ماموں تھا اور دونوں گرفتار ہیں۔ کیا وہ بدنصیب عورت کبھی نارمل زندگی گزار سکے گی کہ اس کے ماں جائے نے اُس کی بیٹی قتل کر دی اور جس باپ پر بچی کو بھروسا تھا کہ وہ اپنی زندگی دے کر بھی اس کی جان بچائے گا‘ بچی نے گولیاں کھا کر اسی باپ کو آوازیں دیں‘ یہ جانے بغیر کہ باپ ہی اصل قاتل تھا۔ وہ بچی اب بھی سمجھ رہی تھی کہ اس کا باپ اُسے بچا لے گا لہٰذا وہ گولیاں کھا کر درد سے چلاتی رہی اور باپ اُس وقت گھر سے باہر نکلا جب اسے تسلی ہو گئی کہ بیٹی مر چکی ہے۔ امریکہ سے وہ جس مشن کے لیے آیا تھا وہ مکمل ہو چکا تھا۔ اس کی عزت اب محفوظ ہو چکی تھی۔ مجھے علم ہے کہ آپ انتظار کر رہے ہیں کہ میں نے اب بھی وجہ نہیں بتائی کہ حرا کیوں قتل ہوئی؟ آخر ایک باپ کیوں بیٹی کو قتل کرانے کیلئے پاکستان لایا اور پوری منصوبہ بندی کی؟ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ اپنے باپ کے نزدیک مناسب ڈریس نہیں پہنتی تھی یا ٹک ٹاک پر وڈیوز اَپ لوڈ کرتی تھی اور اس کی نیویارک میں عزت خطرے میں تھی۔ اس قتل کی وجہ کچھ اور ہے۔ یہ اس نوعیت کا پہلا اور آخری قتل نہیں ہے۔ میں اگر وجوہات بتانے بیٹھ گیا تو یورپ اور امریکہ میں رہنے والے کچھ پاکستانی مجھ سے ناراض ہوں گے۔ تو کیا ان سب کی ناراضی کے ڈر سے اب معصوم حرا کے قتل کی وجہ چھپائی جائے تاکہ میرے قاری کم نہ ہو جائیں؟
مجھے اس خطرناک مائنڈ سیٹ کا احساس اُس وقت ہوا تھا جب 2006ء میں لندن سکالرشپ پر پڑھنے گیا۔ یاد پڑتا ہے کہ برطانیہ کے ایک معتبر انگریزی اخبار نے یورپی یونین میں ایک سروے کرایا تھا جس میں سوال کیا گیا تھا کہ کیا مسلمانوں کو یورپ میں شہریت ملنی چاہیے؟ اگر ٹھیک سے یاد پڑتا ہے تو تقریباً 60 فیصد سے اوپر یورپینز کا کہنا تھا کہ یورپی ملکوں کو مسلمانوں کو شہریت نہیں دینی چاہیے۔ جب ان سے وجوہات پوچھی گئیں تو ان میں سے اکثر نے ایک لائن میں ہی بات ختم کر دی تھی کہ یہ یورپی لوگوں کے طرزِ زندگی کیلئے خطرہ ہیں۔ یہ ہمارے ساتھ گھلتے ملتے نہیں۔ اپنا مذہب‘ اپنا کلچر ہم پر مسلط کرتے ہیں۔ جب ان وجوہات پر غور کرنا شروع کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ یورپین لوگ کیوں ہم مسلمانوں سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ اکثر غریب طبقات کے پاکستانی جو یورپ جاتے رہے ہیں وہ پاکستان میں نوکری نہ ملنے کی وجہ سے گئے یا پھر زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے۔ وہ یورپ پہنچ کر کوئی بھی کام کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ یورپ میں داخل ہو جائیں‘ چاہے غیرقانونی طور پر ہی کیوں نہ ہوں۔ یوں وہ یورپ میں تقریباً پانچ چھ سال تک چھپ چھپا کر رہتے ہیں۔ کم تنخواہوں پر گزارہ کرتے ہیں۔ ان بے چاروں کا استحصال کیا جاتا ہے بلکہ کرنے والے بھی اکثر پاکستانی ہوتے ہیں جو انہیں اپنے ہاں کام دیتے ہیں لیکن طے شدہ فی گھنٹہ مزدوری سے کم ریٹ دیتے ہیں۔ کسی دن یورپی حکومتیں انہیں ریگولر کر دیتی ہیں تاکہ انہیں ٹیکس نیٹ میں لا کر ان کی کمائی میں سے تیس‘ چالیس فیصد وہ لے سکیں۔ یوں پاسپورٹ ملتے ہی اکثر افراد فیملی اور بچوں کو بلا لیتے ہیں۔ دن رات محنت کرتے ہیں۔ مورگیج پر گھر لے لیتے ہیں۔ بچے ابھی چھوٹے ہوتے ہیں لہٰذا یورپ اور اس کا نظام اچھا لگتا ہے۔ بلکہ اپنے پاکستانی رشتہ داروں کو یورپ کی ویلفیئر ریاست کے شاندار قصے سنائے جاتے ہیں۔ مقصد ایک ہی ہوتا ہے کہ اپنے یورپ یا امریکہ میں رہنے کے فیصلے کا جواز دیا جا سکے۔ بچے اچھے سکولوں میں پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ کلاس اور کلچر بدلنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہاں تک تو سب اچھا چل رہا ہوتا ہے لیکن جونہی بچے ٹین ایج میں داخل ہوتے ہیں اور ان کے کلاس فیلوز اور دوست گھر آنا جانا یا بچے سکول کی لیٹ نائٹ پارٹیوں میں شریک ہونے لگتے ہیں یا والدین کو پتا چلتا ہے کہ سکولوں میں جنسی تعلیم دی جا رہی ہے اور ان کی لڑکیاں اب جوان ہو رہی ہیں تو انہیں یکدم یورپی معاشرہ برا لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ انہیں ہر طرف شراب خانے نظر آتے ہیں۔ اکثر اپنی شناخت تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں یا مسجد میں پناہ لیں گے یا پھر بچوں کے زبردستی رشتے پاکستان میں کریں گے۔ اکثر والدین ان ملکوں میں ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جو وہ پاکستان میں برسوں پہلے چھوڑ آئے تھے۔ اب انہیں یورپی معاشرہ ایک مجسم برائی لگتا ہے جو اُن کے مذہب‘ کلچر اور روایات کے ساتھ ساتھ ان کے بچے بھی کھا جائے گا۔ حرا کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ اس کا باپ امریکن لاٹری نکلنے کے بعد نئی دنیا کی تلاش میں امریکہ گیا۔ ساری عمر نیویارک میں ٹیکسی چلائی لیکن جب اسے پتا چلا کہ حرا ٹک ٹاک پر وڈیو اَپ لوڈ کرتی تھی تو اس کے اندر کا وحشی جاگ گیا جو وہ کوئٹہ چھوڑ گیا تھا۔ اسے امریکہ کی خوشحالی اچھی لگتی تھی لیکن امریکی معاشرے کی جدت سے خوفزدہ تھا۔ اس کی انا خطرے میں تھی۔اس کی انا لہو مانگتی تھی اور وہ بھی اپنی بیٹی کا۔
مجھے برسوں پہلے اداکار جان ٹرولوٹا کی فلم General's Daughter یاد آئی۔ نیول بیس پر کمانڈر کی بیٹی کا ریپ ہوتا ہے۔ کمانڈر کو آفر ہوتی ہے کہ اگر ریپ کو دبا دے تو اسے پروموشن مل جائے گی۔ باپ نے بیٹی کی عزت کا سودا کر کے پروموشن لے لی۔ جان ٹرولوٹا کا وہ کمال کا ڈائیلاگ تھا کہ مجھے کبھی سمجھ نہ آئی تھی کہ عورت کے ریپ سے زیادہ بھی کوئی بری چیز دنیا میں ہو سکتی تھی۔ لیکن اب میں جانتا ہوں ریپ سے بھی بدترین جو چیز ہو سکتی ہے وہ دھوکا ہے۔ دھوکا بھی وہ جو ایک باپ بیٹی کو دے‘ چاہے اس فلم میں جنرل نے بیٹی کو دیا یا کوئٹہ میں حرا کو اُس کے باپ نے اصلی زندگی میں دیا۔ فرق یہ ہے کہ فلم میں جنرل کی بیٹی کو پتا چل گیا تھا کہ باپ نے اسے دھوکا دیا ہے جبکہ حرا کو مرتے وقت بھی پتا نہ چلا بلکہ وہ بدنصیب بیٹی لہو میں لت پت گولیاں کھا کر اسی باپ کو پکار رہی تھی جس نے اس کے قاتل کو پستول اور گولیاں خرید کر دی تھیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں