"SUC" (space) message & send to 7575

کیا برف پگھلنے کا مہینہ نہیں آیا

دریائوں کی زمین بنگلہ دیش میں گرمی کے مہینے شروع ہو چکے ہیں۔ تیز دھوپ اور مرطوب فضامیں یہ بنگلہ دیش کا مشکل موسم ہے۔ یہ مرطوب ہوا ابھی اور نم ہو گی۔ گرم مہینے پری مون سون اور پھر باقاعدہ مون سون میں تبدیل ہوں گے۔ موجودہ گرمی کے ساتھ سفارتی سرگرمی بھی شروع ہوئی ہے اور پاکستان‘ بنگلہ دیش کے خارجہ سیکرٹریز کے بیچ پندرہ سال بعد ملاقاتیں شروع ہوئی ہیں۔ دونوں ملکوں کی وزارتِ خارجہ کے بیانات سامنے آئے ہیں۔ ان بیانات کی تفصیل میں فرق ہے‘ تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ ملاقاتیں ایک بار پھر شروع ہو گئی ہیں جن میں تجارت‘ آمد ورفت اور تعاون کے دیگر شعبوں کا جمود ٹوٹا ہے۔
ان ملاقاتوں کا پس منظر سمجھنے کیلئے اور دونوں ملکوں کی خارجہ امور کے فرق جاننے کیلئے بنگلہ دیش کی موجودہ عبوری حکومت کے مسائل سمجھنا بھی اہم ہے اور بھارت اور بنگلہ دیش کے موجودہ تعلقات اور تلخیوں کا پس منظر بھی۔ عبوری حکومت کے سامنے بہت سے چیلنج ہیں۔ بنگلہ دیش معاشی طور پر ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے اور ایک اضافی مسئلہ بنگلہ دیش میں یہ ہے کہ نئے انتخابات جلد ہونے ہیں۔ عبوری سربراہ ڈاکٹر یونس نے یہ اعلان کیا ہے کہ دسمبر 25ء سے جون 26ء تک نئے انتخابات منعقد ہوں گے۔ اس طرح عبوری حکومت زیادہ سے زیادہ ایک سال اور رہے گی۔ ڈاکٹر یونس کی عبوری حکومت کے نو مہینوں کی کارکردگی ایک عام آدمی کیلئے پوری طرح اطمینان بخش نہیں اور موجودہ حکومت کے خلاف آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ اس کا ادراک حکومت کو بھی ہو گا۔ وہ ایسے فیصلوں کی ذمہ داری اپنے اوپر نہیں لینا چاہتی جس سے اضطراب میں اضافہ ہو۔ وہ چاہے گی کہ غیر مقبول یا اہم فیصلوں کی ذمہ داری نئی حکومت لے‘ اس لیے بہت پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے۔ مقتدر حلقوں میں یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ پاکستان سے معاملات بہتر بنانے ہیں اور راستے کھولنے ہیں‘ تاہم عبوری حکومت کی کوشش ہے کہ یہ کام قدم بقدم کیا جائے اور یہ الزام نہ آئے کہ وہ بھارت مخالفت میں پاکستان کی جھولی میں جا گری ہے۔ خارجہ سیکرٹریز کی ملاقاتوں سے پہلے دونوں طرف کے عسکری حکام باہمی دورے کر چکے ہیں۔ خبر تھی کہ بنگلہ دیش دیگر دفاعی سامان کے ساتھ جے ایف 17 تھنڈر طیارے پاکستان سے خریدنے پر غور کر رہا ہے۔ کراچی چٹاگانگ کے بیچ سمندری تجارت بھی شروع ہو چکی ہے۔ بنگلہ دیش نے ویزا سہولتوں میں اضافہ کیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے بنگلہ دیش کیلئے ویزا فیس پہلے ہی معاف کی جا چکی ہے۔ پاکستان کی ایک نجی ایئر لائن کو براہِ راست پروازوں کی اجازت دی گئی ہے اور یہ پروازیں چند ماہ بعد شروع ہو جائیں گی۔ لیکن اس سے آگے کے معاملات کیلئے خارجہ سیکرٹریز کی یہ میٹنگ اہم ہے۔ بنگلہ دیشی اخبار کے مطابق اس میٹنگ کا ایجنڈا پہلے سے طے نہیں تھا اور دونوں ملکوں نے مختلف علاقائی اور باہمی مسائل اور مستقبل کے تعلقات کے بارے میں اپنا اپنا مؤقف پیش کرنا تھا۔ بنگلہ دیش کے سیکرٹری خارجہ جسیم الدین نے ملاقات کے بعد کہا کہ بنگلہ دیش نے پاکستان سے 1971ء کے وقت متحدہ پاکستان میں موجود اپنے اثاثوں کا مطالبہ کیا ہے۔اسی طرح 1970ء کے ہولناک سائیکلون کے وقت عالمی برادری سے جو امدادی رقوم ملی تھیں‘ ان کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ مجموعی رقم ساڑھے چار ارب ڈالر کے لگ بھگ بنتی ہے۔ دو مطالبات یہ بھی ہیں کہ 1971ء کے مبینہ بنگالی قتل عام پر معافی مانگی جائے اور بہاریوں کو‘ جو بنگلہ دیش میں ہیں‘ پاکستان اپنے پاس رکھے۔ انہی باتوں کا مبہم ذکر پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے اعلامیے میں بھی ہے۔
