کبھی کبھی مایوسی اور بددلی کے موسموں میں یقین کی حد تک گمان ہونے لگتا ہے کہ بہت سے شہروں کی یہ مسلسل زبوں حالی صرف نااہلی‘ بدعنوانی اور کام چوری کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک دل دہلادینے والی منصوبہ بندی ہے۔یہ گمان کتنا ڈرائونا اور دل لرزا دینے والا ہے کہ کوئی ایک طاقت یا بہت سی طاقتیں‘ کوئی ایک گروہ یا بہت سے گروہ‘ یہ طے کیے ہوئے ہیں کہ فلاں شہر اور فلاں علاقے کو تباہ کرکے رہنا ہے۔ خبر نہیں یہ طاقتیں ملکی ہیں یا بیرونی! ہیں بھی یا نہیں! لیکن کیوں ایسا لگتا ہے کہ ایک بڑے منصوبے کے تحت اس بات کو مسلسل یقینی بنایا جاتا ہے کہ فلاں صوبے یا فلاں علاقے یا فلاں شہر کے مسائل ہرگز حل نہ ہوں۔ وہاں کوئی ایسا شخص یا ایسا طبقہ اختیارات نہ سنبھال لے جو ان مسائل کے حل کیلئے پُرعزم ہو۔ کوئی بڑا مسئلہ‘ جس سے عوام کی روز چیخیں نکل رہی ہوں‘ ختم نہ ہو جائے۔ کبھی کبھار یقین کی حد تک یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ مسئلہ چوری‘ بدعنوانی‘ نااہلی سے بھی کہیں اوپر ہے۔ جب سب تاویلیں ختم ہو جائیں‘ جب سب خوش گمانیاں دم توڑ جائیں‘ جب سب امیدیں چکنا چور ہو کر مٹی چاٹنے لگیں تو صرف ایک یقین توانا ہوتا ہے‘ صرف ایک ہی بات گونجنے لگتی ہے کہ نہیں! یہ سب تاویلیں‘ خوش گمانیاں‘ امیدیں بودی ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ان مسائل کا حل نکالنا مقصود ہی نہیں۔
اگر یہ محض منفی سوچ ہے تو مجھے بتائیں کہ یہ مسائل حل نہ ہو سکنے کی وجہ کیا ہے۔ یہ کسی ایک شہر یا کسی ایک صوبے‘ کسی ایک علاقے کے مسئلے نہیں۔ پچاس پچاس سال پرانے مسائل اگر نصف صدی میں نہ صرف یہ کہ حل نہ ہو سکیں بلکہ بدتر ہوتے چلے جائیں‘ کئی نئے مسئلے پیدا ہو کر جوان اور طاقتور ہو چکے ہوں‘ پرانے مافیاز مزید قوت حاصل کر چکے ہوں اور نئے گروہ نئے راستے پیدا کر چکے ہوں‘ وفاقی حکومتیں بھی مسلسل چہرہ نمائی کرتی ہوں اور صوبائی بھی۔ ایوان میں ہر صوبے اور شہر کی نمائندگی بھی بھرپور ہو‘ بڑی جماعتیں اکٹھی ہوں‘ صوبائی انتظامیہ بھی ہو‘ علاقائی بھی‘ ضلعی انتظامیہ سے لے کر پولیس تک ہر ایک محکمہ موجود ہو اور ہر ایک کروڑوں کی تنخواہیں اور مراعات بٹورتا دکھائی بھی دے‘ لیکن سب مسائل جوں کے توں ہوں۔ عوام دہائیاں دیتے نظر آئیں‘ چور ڈاکو لوگوں کو گلیوں محلوں میں لوٹ رہے ہوں‘ تو کس تاویل‘ خوش گمانی اور امید کی گنجائش رہ جاتی ہے۔
ایک گھر کا تصور کیجیے جس میں چار بھائی اپنے گھرانوں کے ساتھ ایک چھت تلے رہتے ہوں۔ گھر کے مسائل‘ مالی تنگی‘ ٹوٹ پھوٹ‘ کثرتِ عیال سمیت سب کے دکھ سکھ یکسا ں ہوں۔ کینہ پرور ہمسائے کا خطرہ بھی ہر وقت لگا رہتا ہو۔ ایسے میں ایک بھائی کے پاس گھر کا حصہ ہر طرح کی سہولتیں سمیٹے ہوئے ہو‘ اس کی بیوی بچے عمدہ کپڑوں میں نظر آتے ہوں‘ اس جیسی گاڑی کسی اور کے پاس نہ ہو اور رہن سہن بھی دوسروں سے برتر دکھائی دیتا ہو۔ دوسرے بھائیوں کے پاس نہ وہ سہولتیں ہوں نہ ویسی پوشاکیں اور نہ ہی وہ رہن سہن۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے‘ کتنی دیر وہ گھر خوشیوں اور اتفاق کے ساتھ چل سکتا ہے‘ کب تک شکایتیں پیدا نہیں ہوں گی‘ کب تک ان کے گھرانوں کے دل آپس میں جڑے رہیں گے؟ آخر کتنی دیر! پچاس سال یہی صورت حال رہے‘ پرانی نسلیں ختم ہو جائیں‘ نئی نسلیں بڑھاپے کو پہنچنے لگیں لیکن مسائل جوں کے توں رہیں تو کتنی دیر محبتیں قائم رہ سکتی ہیں؟ مجھے تو یہ بھی سمجھ نہیں آ سکتا کہ کوئی ایک بھائی سارے گھر کے مسائل بھول کر صرف اپنے اللے تللے کیسے پورے کر سکتا ہے؟ دوسروں کے خراب حالات سے اس کا دل دہلتا کیوں نہیں ہے؟ اور کیوں یہ توقع ہے کہ باقی سب اس کی خوشیوں کے جشن مناتے رہیں۔
صرف دو مثالیں لے لیں! بلوچستان اور سندھ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں پہلی بار بلوچستان میں سرداروں کے خلاف ایکشن سننے میں آیا تھا۔ اس وقت سرداروں کے ہاتھوں عوام کے استحصال کی باتیں سنی تھیں۔ باقی صوبوں کے مقابلے میں بلوچستان کی پسماندگی کا ذکر ہوتا تھا۔ یہ بات غالباً 1972ء کی ہو گی۔ اب 2025ء میں‘ 53 سال کے بعد بھی وہی کچھ کیوں اور کیسے؟ وہ پسماندگی‘ وہ استحصال‘ وہ غربت ختم کرنا کس کی ذمہ داری تھی؟ وہ جو سب وفاقی حکومتیں اس دور سے اب تک رہیں‘ وہ جو وزائے اعلیٰ اپنی حکومتیں بنا کر ایوانوں میں کرسی نشین رہے‘ وہ کیوں یہ سب ختم نہیں کر سکے؟ کوئی ایسا شخص کیوں کرسی پر نہیں آ سکا جس کے دل میں عوام کا اور صوبے کے درد ہوتا۔ نصف صدی پہلے کے مافیاز بدستور قائم کیوں ہیں؟ اگر 53 سال میں یہ نہیں ہو سکا تو اگلی کتنی دہائیاں اس انتظار میں رہیں گے؟ کب تک بلوچستان کو سلگتا دیکھیں گے؟
سندھ کے کسی شہر میں چلے جائیں۔ حید رآباد‘ سکھر‘ لاڑکانہ‘ ٹنڈو آدم‘ سانگھڑ۔ کسی بھی شہر کا جائزہ لے لیں‘ ادھڑا ہوا نظر آئے گا۔ سڑکوں کی حالت ایسی جیسے بمباری ہوئی ہو۔ پورے شہر کا چہرہ مٹی سے اٹا ہو گا۔ جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر۔ تعلیمی اداروں میں جائیں تو خوفزدہ ہو کر بھاگ نکلیں گے۔ ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں میں کوئی دوائی تو کیا‘ ڈاکٹرکی شکل بھی مشکل سے نظر آئے گی۔ مغرب کے بعد تو کیا‘ دن میں بھی اکثر شاہراہوں پر سفر نہیں کر سکتے۔ پولیس جہاں کہیں نظر آئے‘ اطمینان کا سانس نہیں لیں گے بلکہ جیبوں کی خیر منائیں گے۔ میں ابھی چھوٹے شہروں اور دیہات کی بات نہیں کر رہا۔ وہاں کا تصور کرکے تو لرزہ سا طاری ہو جاتا ہے۔ یہ بڑے شہروں کی بات ہو رہی ہے۔ سب سے بڑا شہر کراچی ہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا کراچی جیسا سلوک ملک کے کسی اور شہر کے ساتھ ہوا ہے؟کراچی کے ساتھ جو کچھ ماضی میں ہوا اور اب ہو رہا ہے‘ وہ خدا کسی شہر کی قسمت نہ کرے۔ بدامنی‘ لوٹ مار‘ غارت گری‘ بھتہ خوری‘ گلی محلوں کے جرائم‘ پانی کا قحط‘ سیوریج کا تباہ نظام‘ سڑکوں کی بدترین حالت‘ گندگی اور کوڑے کے ڈھیر‘ تفریح گاہوں کی شدید کمی‘ مون سون کے عذاب‘ مسلسل فضائی آلودگی۔ یہ تو چند مسائل ہیں! حقیقی اور مکمل فہرست کے لیے آپ کچھ دن کراچی میں رہ کر دیکھیں۔ حیرت ہو گی کہ لوگ کس طرح ان مصیبتوں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں‘ جو سرکاروں اور سیاسی جماعتوں نے مسلط کی ہیں۔ لکھنؤ کے مرحوم عرفان صدیقی نے کہا تھا:
گزرنے والے جہازوں کو کیا خبر ہے کہ ہم
اسی جزیرہ ناآشنا میں زندہ ہیں
کراچی میں رہ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ایسے شہر میں کس طرح جیا جاتا ہے جہاں وزرا‘ حکومت‘ انتظامیہ‘ پولیس‘ عمال‘ اہلکار سب ہوں لیکن درحقیقت کوئی بھی نہ ہو! کچھ بھی نہ ہو۔ کوئی بھی کسی بھی معاملے میں آپ کی مدد نہیں کرے گا۔ آپ چند لوگ اکٹھے ہوکر اپنی مدد کریں تو کریں‘کوئی ذمہ دار اتنا بتا دے کہ کیا کراچی کے مسائل ایسے ہیں کہ پچاس سال میں حل نہ ہو سکیں بلکہ پہلے سے دُگنے ہو جائیں؟ کیا یہ شہرِ دل دار‘ جو ملک کا سب سے بڑا شہر ہے اور جو سب سے زیادہ ٹیکس بھرتا ہے‘ اس کا حق دار نہیں تھا کہ اس کا خیال سب سے زیادہ رکھا جاتا۔
میں راولپنڈی سے لاہور نئی ریل کار کی باتیں سنتا ہوں‘ شیشے سے اسلام آباد‘ مری ٹرین کے منصوبے پڑھتا ہوں‘ ملک کی پہلی بلٹ ٹرین کی خبریں دیکھتا ہوں تو مجھے خوشی کے بجائے افسوس ہوتا ہے۔ ہر جگہ کام ہو رہا ہوتا تو خوشی بھی ہوتی۔ کوئی کیسے ایسا زرق برق لباس پہن سکتا ہے جبکہ اسی گھر کا دوسرا بھائی سادہ لباس بھی مشکل سے پہن رہا ہو۔ آپ کا دل کیسے مانتا ہے یہ سب کرنے کو؟ کیا آ پ نہیں دیکھ رہے کہ یہ باتیں آگ مزید بھڑکائیں گی؟ ابھی تو پچھلی آگ نہیں بجھی۔ خدا نہ کرے کہ یہ سچ ہو لیکن یہ خیال کتنا ڈرائونا اور دل لرزا دینے والا ہے کہ کوئی ایک طاقت یا بہت سی طاقتیں‘ کوئی ایک گروہ یا بہت سے گروہ یہ طے کیے ہوئے ہیں کہ فلاں شہر اور فلاں علاقے کو ہمیشہ تباہ حال ہی رکھنا ہے۔