میں ایک بات بار بار دہراتا ہوں‘ شاید آپ پڑھ کر بور ہوتے ہوں کہ ہم ملک میں ہونے والے ہر برُے کام کے بعد سوچتے ہیں کہ اس سے زیادہ اور کیا نیچے گریں گے یا بیورو کریسی مزید کیا گل کھلائے گی لیکن ہر بار وہ کوئی نیا کام کر کے ہمیں حیران کر دیتا ہے۔ اب یہی دیکھ لیں ۔ لیہ کے سابق ایم پی اے اور صوبائی وزیرمہر اعجاز اچلانہ صاحب سے لاہور میں ایک شادی پر ملاقات ہوئی اور انہوں نے لیہ میں قائم لائبریری کے ساتھ ہونے والے حشر کی جو داستان سنائی وہ سُن کر میں ابھی تک صدمے میں ہوں کہ سوتیلے ماں باپ بھی اپنے بچوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرتے ہوں گے جو ہم اپنے ملک اور اس کے اداروں کے ساتھ کر رہے ہیں۔
مجھے یہ بات بڑی عجیب لگتی ہے کہ جب ہم اداروں میں بدعنوانی کی بات کرتے ہیں تو یوں اداکاری کرتے ہیں کہ جیسے جو لوگ ان اداروں میں بیٹھے ہیں شاید وہ کسی اور سیارے سے آئے ہیں اور ہمارا اُن سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اب جب میں آپ کو اس لائبریری کا قصہ سنائوں گا تو آپ کو پتا چلے گا کہ یہ سب اپنے ہی لوگ ہیں اور یہی مار دھاڑ میں ملوث ہیں۔ یہ آپ کے اور ہمارے ہی عزیز ہیں جو اِن محکموں میں کام کرتے ہیں اور جنہوں نے اپنی حرکتوں اور کرپشن کی وجہ سے عوام کو اپنے ہی ملک سے بددل کر دیا ہے۔ یہی نوجوان افسران اور اہلکار اگر اپنے اپنے محکموں میں عام پاکستانیوں کو انسان سمجھ کر ڈیل کریں تو کیا اس ملک میں ہر دوسرا بندہ یہ سوال کرتا پایا جائے کہ اس ملک کا کیا بنے گا؟ مزے کی بات ہے کہ جو سب سے بڑھ چڑھ کر یہ باتیں کر رہا ہوتا ہے وہ خود بھی کہیں نہ کہیں‘ کسی محکمے میں بیٹھ کر عوام کو ذلیل کرنے میں ملوث ہوتا ہے۔ پہلے یہ عام سا نوجوان ہوتا ہے لیکن جونہی اس کی نوکری لگتی ہے وہ خود بھی وہی کچھ کرنے لگتا ہے جس کیلئے وہ نوکری سے قبل سرکاری محکموں اور اہلکاروں کو گالیاں دیتا تھا۔ اس کی گالیاں یا ملک سے بیزاری اُس دن تک تھی جب تک اسے خود نوکری یعنی موقع نہیں مل رہا تھا۔ میں متعدد بار یہ واقعہ سنا اور لکھ چکا ہوں کہ کیسے برسوں پہلے مظفرگڑھ میں ڈپٹی کمشنر نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر قسم کھائی کہ وہ 23 پٹواریوں کی اسامیوں پر پڑھے لکھے نوجوان رکھیں گے‘ بغیر کسی سفارش اور پیسے کے۔ کئی ماہ کی محنت کے بعد 23 پڑھے لکھے نوجوان میرٹ پر سلیکٹ ہو گئے۔ چند ماہ بعد پتا چلا کہ ان میں سے 18 لڑکے وہی کام کر رہے ہیں جو اِن سے پہلے کے پٹواری کیا کرتے تھے بلکہ ان پڑھے لکھوں کا ریٹ اُن پٹواریوں کی نسبت زیادہ تھا۔ اس واقعے کے گواہ جنید مہار ہیں جو اُس وقت وہاں اسسٹنٹ کمشنر تھے اور میرٹ پر ان نوجوانوں کو منتخب کرنے والی ٹیم میں شامل تھے۔ اب بتائیں اس ملک کو کیسے ٹھیک کریں جب میرٹ والا بھی مال کمانا چاہتا ہے۔ نوکری میرٹ پر دیں یا پیسے لے کر‘ کرنی انہوں نے کرپشن ہی ہے۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ اب سنیں لائبریری کا حال۔
جب شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو اُس وقت لیہ کے ایم پی اے مہر اعجاز اچلانہ نے وہاں ایک بڑی لائبریری بنانے کا منصوبہ پیش کیا۔ مجھے کہنے دیں کہ میں بہت سی چیزوں پر شہباز شریف کا ناقد رہا ہوں لیکن انہوں نے لیہ کے عوام کیلئے چند بڑے منصوبے شروع کیے‘ اگرچہ لاہور کی بیورو کریسی نے ہمیشہ ان میں روڑے اٹکائے ۔ میں اچلانہ صاحب کا بھی ناقد رہا ہوں لیکن انہوں نے وہاں بہت سے ترقیاتی کام کرائے ۔ بہت سے سکول‘ سڑکیں‘ دیہی طبی مراکز‘ کالج اور یونیورسٹی کیمپس بنوائے۔ جدید لیب وغیرہ بھی بنوائی گئی۔ آج سے تیرہ برس قبل انہوں نے وزیراعلیٰ شہباز شریف سے کہہ کر لیہ میں لائبریری کمپلیکس کی منظوری لی اور اس پروجیکٹ کیلئے حکومت نے چودہ کروڑ روپے منظور کیے۔ کبھی لائبریری پر کام رک جاتا اور کبھی شروع ہو جاتا۔ درمیان میں فنڈز رک گئے یا کبھی کوئی اور مسئلہ ہو گیا۔ اب بارہ برس بعد لائبریری کا کچھ کام مکمل ہوا ہے۔ یہ چار ایکڑ پر محیط لائبریری ہے۔ اب پتا چلا ہے کہ وہاں سے کچھ اہلکاروں اور افسران نے اچھا خاصا سامان ‘ٹرانسفارمر سمیت چوری کر لیا ہے۔ ابھی لائبریری کیلئے الماریوں اور شیلف وغیرہ کا کام رہتا ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ بارہ‘ تیرہ برس بعد بھی لائبریری فنکشنل حالت میں نہیں آئی۔ کچھ دن پہلے یہ بھی پتا چلا کہ لائبریری کی بلڈنگ انفورسمنٹ کے محکمے کو دی جا رہی ہے۔ اس پر اعجاز اچلانہ صاحب نے بھاگ دوڑ شروع کر دی۔ میں ڈی جی لائبریریز کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے فوراً خط لکھا کہ آپ ایک لائبریری کیلئے تعمیر کردہ عمارت بھلا کسی اور محکمے کو کیسے دے سکتے ہیں۔ڈی جی لائبریریز ایک اچھے افسر اور کتاب دوست انسان ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ان جیسا پڑھا لکھا‘ کتاب کا شوقین اس وقت ڈی جی لائبریریز ہے جو اِن معاملات میں دلچسپی رکھتا ہے۔
اب اس ملک کی بربادی کا رونا رونے والے بتائیں کہ یہ کون لوگ ہیں جنہوں نے ایک لائبریری کی تکمیل پر بارہ تیرہ سال لگا دیے اور اب جبکہ وہاں ابھی کچھ تزین وآرائش ہونا باقی تھی اور سامان خریدا جانا تھا‘ وہاں موجود سامان بھی لوگ اٹھا کر لے گئے۔ ابھی وہاں الماریاں بننی تھیں‘ کتابیں خریدنے کا بجٹ بھی نہیں تھا۔ بجٹ چھوڑیں‘ وہاں تو لائبریری ہی ختم کر کے ایک اور محکمے کو عمارت دے دی گئی۔ یہ ہے آپ کے ملک میں علم دوستی اور کتاب سے محبت؟ درسی کتب رٹ کر امتحان دینے والی قوم کو آپ کیسے پڑھا سکتے ہیں کہ ایک ضلع میں ایک سرکاری لائبریری بن رہی تھی‘ چودہ کروڑ روپے بھی منظور کیے گئے لیکن پھر بھی بارہ‘ تیرہ برس میں وہ مکمل نہیں ہو سکی۔ جہاں افسران اور بیورو کریسی کو داد دینا بنتا ہے وہیں لیہ کے مقامیوں کو بھی داد دیں جو اس پروجیکٹ میں شریک تھے‘ بلکہ پتا چلا ہے کہ وہ سامان کی چوری میں بھی ملوث ہیں۔ آپ ان لوگوں کی ذہنی حالت کا اندازہ کریں جو اس منصوبے کو برباد کرنے کے چکر میں تھے اور اس کو تاخیر کا شکار کرتے رہے تاکہ اس کی لاگت بڑھتی رہے اور وہ مال بناتے رہیں۔ ویسے جو افسران یہ فیصلے کرتے ہیں کیا وہ بھی اتنے جاہل اور اَن پڑھ ہیں کہ اس عمارت کو انفورسمنٹ کے عملے کے حوالے کر رہے ہیں؟ لیہ کے عوام‘ اخبارات‘ میڈیا اور وہاں کے سوشل ورکرز جو اپنی اپنی پارٹیوں کا جھنڈا سوشل میڈیا پر اٹھائے پھرتے ہیں‘ وہ بھی اس ایشو پر خاموش ہیں۔ دن دہاڑے آپ کی لائبریری چوری کی جا رہی ہے اور انفورسمنٹ کا محکمہ اسے آپ سے ہتھیا رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ وزیراعلیٰ مریم نواز اور چیف سیکرٹری پنجاب ان افسران کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے اب تک لائبریری مکمل نہیں کرائی‘ کتابیں نہیں خریدیں اور الٹا سامان چوری ہو گیا۔ ڈپٹی کمشنر لیہ کیا کر رہی ہیں؟ ایک دن چیف سیکرٹری صاحب اُن کی تعریف کر رہے تھے بلکہ شاید انہیں ایوارڈ بھی ملامگر اس لائبریری کے ایشو پر اُن کی کارکردگی دیکھیں کہ کیسے ایک لائبریری کی عمارت انفورسمنٹ کو دی جا رہی تھی‘ جو اَب شور مچانے پر وقتی طور پر روک دی گئی ہے۔ملاحظہ کریں کہ بیورو کریسی اور ان کے ماتحت کس سوچ کے حامل ہیں۔ تیرہ سالوں میں ایک لائبریری مکمل کر کے فعال نہ کرا سکے اور الٹا نامکمل لائبریری کسی اور محکمے کو دینے پر تُل گئے۔ اصولی طور پر یہ ریاست کی مرضی کے بغیر ایک درخت تک نہیں کاٹ سکتے مگر یہ تو ہمارا پورا چمن اجاڑ کر ڈکار تک نہیں لیتے۔ اور تو اور چار ایکڑ پر قائم لائبریری ہڑپ کر گئے۔