یہ تمام مطالبات نئے نہیں ہیں‘ حسینہ واجد حکومت بھی ان معاملات پر بہت زور لگاتی رہی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عبوری بنگلہ حکومت یہ مطالبات پیش کرکے کم از کم اپنی پوزیشن محفوظ کرنا چاہتی ہے تاکہ اس پر کوئی الزام نہ آئے۔ جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے‘ اس نے بنگلہ دیش کے یہ مطالبات حسینہ واجد کے زمانے میں بھی نہیں مانے جو تعلقات کا بدترین دور تھا‘ تو اب کیوں مانے گا جب بہتری کی کافی امید ہو چلی ہے۔ اور مطالبات بھی عبوری حکومت کے پیش کردہ‘ جو ایک سال کے اندر ختم ہو جائے گی۔ اس لیے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عملاً ان مطالبات پر زور دیے بغیر آگے بڑھا جائے گا۔ اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا دورۂ بنگلہ دیش اسی ماہ متوقع ہے۔ 2012ء کے بعد یہ کسی پاکستانی وزیر خارجہ کا پہلا دورہ ہو گا۔ اگر بنگلہ دیش کو ان مطالبات پر اصرار ہوتا اور وہ ان پر عملدرآمد کے بغیر مزید آگے نہ بڑھنا چاہتا تو اس دورے کا کوئی مقصد نہیں تھا۔
مذکورہ مطالبات کے علاوہ روہنگیا مہاجرین اور سارک کو بحال کرنے کا معاملہ بھی زیر گفتگو رہا۔ ڈاکٹر یونس اپنے کئی بیانات میں سارک کو فعال کرنے پر زور دیتے رہے ہیں۔ 2016ء میں سارک کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد نہیں ہو سکا تھااور بھارت نے اس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ مجھے نہیں لگتا کہ بھارت کی موجودہ مودی حکومت کے ہوتے ہوئے سارک فعال ہو سکے گی۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ ایک نیا پلیٹ فارم‘ جس میں بھارت کے علاوہ دیگر علاقائی ممالک موجود ہوں‘ ایک بہتر آئیڈیا ہے۔ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ مالدیپ‘ نیپال اور بھوٹان مل کر یہ نیا پلیٹ فارم بنا سکتے ہیں جو باہمی تعاون اور تجارتی سرگرمیوں کو زیادہ تیزی سے فروغ دے سکتا ہے۔ چین کی شمولیت بھی شاید ممکن ہو۔ بھارتی اخبارات سمیت میڈیا نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کے معاملے پر اپنا مؤقف بنگلہ دیش کے سامنے پیش کیا ہے۔ شاید ایسا پہلی بار ہوا ہے۔
دوسری طرف بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات اس وقت جتنے کشیدہ ہیں‘ پہلے کبھی نہ تھے۔ ڈاکٹر یونس‘ مودی ملاقات میں ڈاکٹر یونس نے حسینہ واجد کی بنگلہ دیش کو حوالگی کا مطالبہ دہرایا جبکہ مودی نے بنگلہ دیش میں ہندو اقلیتوں کا مسئلہ اٹھایا۔ ڈاکٹر یونس کے حالیہ بیان نے ایک نئی صورتحال پیدا کردی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بھارت کی شمال مشرقی ریاستیں خشکی سے محصور ہیں‘ سمندر کی طرف سے بنگلہ دیش علاقے میں واحد محافظ ہے اور چین کو چاہیے کہ بنگلہ دیش کے ذریعے اپنی معیشت کو ترقی دے۔ اس کے بعد بھارت نے بنگلہ دیش کیلئے ٹرانس شپمنٹ کی سہولت ختم کر دی اور بنگلہ دیش نے اپنی بندرگاہوں کے ذریعے بھارت سے سوت اور اُون کی درآمد پر پابندی لگا دی۔ حال ہی میں دونوں ملکوں میں تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ ڈاکٹر یونس کے پریس سیکرٹری نے ایک بیان میں مرشد آباد (مغربی بنگال) میں مسلمانوں کی جانوں اور جائیدادوں پر ہونے والے حالیہ حملوں کی مذمت کی اور کہا کہ مغربی بنگال اور بھارتی حکومت کو مسلم اقلیت کے تحفظ کیلئے ضروری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے جواب میں بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ بنگلہ دیش ان بیانات کے ذریعے تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ بنگلہ دیشی اقلیتوں اور بھارت میں اقلیتوںکا معاملہ ایک جیسا ہے۔ کشیدگی بڑھ رہی ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہوگا کہ بنگلہ دیش میں بھارت کا اثر ورسوخ بالکل ختم ہو گیا ہے۔ اس وقت بھی ایک بڑا حلقہ موجود ہے جو بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کا حامی ہے یا بھارت کو پاکستان پر ترجیح دیتا ہے۔ پاکستان سے بہتر تعلقات بنگلہ دیش کی سنجیدہ ضرورت ہوں یا وہ بھارت سے بہتر بارگیننگ کیلئے پاکستان سے تعلقات بڑھا رہا ہو‘ دونوں صورتوں میں پاکستان کو آگے بڑھنا چاہیے۔ اور پاکستان آگے بڑھ رہا ہے۔ اصل مسئلہ بنگلہ دیش میں آنے والی حکومت کا ہے جس پر بھارت اور پاکستان‘ دونوں کی نظر ہے۔ بھارت اپنے حاصل کردہ فوائد کھونا نہیں چاہے گا۔ اسے یہ خدشہ ہے کہ آنے والی حکومت میں بڑی تعداد میں اس کے مخالفین ہوں گے۔ پاکستان بھی یہی توقع کرتا ہے کہ آنے والی حکومت اس کیلئے نرم گوشہ رکھتی ہوگی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ برف پگھلنے کے مہینے ہیں اور امیدکرنی چاہے کہ گرمجوشی سرد مہری کی جگہ لے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں