پاکستان میں کرپشن پر آئی ایم ایف کی رپورٹ پڑھ کر شاید کسی کو دھچکا لگا ہو یا حیرت ہوئی ہو ‘ ہمیں تو ہرگز نہیں ہوئی۔ عالمی برادری میں اپنی سبکی کی تکلیف ہمیشہ ہوتی ہے‘ سو اب بھی ہوئی۔ میرا خیال ہے کہ حکمران طبقوں کو حیرت تو درکنار‘ تکلیف بھی نہیں ہوئی ہو گی۔ بس اتنا ہوا ہو گا کہ آئی ایم ایف کی گدائی چونکہ بیس‘ پچیس بار ہو چکی ہے‘ خدا جانے آئندہ کتنی بار ہوتی رہے گی‘ اس لیے ممکن ہے کہ خطرہ ہوا ہو کہ آئندہ ہمارا کشکول خالی لوٹا دیا جائے گا‘ شاید توڑ ہی دیا جائے۔ ایک زمانے میں نواز شریف صاحب نے کشکول توڑنے کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے جس حوالے سے بھی یہ بات کہی ہو‘ اب تو اس کا نام بھی نہیں لیتے۔ لیکن کشکول دوسری طرح ٹوٹنے کا خطرہ ہو گیا ہے کہ کشکول نہ صرف خالی لوٹا دیا جائے بلکہ شدید بدعنوانی کا حوالہ دے کر توڑ ہی دیا جائے کہ آئندہ یہ کاسہ لے کر ادھر نہ آنا جب تک اپنی رشوت خوری ختم نہیں کرتے۔ اس لیے اگر ایسا ہو گیا تو ان کی لوٹ کھسوٹ کیسے چلے گی؟
ایسی رپورٹس پاکستانیوں کو تو حیرت میں نہیں ڈال سکتیں خواہ ملک میں رہتے ہوں یا باہر۔ کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ کس کس طرح لوگوں کی جیبوں سے پیسہ نکال کر اپنی جیبیں بھری جاتی ہیں۔ لیکن ہماری جو نظریں نیچی ہوتی ہیں‘ جس طرح بیرونِ ملک رہنے والے دوسری اقوام کے درمیان پاکستانی ہونے پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں‘ مجال ہے کسی دور میں کسی حکمران جماعت اور طبقات کو اس کا ذرہ برابر خیال ہوتا ہو۔ اسی ڈھٹائی اور دھڑلے سے ایک جماعت ہٹتی ہے‘ دوسری آتی ہے اور اسی طرح مال بنانا شروع کردیتی ہے جس طرح پہلی نے بنایا تھا۔ کسی شرم حیا اور لحاظ کے بغیر۔ چور ایک دوسرے کی طرف ایک ہاتھ کی انگلیاں اٹھا اٹھا کر چور چور کا نعرہ لگاتے رہتے ہیں اور دوسرا ہاتھ خزانہ خالی کرتا رہتا ہے۔ خزانہ اتنا خالی ہو جائے کہ تنخواہوں کے لالے پڑ جائیں تو پھر ایک نعرہ بلند ہوتا ہے کہ ''پاکستانیو! قربانی دو، ملک نازک مرحلے سے گزر رہا ہے‘‘۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں سے اپیلیں کی جاتی ہیں۔ ریڑھی اور خوانچے والے سے لے کر ہر ایک کو قربانی کے نام پر شکنجوں میں کسا جاتا ہے۔ ظالمانہ محصول سے لے کر بجلی‘ گیس اور پانی تک ہر شعبے کو خوردبینوں سے دیکھا جاتا ہے کہ کہاں سے مزید پیسہ نکلوایا جا سکتا ہے۔ ایک بلب اور ایک پنکھے والی جھونپڑی بھی بجلی کا وہ بل ادا کرتی ہے جو پورے خطے میں کہیں نہیں ہے۔ یہ ظلم بنام قربانی مسلسل چلتا ہے۔ یہ وہ قربانی ہے جو یا عوام سے لی جاتی ہے یا بیرونِ ملک پاکستانیوں سے۔ وہ لوگ جو حکومت میں ہیں‘ چینی کی ملیں لگائے مال کما رہے ہیں۔ بیرونِ ملک کمپنیاں‘ اثاثے اور جائیدادیں بنا کر تیار بیٹھے ہیں کہ مشکل وقت میں طیارے پر قدم رکھیں اور ہوا میں اڑ جائیں‘ اس قربانی میں ذرہ برابر کبھی شریک ہوئے ہوں تو بتا دیجیے۔ ایسے کرپٹ‘ بدعنوان‘ ظالم اور سنگ دل حکمرانوں سے کون محبت کرے اور کیوں کرے؟ بدنیتی پاکستان میں رہنے والوں پر ہی نہیں‘ بیرونِ ملک رہنے والوں پر بھی عیاں ہے۔ کوئی اپنی جیبیں ان کی تجوریاں بھرنے کیلئے کیوں خالی کرے۔ کسی طبقے کا بھی‘ کہیں بھی رہنے والا کوئی پاکستانی ہو‘ ایک فیصد لوگ بھی اس کی بات پر اعتبار کرتے ہوں تو یہ کرشمہ ہی سمجھیں۔
وہ دور ساٹھ ستر سال پیچھے رہ گیا جب لوگ حکمرانوں کی کسی اپیل پر اعتبار کر لیا کرتے تھے۔ خواہ وہ ان کے حامی ہوں یا مخالف۔ یہ بہرحال ایک تاثر تھا کہ ہمارا پیسہ اسی مقصد میں استعمال ہو گا جس کیلئے مانگا جارہا ہے۔ یہی قوم جو غربت کی سطح سے کبھی اوپر نہیں اٹھ سکی‘ 1965ء کی جنگ میں کیسی متحد ہو چکی تھی‘ اور کیسے دل کھول کر اس نے دفاعی مقاصد کیلئے چندہ دیا تھا۔ ایوب خان نے 'ٹیڈی پیسہ ٹینک‘ کا نعرہ لگا کر قوم سے اپیل کی تھی کہ ہر فرد ایک پیسہ عطیہ کرے‘ اس میں ایک ٹینک آجائے گا۔ وہ لکڑی کا چھوٹا سا باکس یاد ہے اور میرے پاس محفوظ ہے‘ جو میرے والد جناب زکی کیفی نے ان دنوں بنوا کر دکان پر رکھا تھا۔ آتے جاتے لوگ پوری خوشدلی سے اس میں سکے ڈالتے اور وہ کھنکتا رہتا تھا۔ ایک پیسہ بھی اس زمانے میں قیمت رکھتا تھا۔ بات اس ایک پیسے کی نہیں‘ اس اعتماد کی تھی کہ ہم واقعی ایک ٹینک خریدیں گے۔ یہ اعتماد آج کہیں موجود ہے؟ کسی بھی درجے میں؟ کسی بھی طبقے پر؟
آئی ایم ایف کی رپورٹ موجودہ اور سابقہ سبھی حکمرانوں کیلئے باعثِ تشویش ہونی چاہیے‘ خواہ وہ کسی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں۔ ان میں وہ بھی ہیں جو رشوت خوری اور بد عنوانی ختم کرنے کے نعرے لگاتے میدان میں آئے تھے۔ اسی بنیاد پر انتخابات جیتے تھے۔ پھر سب نے دیکھا کہ وہ پچھلوں سے زیادہ حرص اور ہوس کے ساتھ خود اور اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ اسی کام میں مصروف ہو گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ سب ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔
آپ کا کیا خیال ہے؟ یہ جو آئی ایم ایف نے پاکستان میں اربوں ڈالر کی رشوت اور بدعنوانی کا ذکر کیا ہے‘ ان میں گلی محلے میں ہونے والی روز مرہ کی رشوت شامل ہو گی جو عوام کی تذلیل کے ساتھ وصول کی جاتی ہے؟ کیا اس میں نچلے درجے کے سرکاری محکموں کے عمال‘ انسپکشن افسروں اور کلرکوں کا ''چائے پانی‘‘ شامل ہے جو ہمارا روز مرہ بن چکا ہے؟ نہیں حضور! آئی ایم ایف نے صرف اربوں ڈالرز کی بڑی بڑی بدعنوانیوں کی نشاندہی کی ہے۔ بڑے بڑے ٹھیکے‘ سودے‘ منصوبے‘ لائسنس وغیرہ وغیرہ۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ آئی ایم ایف نے بجلی کے محکموں کے اُن لائن مینوں اور میٹر ریڈروں کی بات کی ہے جو کھمبے سے کنکشن کی خرابی دور کرنے کی فیس مانگتے ہیں؟ کیا اس میں ڈویلپمنٹ اتھارٹیز کے اُن انسپکٹروں کی بات ہے جو گھر کے باہر چار اینٹیں رکھی دیکھ کر آ پ سے پیسے اینٹھنے پہنچ جاتے ہیں؟ کیا رپورٹ میں پانی فراہم کرنے والے ادارے کے عمال کا ذکر ہے جو مسلسل گندا پانی آپ کے گھروں میں بھیجتے ہیں اور پھر وہ بھی بند کرکے آپ کو ترسا دیتے ہیں؟ کیا اس میں پولیس اہلکاروں کا ذکر ہے جو ہر سڑک پر ناکے لگا کر آپ سے کاغذات طلب کرتے ہیں اور پھر جب آپ ایک چھوٹا سا لمبوترا کاغذ ان کی جیب میں ڈالتے ہیں اور سارا مسئلہ ختم ہو جاتا ہے؟ یہ باتیں تو اس رپورٹ میں ہوں گی نہیں۔ صرف بڑے معاملات ہوں گے۔ اسی سے اندازہ کر لیجیے کہ پورے ملک کا ہر بااختیار کس طرح لتھڑا ہوا ہے۔
مچھلی سر کی طرف سے تو بالکل سڑی ہوئی ہے لیکن باقی دھڑ سے بھی وہ تعفن اٹھتا ہے کہ الامان و الحفیظ۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو عہدوں اور اختیارات تک پہنچنے ہی نہیں دیا جاتا جو یہ نظام ٹھیک کر سکتے ہیں۔ یہ طے ہے کہ آپ ووٹ ڈال لیں‘ جلوس نکال لیں‘ احتجاج کر لیں۔ یہ مقتدر حلقے آپ کے خلاف متحد ہیں۔ جتنی شدت سے آپ کے اندر اس نظام کو بدلنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے‘ اتنی ہی قوت سے یہ لوگ آپ کے خلاف دیوار بنا لیتے ہیں۔ انہی میں وہ لوگ ہیں جو اس بات کا نعرہ لگا کر آتے ہیں کہ لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانی ختم کرو۔ لیکن اس نعرے کی حقیقت آپ پر اس وقت کھلتی ہے جب یہ نئے طریقوں سے آپ کو لوٹنا شروع کرتے ہیں۔ یہاں درویشی اور سلطانی سب عیاری ہے۔ تہ در تہ عیاری۔
آئی ایم ایف سے میری صرف یہی گزارش ہے کہ رپورٹ کے آخر میں سب بدعنوانوں کے نام بھی دے دے‘ سب وزرائے اعظم‘ سب صدور‘ سب وزارتیں‘ سب محکمے‘ سب شعبے‘ سب افسر‘ سب کے نام ایک بار دے دے۔ اور اس بار طے کردے کہ صرف مچھلی کا سر قربانیاں دے گا۔ مائی باپ! ہم یہ نہیں کر سکتے۔ لیکن آپ تو آقا ہیں۔ آپ سے بگاڑ کر یہ کہاں جائیں گے؟ آپ پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے۔