32 سال کیا عمر ہوتی ہے بھلا۔ یہ تو زندگی کے آغاز اور خواب دیکھنے کی عمر ہے۔ یہ تو زندگی برتنے اور لطف اندوز ہونے کا وقت ہوا کرتا ہے۔ اس عمر میں کون مرنا چاہتا ہے اور وہ بھی محض اپنے مقصد کے حصول کیلئے؟ مقصد بھی کون سا! نہ مال ودولت نہ اقتدار‘ نہ ہی وزارت۔ ایک جوان بیوی اور ایک بچے کے ہوتے ہوئے کون چاہے گا کہ انہیں بیوہ اور یتیم کر جائے۔ لیکن کچھ لوگوں کے خواب الگ ہوا کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی دوسروں کیلئے جینے کا نام ہوا کرتی ہے۔ جب سے بنگلہ دیش کے عثمان ہادی کے دنیا سے رخصت ہو نے کی خبر ملی ہے‘ دل کو جیسے کسی نے گرفت میں لے رکھا ہے۔ 12 دسمبر سے 18 دسمبر تک ایک امید سی لگی رہی کہ شاید یہ نوجوان بچ جائے لیکن 18 دسمبر کو عثمان ہادی کے ساتھ ہی بہت سی امیدیں بھی دم توڑ گئیں۔ میں بنگلہ دیش کے اخبارات میں اس کی تصویریں دیکھتا تھا۔ چھوٹے قد کا سانولا سا نوجوان‘ بال بکھرے ہوئے‘ رخساروں پرچھوٹی داڑھی‘ چہرے پر روشنی اور آنکھوں میں چمک۔ اس کا عزم اس کے چہرے پر لکھا تھا۔ اس کی تقریریں گونجتی تھیں اور اس کے جملے اس کے ہم وطنوں کو ہمت دیا کرتے تھے۔ وہ پوچھتا تھا کہ دہلی یا ڈھاکہ؟ اور ہجوم جواب دیتا تھا: ڈھاکہ‘ ڈھاکہ۔ ہر ایک کو لگتا تھا کہ یہ نوجوان ملک کا روشن مستقبل ہے اور ایسے نوجوانوں سے ملک کا نظام بالآخر بدل کر رہے گا۔
بنگلہ دیش ایک بار ایک اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ سوچا جا رہا تھا کہ اب فروری 26ء میں نئے انتخاب تک سیاسی سرگرمیاں زور پکڑیں گی‘ قتل‘ گھیرائو اور جلائو کے معاملات پیچھے رہ گئے اور اب نئے سیاسی استحکام تک لوگ سڑکوں پر انتقام اور انصاف کے نعرے نہیں لگائیں گے۔ لیکن ڈھاکہ میں ایک نئی آگ بھڑکی ہے اور پورے ملک میں پھیل رہی ہے۔ 1969ء میں بھی ایسا ہی الائو بھڑکا تھا۔ یہ الائو اس وقت ڈھاکہ یونیورسٹی کے ایک طالبعلم عبدالمالک کے قتل سے بھڑکا تھا جو ایک مقبول طالبعلم رہنما تھا۔ 15 اگست 1969ء کو عوامی لیگ کے لوگوں نے عبدالمالک کو شہید کر دیا‘ اور پھر یہ آگ پھیلتی ہی چلی گئی۔ ایک قتل نے قتل وغارت گری کے ایسے سلسلے کو جنم دیا کہ کئی سال تک کسی کی جان ومال محفوظ نہیں تھے۔ تاریخ اور جغرافیہ تک بدل گیا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے مقبول رہنما عثمان ہادی کا حالیہ قتل بنگلہ دیش میں ایک نئے الائو کو جنم دے رہا ہے جو بنگلہ دیش کی تاریخ کا ایک نیا باب بن سکتا ہے۔
شریف عثمان بن ہادی باریسال کے جھلکوٹی ضلع کے ایک امام مسجد اور مدرسے کے استاد کا بیٹا تھا۔ ابتدائی تعلیم مدرسے میں حاصل کی۔ 2010ء میں اس نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات میں داخلہ لیا۔ یہ زمانہ وہ تھا جب حسینہ واجد کا اقتدار عروج پر تھا۔ عثمان ہادی سوشل ایکٹوسٹ تھا اور ڈھاکہ یونیورسٹی ہمیشہ سے معاشرتی رجحان سازی میں پیش پیش رہی ہے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عوامی لیگ کے دورِ عروج میں اور ڈھاکہ یونیورسٹی میں اس کی ایسی طاقت کے ہوتے ہوئے‘ جسے سرکاری اور قانونی سرپرستی میسر تھی‘ عثمان ہادی اور ان کے دوسرے ساتھیوں کیلئے کیا مشکلات رہی ہوں گی جو عوامی لیگ اور اس کی طلبہ تنظیم کے مقابل کھڑے تھے۔ جس زمانے میں مذہبی رہنما یا تو سلاخوں کے پیچھے تھے یا انہیں قبر میں اتار دیا جاتا تھا‘ یہ جتنا کٹھن رہا ہوگا وہ ہم سوچ سکتے ہیں۔ حسینہ واجد اور عوامی لیگ کے خلاف تحریک میں وہ صف اول کا رہنما تھا۔ اس نے سیاسیات میں ڈگری لی اور ایک پرائیویٹ کالج میں پڑھانے لگا۔ جولائی 2024ء میں حسینہ واجد کے خلاف ملک گیر احتجاج میں عثمان ہادی بھی ڈھاکہ کے علاقے رام پورہ میں تنظیمی خدمات اور طلبہ تحریک کے رہنما کی حیثیت میں فعال رہا لیکن اس کی اصل سیاسی کوشش جولائی کے بعد شروع ہوئی جب اس نے ہم خیال طالبعلموں کے ساتھ ''انقلاب مونچا‘‘ یعنی انقلاب کا پلیٹ فارم کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد ملکی خودمختاری کا تحفظ اور بھارتی حاکمیت کے خاتمے کی کوششیں تھیں۔ انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام بھی بنیادی مقاصد میں شامل تھا۔ بنگلہ دیش میں جن تنظیموں نے مل کر 'جولائی اتحاد‘ میں حصہ لیا‘ انقلاب مونچا بھی اس کا اہم حصہ تھا۔ یاد رہے کہ جولائی اتحاد صرف طالب علموں پر نہیں‘ عام شہریوں پر بھی مشتمل تھا۔ اس کے بعد عثمان ہادی نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر عوامی لیگ پر پابندی کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ دستوری طور پر اُس جماعت پر پابندی لگانے کا مطالبہ تھا جو طالب علموں اور عام شہریوں کے قتل کی ذمہ دار تھی۔ ان لوگوں نے مطالبہ نہ ماننے کی صورت میں سیکرٹریٹ تک بنگلہ دیش مارچ کا اعلان کیا جسے سنبھالنا حکومت کیلئے بہت مشکل ہوتا۔ دوسری طرف عوامی لیگ پر بے شمار مقدمات تھے اورسزائیں بھی سنائی جا رہی تھیں؛ چنانچہ عبوری حکومت کو بالآخر یہ مطالبہ ماننا پڑا۔ مئی میں عثمان ہادی نے ایک قومی حکومت کا مطالبہ پیش کیا جو بی این پی‘ جماعت اسلامی اور اسلامی اندولن بنگلہ دیش کی سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہو۔ دوسری طرف اس نے این سی پی یعنی نیشنل سٹیزن پارٹی پر بھی تنقید کی۔ این سی پی نئی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی اورحسینہ واجد کے مخالف کچھ طالب علموں نے اس کی بنیاد رکھی۔ عثمان ہادی کا کہنا تھا کہ این سی پی نے جولائی کی تحریک کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی جبکہ یہ ایک اجتماعی کوشش کا نتیجہ تھی؛ چنانچہ اس کی مخالفت صرف عوامی لیگ تک نہ رہی بلکہ کئی اور دھڑے بھی اسے اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگے۔ اسے قتل کی بہت سی دھمکیاں ملنے لگیں۔ اسی دوران وہ ڈھاکہ سے آزاد امیدوار کی حیثیت میں اگلا انتخاب لڑنے کا اعلان بھی کر چکا تھا۔بیجوائے نگر ڈھاکہ 8 اُس کا حلقہ انتخاب تھا۔ 12 دسمبر کو جب وہ مسجد سے نکل کر ایک آٹو رکشہ میں پلٹن ایریا کی طرف جا رہا تھا‘ دو موٹر سائیکل سواروں نے اس پر گن فائر کیے۔ گولیاں سر میں لگیں اور مہلک ثابت ہوئیں۔ جان بچانے کی پوری کوششیں بنگلہ دیش میں بھی ہوئیں اور پھر ایئر ایمبولینس سے سنگاپور علاج کیلئے لے جایا گیا لیکن 18 دسمبر کو عثمان ہادی 32 سال کی عمر میں اپنے خالق سے جا ملا۔ اس خبر نے ملک بھر میں آگ لگا دی۔ دو بڑے اخبارا ت کے دفاتر جلائے گئے۔ اس کے علاوہ شیخ مجیب کی رہائش گاہ کو بھی آگ لگا دی گئی۔ ان ہنگاموں کا ایک رخ بھارت مخالف تھا۔ لوگ اس قتل کے پیچھے بھارت کا ہاتھ سمجھتے ہیں۔ این سی پی نے مطالبہ کیا ہے کہ انڈین ہائی کمیشن کو بند کیا جائے۔ راجشاہی اور چٹا گانگ میں بھارتی ہائی کمشنز کو نشانہ بنایا گیا۔ ابتدائی تحقیق میں عوامی لیگ کے دو فعال افراد فیصل کریم مسعود اور عالمگیر شیخ کو قتل کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ وہ بھارت سے آئے تھے اور واپس بھارت فرار ہو گئے۔ یہ تاثر کہ اس کے قتل کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے‘ پورے ملک میں ہے اور اس تاثر کو اس بات نے مضبوط کیا ہے کہ بھارتی میڈیا میں اس قتل پر خوشیاں منائی گئیں۔ ایک اخبار نے لکھا ''گریٹر بنگلہ دیش‘‘ نقشے کا بانی آج مر گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ عثمان ہادی نے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ سے گریٹر بنگلہ دیش کا ایک نقشہ پیش کیا تھا جس میں بھارتی ریاستیں بھی شامل تھیں۔
عثمان ہادی کی موت نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ کچھ عرصے سے یہ بات بھی کہی جا رہی تھی کہ فروری 2026ء کے انتخابات نہیں ہوں گے اور امن وامان کی صورتحال کا جواز دے کر انتخابات مؤخر کیے جاسکتے ہیں۔ دلیل یہ دی جاتی کہ فروری میں انتخابات کئی مقامی اور غیر ملکی طاقتوں کے مفاد میں نہیں‘ تاہم انتخابات کا مؤخر ہونا جس ردعمل کو جنم دے گا‘ وہ بہت شدید بھی ہو سکتا ہے۔ اس طرح ملک جو ایک منزل کی طرف گامزن ہے‘ دوبارہ خلفشار کی طرف جا سکتا ہے۔ خدا نہ کرے بنگلہ دیش کو ایک اور بحران کا سامنا ہو‘ جس کے انجام کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ لیکن یاد رہے کہ بنگلہ دیش طوفانوں کی سرزمین ہے۔ عثمان ہادی! خدا تمہاری شہادت بنگلہ دیش کے بہتر مستقبل کا ذریعہ بنا دے۔