بنگلہ دیش میں جو غیرمعمولی تبدیلیاں آئی ہیں‘ کیا دو سال قبل انہیں سوچا بھی جا سکتا تھا؟ کیا یقین کیا جا سکتا تھا کہ حسینہ واجد کی آہنی گرفت والی حکومت‘ جس نے سب مخالفین کچل کر رکھ دیے تھے‘ نہ صرف ایک پُرزور عوامی تحریک کے ذریعے منہدم ہو جائے گی بلکہ حسینہ واجد اور عوامی لیگ کے اہم لوگوں کو ملک سے بھاگنا پڑے گا۔ یہ سب نہ صرف ہو چکا بلکہ ان غیرمعمولی تبدیلیوں کی رفتار تیز تر ہو چکی ہے اور فروری 2026ء کے انتخابات تک بہت کچھ مزید بدل چکا ہو گا۔ عین ممکن ہے کہ انتخابات کے نتائج کے سامنے بھی تمام قیاس آرائیاں ڈھیر ہو جائیں اور وہ قوتیں برسر قتدار آجائیں جن کے بارے میں گمان نہیں کیا جا سکتا۔ جولائی 2024ء میں کون یہ گمان کر سکتا تھا کہ حسینہ واجد کو موت کی سزا سنائی جائے گی اور یہ سزا وہی انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل سنائے گا جسے حسینہ واجد نے اپنے مخالفین کو موت کے گھاٹ اتارنے کیلئے بنایا تھا۔ طلبہ احتجاجی تحریک میں 15 جولائی سے پانچ اگست 2024ء تک 1400طلبہ قتل ہوئے۔ یہ اعداد و شمار اقوام متحدہ کی رپورٹ کے ہیں‘ ممکنہ طور پر مرنے والوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے۔ گرفتاروں اور زخمیوں کی تعداد ان کے علاوہ ہے۔ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل میں یہ مقدمہ مہینوں چلتا رہا۔ استغاثہ کا مؤقف تھا کہ حسینہ واجد اس قتلِ عام کی ذمہ دار ہیں۔ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل ہو سکتی ہے لیکن حسینہ واجد کے بیٹے شاہ زیب واجد نے اپیل کا امکان مسترد کر دیا اور کہا کہ اپیل اسی صورت میں کی جائے گی اگر کوئی جمہوری حکومت برسر اقتدار آتی ہے۔ نئی دہلی (بھارت) میں پناہ گزین حسینہ واجد نے خود پر الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ مجھے اس فیصلے کی پروا نہیں۔ سابق وزیراعظم کو پروا ہو یا نہ ہو‘ یہ اہم فیصلہ بنگلہ دیش‘ بھارت‘ عوامی لیگ اور شیخ مجیب کے گھرانے پر دور رس اثرات کا حامل ہے۔
بنگلہ دیش پہلے ہی باہمی معاہدے کے تحت‘ جو دونوں ملکوں کے مجرموں کو ایک دوسرے کے حوالے کرنے سے متعلق ہے‘ بھارت سے حسینہ واجد کو بنگلہ دیش کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر چکا ہے‘ مگر بھارت نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا تھا۔ اب بھارت کے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں۔ اگر وہ حسینہ واجد کو واپس کرتا ہے تو مستقبل میں بنگلہ دیش میں بھارت نواز اور سیکولر حکومت کی ایک آخری امید بھی ختم ہو جائے گی۔ عوامی لیگ میں کوئی اور ایسا رہنما نہیں جسے کچھ حلقوں کی حمایت حاصل ہو سکے۔ نیز یہ داغ بھی بھارت پر آ جائے گا کہ وہ اپنے دوستوں کو مشکل وقت میں بھلا دیتا ہے۔ چنانچہ اب یہ بھارت کی مجبوری ہے۔ بنگلہ دیش بھی یہ بات جانتا ہے چنانچہ صورتحال یہ بنتی ہے کہ حسینہ واجد کسی طرح ملک میں واپس آہی نہیں سکتیں‘ اقتدار میں آنا تو بڑی دور کی بات ہے‘ اور ان کے بغیر عوامی لیگ صفر ہے۔ اس طرح بظاہر بنگلہ دیش میں شیخ مجیب کے گھرانے کا اختتام ہو چکا۔ عوامی لیگ‘ جسے پہلے ہی کالعدم قرار دے کر انتخابات سے باہر کیا جا چکا ہے‘ اگر انتخابات لڑ بھی لیتی تو ملک گیر سطح پر اس کے خلاف جو فضا ہے‘ وہ شاید ہی کوئی نشست جیت پاتی۔ اس وقت تمام انتخابی صورتحال عوامی لیگ مخالف جماعتوں کے حق میں ہے۔
ان دو برسوں میں بنگلہ دیش نے تیزی سے اپنا رخ بھارت کی طرف سے موڑ کر پاکستان اور چین سے اپنے تعلقات بڑھائے ہیں۔ اس میں بھارت سے بیزاری بلکہ نفرت کی عوامی لہر کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ اگرچہ 1971ء سے مسلسل عوام میں پاکستان کے خلاف زہر بھرا جاتا رہا ہے لیکن پاکستان کیلئے عام طور پر عوام میں پسندیدگی پائی جاتی ہے اور عام بنگالی پاکستان مخالف نہیں۔ عسکری سطح پر ان دو برسوں میں اعلیٰ سطحی وفود کا تبادلہ ہوا ہے‘ حال ہی میں جنرل ساحر شمشاد مرزا کا دورۂ بنگلہ دیش بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ یقینا دفاعی میدان میں کئی معاملات پر اتفاقِ رائے سے کام شروع ہو چکا‘ جس کی تفصیل ذکر نہیں کی گئی۔ ویزا پابندیاں بھی نرم کی گئی ہیں اور براہِ راست پروازوں کا فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے جو ابھی شروع نہیں ہوئیں۔
ڈھاکہ میں گزشہ دنوں تحفظِ ختم نبوت کے حوالے سے ایک بہت بڑا عالمی اجتماع منعقد ہوا جس میں دنیا بھر کے علما کو دعوت دی گئی۔ پاکستان سے مولانا فضل الرحمن نے شرکت کی اور مفتی تقی عثمانی کے نمائندے کے طور پر ان کے صاحبزادے ڈاکٹر عمران اشرف عثمانی شریک ہوئے۔ مولانا فضل الرحمن نے بہترین سفارتکاری کرتے ہوئے یادگار جملے کہے: ''گھر بار اور جائیداد بھائیوں کے درمیان تقسیم ہو جانے سے ان کی رشتے داری ختم نہیں ہو جاتی‘ وہ بدستور بھائی ہی رہتے ہیں۔ آپ ہماری طرف چل کر آئیں تو ہم آپ کی طرف دوڑ کر آئیں گے‘‘۔ اسی طرح قاضی نذر الاسلام اور علامہ اقبال کے افکار و نظریا ت پر ڈھاکہ یونیورسٹی نے ایک بڑی کانفرنس منعقد کی۔ بدقسمتی سے دعوت کے باوجود میں شریک نہ ہو سکا لیکن پاکستان سے کئی اہلِ علم نے شرکت کی۔ اہلِ علم‘ اہلِ ادب اور صحافیوں کی باہمی ملاقاتوں کا یہ سلسلہ فاصلے کم کرنے کیلئے بہت مفید ہوتا ہے۔ انہیں جاری رہنا چاہیے۔
یہ سارا دور لیکن عبوری حکومت کا ہے۔ آنکھ فروری 2026ء کے انتخابات سے پردہ اٹھنے کی منتظر ہے۔ اگلی حکومت کی تشکیل بنگلہ دیش‘ اس کے دستور‘ اس کے بین الاقوامی رخ اور ہمسایوں سے اس کے تعلقات کیلئے نہایت اہم موڑ ہے۔ انتخابی پس منظر میں یہ بہت اہم ہے کہ ڈاکٹر یونس کے بنائے ہوئے اصلاحاتی کمیشن کی مجوزہ اصلاحات پرکس حد تک عملدرآمد ہو گا۔ اس کمیشن نے سیاسی‘ عدالتی‘ انتخابی اور انتظامی نظام‘ غرض کئی جہات میں اپنی تجاویز دی ہیں۔ ان تجاویز سے سیاسی جماعتوں کو مجموعی طور پر اتفاق ہے تاہم بی این پی کا مؤقف ہے کہ ان کا اطلاق آئندہ سیاسی حکومت پر چھوڑ دیا جائے۔ جماعت اسلامی سمیت کئی دیگر جماعتیں چاہتی ہیں کہ انتخابات سے قبل ایک ریفرنڈم کے ذریعے یہ تجاویز لاگو کی جائیں تاکہ انتخابی نظام کو اس کے فوائد حاصل ہوں۔ کون سا راستہ اختیار کیا جائے گا‘ کیا سابقہ نظام کے تحت ہی فروری 26ء کے انتخابات ہوں گے‘ یہ فیصلہ ابھی باقی ہے۔ انتخابات کے حوالے سے جو انتظار ہے اس کے پیش نظر ووٹنگ کی شرح 80 فیصد تک متوقع ہے۔ الیکشن کمیشن 12 کروڑ 80 لاکھ بیلٹ پیپر چھاپے گا‘ 42 ہزار پولنگ سٹیشنوں پر 90 ہزار کا عملہ تعینات ہو گا اور سکیورٹی کیلئے فوج کی مدد لی جائے گی۔ بنگلہ دیش کی تاریخ میں پہلی بار دنیا بھر میں موجود بنگلہ دیشیوں کو بھی ووٹنگ کا حق دیا جا رہا ہے‘ جو نتائج میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ابھی تک حتمی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا‘ لیکن یہ یقینی ہے کہ تاریخ مقرر ہوتے ہی اگلے ایک دو ماہ میں نئے انتخابی اتحاد بھی بن جائیں گے۔ یہ اتحاد نتائج میں بہت اہم ہوں گے۔ ابھی تک کے تجزیوں میں بی این پی کے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے امکانات ہیں‘ اس کے بعد جماعت اسلامی‘ اس کے بعد دیگر جماعتیں۔ این سی پی کی نوزائیدہ جماعت کو زیادہ کامیابی کی توقع نہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش میں یہ تاثر عام ہے کہ مذہبی جماعتیں بڑے بڑے جلسے اور ریلیاں تو منعقد کر لیتی ہیں لیکن ووٹ ان کو نہیں ملتے۔ اگرچہ یہ تاثر سو فیصد درست نہیں اور نتائج بدل دیے جانے کا تاثر بھی گہرا ہے لیکن بنگلہ دیش کے آئندہ انتخابات میں کئی عوامل فیصلہ کن ہوں گے۔ اول نئے انتخابی اتحاد‘ دوم پس پردہ قوتوں کی موجودگی یا عدم موجودگی‘ بہتر انتخابی مہم اور حامیوں کی طاقت کو ووٹ میں بدلنے کی مؤثر کوشش۔ پس پردہ طاقتوں کی مداخلت اگرچہ ایک حقیقت ہے لیکن بنگلہ دیش کی موجودہ صورتحال اور ممکنہ عوامی ردِ عمل کے پیش نظر شفاف الیکشن ہو سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہو سکا تو بنگلہ دیش میں ایک بڑی تبدیلی آنے والی ہے۔ ایسی تبدیلی جو نہ صرف بنگلہ دیش کا اگلا رخ متعین کرے گی بلکہ پورے خطے اور خود پاکستان تک اس کے اثرات آ سکتے ہیں۔ خدا کرے یہ انتخابات ایک مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ ہوں۔