دبئی ایئر شو پاکستان اور بھارت دونوں کیلئے بیک وقت اچھی اور بری خبریں لایا۔ امریکی انجن اور اسرائیلی میزائل سسٹمز سے لیس بھارتی تیجس لڑاکا طیارہ‘ جس پر بھارت کو بہت مان تھا‘ دبئی ایئر شو میں مظاہرہ کرتے ہوئے کریش ہو گیا‘ اور ونگ کمانڈر نماناش سیال موقع ہی پر ہلاک ہو گیا۔ بھارتی تیجس طیارہ پروگرام 40 سال پہلے شروع ہوا تھا اور اسے بنانے والی سرکاری کمپنی ہندوستان ایرو ناٹیکس لمیٹڈ40 سال میں صرف 40 جہاز بنا پائی جو بھارتی فضائیہ کے استعمال میں ہیں‘ لیکن بھارتی فضائیہ اس طیارے اور کمپنی کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔ اگرچہ انجن سمیت اس کی اصل طاقتیں درآمدہ ہیں لیکن بھارت اسے ہندوستانی لڑاکا طیارے کے طور پر پیش کرتا ہے اور اس کی برآمد کیلئے پُرامید بھی ہے۔ تاحال اسے کوئی آرڈر نہیں مل سکا؛ البتہ وقتاً فوقتاً کچھ ممالک سے بات چیت کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ اب تیجس طیارے کے کریش ہونے سے اسے بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔ کریش کے ساتھ ہی آرمینیا نے‘ جو تیجس طیارے خریدنے کیلئے بھارت سے بات چیت کر رہا تھا‘ یہ ڈیل معطل کر دی ہے۔ یہ دوسرا دھچکا ہے۔ ذاتی طور پر مجھے پائلٹ کی موت کا افسوس ہے۔ وہ کسی لڑائی میں نہیں‘ ایک مظاہرے کے دوران اپنے ملک کی خدمت سرانجام دیتے ہوئے ہلاک ہوا اور اس کے گھرانے کا غم تصور کیا جا سکتا ہے۔ اس کی بیوی بھی انڈین ایئر فورس کی پائلٹ ہے اور وڈیوز میں اس کا دکھ دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ کسی ایئر شو میں ہونے والا پہلا حادثہ نہیں لیکن دبئی ایئر شو کا یہ پہلا حادثہ ہے۔ حادثے سے پہلے تیجس کے آئل لیک کی تصویریں بھی آئی تھیں اور طیارے کے نیچے شاپنگ بیگ رکھے نظر آرہے تھے۔ ماہرین کے مطابق یہ نہایت غیرپیشہ ورانہ انداز تھا اور اگر یہی طیارہ بعد میں کریش بھی ہوا تو نہایت غیر ذمہ داری تھی۔ سابق ایئر کموڈور پی اے ایف خالد چشتی کے مطابق نیگٹو جی ‘ جو ایک مشکل کرتب ہے‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پائلٹ کا ممکنہ طور پر نیم غشی کا شکار ہو جانا بعید از قیاس نہیں۔ بہرحال دبئی ایئر شو 2025ء بھارت کیلئے خیر کی خبر نہیں لایا۔دوسری طرف اسی ایئر شو میں پاکستان کی طرف سے سرکاری طور پر اعلان کیا گیا کہ ایک دوست ملک کے ساتھ جے ایف 17 تھنڈر بلاک تھری کی فروخت کے ایم او یو پر دستخط ہوئے ہیں۔ ایم او یو بہرحال حتمی معاہدہ نہیں کہلاسکتا۔ ابھی نہ تو اس معاہدے کی مالیت بتائی گئی ہے‘ نہ طیاروں کی تعداد لیکن یہ خوش آئند پیش رفت ہے۔ تب سے یہ قیاس آرائیاں بھی ہو رہی تھیں کہ جس ملک کا نام نہیں لیا گیا‘ وہ کون سا ملک ہو سکتا ہے؟ کئی ملکوں کے نام لیے جا رہے تھے لیکن یقینی اور مصدقہ بات کوئی نہیں تھی۔ زیادہ امکان ہے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے مابین یہ معاہدہ ہوا ہوگا۔ اس کی ایک مخصوص پس منظر اور کئی ایک وجوہات ہیں۔ بین الاقوامی اور بنگلہ دیشی خبر رساں ایجنسیاں کافی مدت سے یہ خبریں دے رہی ہیں کہ بنگلہ دیش اپنی ایئر فورس کو جدید ترین طیاروں سے لیس کرنا چاہتا ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش کے پاس جو روسی طیارے ہیں وہ اس کی ضرورت پوری نہیں کرتے‘ اسے جدید ترین فضائی بیڑے کی سخت ضرورت ہے۔ اسی طرح F7 طیارے‘ جو اَب اپنی عمر گزار چکے ہیں‘ کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔ 2030ء تک بنگلہ فضائیہ کو جدید تر بنانے کا اعلان پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔ سو امکانات یہی رہ جاتے ہیں۔ اس وقت یورپی اور امریکی طیارے بہت مہنگے ہیں اور بیشمار پابندیاں بھی ساتھ لاتے ہیں۔ بجٹ کے اندر رہنے والے ملکوں کیلئے JF17 اور تیجس ہی دو آپشن بچتے ہیں جو جدید بھی ہیں اور نسبتاً سستے بھی۔ 2024ء کے بعد سے اب تک پاکستانی فوج‘ پاکستان ایئر فورس‘ بنگلہ دیشی فضائیہ اور آرمی کے سرکردہ افراد متعدد بار ایک دوسرے کے ملکوں کے دورے کر چکے ہیں۔ بنگلہ دیشی پائلٹس کو JF17کے کاک پٹ میں دیکھنے کی خبریں بھی آتی رہی ہیں۔ اسی سال مارچ میں ڈیفنس سکیورٹی ایشیا نے خبر دی تھی کہ بھارت کیلئے بنگلہ دیش کی جے ایف 17تھنڈر میں دلچسپی ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ دوسری اہم وجہ بنگلہ دیش کی چینی طیاروں اور اسلحے میں دلچسپی ہے۔ اکتوبر 2025ء میں بنگلہ دیشی فضائیہ کے ایئر چیف مارشل حسن محمود خان نے اعلان کیا تھا کہ عبوری حکومت نے جدید ترین طیاروں اور میزائلوں کی خریداری کی منظوری دے دی ہے۔ دیگر خبروں میں بتایا گیا تھا کہ 20 عدد جے 10سی‘ ان کے میزائل اور تربیتی نظام کے ساتھ خریدے جائیں گے اور لگ بھگ دو ارب بیس کروڑ ڈالر کا معاہدہ ہو رہا ہے۔ بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر یونس کے دفتر سے ہر طیارے کی قیمت 60 ملین ڈالرز بتائی گئی تھی۔ یہ بات پوری دنیا کو علم ہے کہ مئی 2025ء میں پاک بھارت فضائی جھڑپ میں پاکستان کے پاس موجود جے 10سی اور جے ایف 17 تھنڈر طیاروں نے بھارتی فضائیہ کو تاریخی شکست دی تھی اور سات بھارتی طیارے‘ جن میں چار رافیل شامل تھے‘ مار گرائے تھے۔ فضائی جنگ کی تاریخ میں یہ ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ پی اے ایف اور چینی ساختہ پاکستانی طیاروں کی یورپی اور روسی طیاروں پر اس ششدر کر دینے والی برتری نے بنگلہ دیش کو فیصلہ کرنے میں بہت مدد دی ہو گی۔ جے 10سی کے ساتھ جوڑ جے ایف 17 تھنڈر طیاروں کا ہی بنتا ہے۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش جو ایک معاشی بحران سے دوچار ہے‘ زیادہ مہنگے طیارے خریدنے کے قابل نہیں ہے‘ جس میں ہر قدم پر یورپ یا امریکہ کی طرف دیکھنا پڑے۔ جے ایف 17 کے ساتھ یہ مسائل نہیں ہیں۔ اور نائیجیریا‘ آذر بائیجان اور میانمار پہلے ہی یہ طیارے خرید چکے ہیں۔ میانمار کے پاس یہ طیارے ہونا‘ جو بنگلہ دیش کا قریبی ہمسایہ ہے‘ خود اس بات کا متقاضی ہے کہ بنگلہ دیش کے پاس بھی جدید تر طیارے ہوں۔ بھارت کے ساتھ‘ جو جدید ترین اسلحہ اور طیاروں سے لیس ہے‘ بنگلہ دیش کے تعلقات گزشتہ دو برس میں بہت بگڑ چکے ہیں۔ یہ صورتحال بھی بنگلہ دیش کو اس فیصلے پر مجبور کرتی ہے۔
بنگلہ دیش‘ جو تین اطراف سے بھارت سے گھرا ہوا ہے‘ اتنی طویل سرحد کا دفاع پرانے طیاروں سے نہیں کر سکتا۔ دوسری طرف بھارت پر انحصار ختم کرنے کے بعد بنگلہ دیش کے پاس چین جیسی بڑی طاقت کی طرف دیکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ یہ تمام صورتحال بھارت کیلئے خاصی تشویشناک ہے۔ جے ایف 17اور جے 10سی کے بنگلہ دیشی فضائیہ میں شامل ہونے کے بعد اس کی طاقت بہت بڑھ جائے گی اور اگر اسے وہ جدید ترین ٹیکنالوجی بھی میسر آگئی جو پاکستان کے پاس ہے تو بھارت خود کو تین طرف سے گھرا ہوا محسوس کرے گا۔ بھارت کے پاس اس وقت بنگلہ دیش کو رام کرنے کے راستے بند ہیں بلکہ فروری 2026ء میں بنگلہ دیش کے نئے انتخابات میں بھی یہ امکان نظر نہیں آ رہا کہ بھارت کا کوئی حامی گروہ برسرِ اقتدار آسکے۔ بنگلہ دیشی عدالتوں نے حسینہ واجد کو سزائے موت کے فیصلے کے بعد کچھ دیگر سزائیں بھی سنائی ہیں اور تازہ ترین واقعہ شیخ مجیب اور حسینہ واجد کے گھرانے کے مزید افراد کو مجرم اور سزا کا حقدار قرار دیے جانے کا فیصلہ ہے۔ حسینہ واجد کے بیٹے‘ بیٹی اور بہن کے خلاف تازہ فیصلے عملاً اس گھرانے کو بنگلہ دیش کی سیاست اور مستقبل سے بے دخل کر دیتے ہیں۔ قیاس آرائیاں اور خبریں یہ ہیں کہ بنگلہ دیش 20سے 32 جے ایف 17تھنڈر طیاروں کا معاہدہ کرنا چاہتا ہے لیکن جیسے پہلے بتایا کہ ابھی یہ سب غیرمصدقہ باتیں ہیں۔ جب تک دونوں ملک اس کا باقاعدہ اعلان نہ کردیں‘ یہ قیاس آرائیاں ہی رہیں گی۔ بہت ممکن ہے کہ نئی حکومت کے اقتدار میں آنے تک یہ معاملات معلق رہیں۔ لیکن جو بھی ہو‘ پاکستان کیلئے یہ ایک خوشگوار خبر دبئی ایئر شو سے آئی ہے کہ ایک اور دوست ملک ہمارے طیاروں میں دلچسپی لے رہا ہے۔