مسلمان خاتون کا حجاب بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار نے نہیں کھینچا۔ مسلمان خاتون کا حجاب بی جے پی نے کھینچا ہے۔ آر ایس ایس نے کھینچا ہے!
بھارت کے مسلمانوں نے بہت کچھ دیکھا ہے‘ مگر یہ اندھیر پہلے نہیں دیکھا تھا۔ یہ پست ترین حرکت اس نفرت کا شاخسانہ ہے جو بی جے پی نے ہندو انتہا پسندوں کے دماغوں میں کوٹ کوٹ کر بھردی ہے۔ ہم پورے بھارت کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا رہے نہ ٹھہرا سکتے ہیں۔ بہت سی ہندو شخصیات نے اس قبیح حرکت کی مذمت کی ہے اور نتیش کمار سے مطالبہ کیا ہے کہ معافی مانگے۔ بالی وُڈ کی معروف اداکارہ راکھی ساونت نے تو یہاں تک کہا ہے کہ ''نتیش جی اگر میں اسی طرح سرِ بازار آپ کی دھوتی کھینچ لوں تو آپ کو کیسا محسوس ہوگا‘‘۔ مگر بی جے پی اور آر ایس ایس کے ماننے والے ہندو ذہنی بربریت کے اس مقام تک پہنچ چکے ہیں جہاں انسانیت مر جاتی ہے اور صرف درندگی باقی رہ جاتی ہے۔
اس درندگی اور بربریت کا سب سے بڑا علمبردار پروہت ادتیا ناتھ ہے جو یوپی کا وزیراعلیٰ ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ یوپی ہی مسلمانوں کی تہذیبی اور مذہبی میراث کا سب سے بڑا گڑھ ہے۔ ادتیا ناتھ نے کھلی جگہوں پر نماز پڑھنے سے روک دیا ہے۔ اس خُوک زادے نے ایک بار ہندو انتہا پسندوں سے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ مسلمان خواتین کی آبرو ریزی کرو۔ یہ ان شہروں کے نام تبدیل کر رہا ہے جو مسلمانوں کے عہد کی یادگار ہیں۔ اس نے مدارس پر لاتعداد پابندیاں لگائی ہوئی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ادتیا ناتھ بی جے پی کا نیتن یاہو ہے تو مبالغہ نہ ہو گا۔ ادتیا ناتھ کے بعد مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن‘ مودی کے علاوہ‘ امیت شاہ ہے جو بھارت کا وزیر داخلہ ہے اور پولیس کا باس ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب دہلی میں مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا اور پولیس تماشائی بنی رہی تو امیت شاہ ہی اس کی پشت پر تھا۔
بدبختی کی انتہا یہ ہے کہ بھارت کے بیس کروڑ مسلمانوں کی حالتِ زار پر مسلم ممالک خاموش ہیں۔ ان بیس کروڑ مسلمانوں کو عملاً دوسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا ہے‘ مگر مسلمان حکومتیں دوسری طرف دیکھ رہی ہیں۔ شرقِ اوسط کے مسلمان ممالک اس غلط فہمی میں ہیں کہ بھارت کے مسلمانوں کا مسئلہ پاکستان کا مسئلہ ہے۔ ایک حد تک یہ مفروضہ درست بھی ہے مگر غلط بہت زیادہ ہے۔ پاکستانی حکومتیں اور پاکستانی عوام سے جو بن پڑتا ہے‘ کرتے ہیں (تاہم ابھی تک پاکستان نے حکومتی سطح پر اس واقعہ کے خلاف احتجاج نہیں کیا) مگر یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں‘ پوری مسلم دنیا کا مسئلہ ہے۔ اگر مسلمان خاموش رہے تو حجاب پر حملہ صرف بھارت تک محدود نہیں رہے گا۔ ایسا حملہ خدانخواستہ کل امریکہ اور یورپ میں بھی ہو سکتا ہے اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں بھی! اور یہ خاتون بھارتی یا پاکستانی نہیں‘ ایک عرب خاتون بھی ہو سکتی ہے! مسلمان حکمرانوں نے جس طرح مودی عہد کی مسلم دشمنی کو نظر انداز کیا ہے‘ اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ تین چار دن پہلے جنوبی عرب کے ایک سلطان نے بھی مودی کو اپنے ملک کا اعلیٰ ترین ایوارڈ دیا ہے۔ کیا خوب تماشا ہے کہ جس پارٹی کے وزیراعلیٰ نے مسلمان خاتون کا حجاب کھینچا ہے اور انہی دنوں کھینچا ہے‘ اسی پارٹی کے وزیراعظم کو ایک مسلمان سلطان اپنی ریاست کا بلند ترین ایوارڈ دے رہا ہے۔ حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے!
ایک وقت تھا کہ ایران کا جھکاؤ بھی واضح طور پر بھارت کی طرف تھا۔ ایران پر اسرائیل کے حالیہ حملے نے بالآخر ایران کی آنکھیں کھول دیں۔ جس وقت اسرائیل میزائل پھینک کر بے گناہ اور معصوم ایرانی شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار رہا تھا‘ اس وقت بھارت دوسری طرف دیکھ رہا تھا اور پاکستان دنیا بھر میں اسرائیل کی مذمت کر رہا تھا اور ایران کی حمایت کر رہا تھا۔ گزشتہ ہفتے اسلام آباد کی ایک تقریب میں ایرانی سفیر عزت مآب رضا امیری مقدم نے پاکستان کی حمایت کا برملا ذکر کیا اور شکریہ بھی ادا کیا! انہوں نے بتایا کہ ایرانی مجلس (پارلیمنٹ) میں ''شکریہ پاکستان‘‘ کے نعرے لگے۔ ہمارے عرب بھائی بھی ایک دن بھارت کا اصلی چہرہ دیکھیں گے مگر ایسا نہ ہو کہ اس وقت‘ خدانخواستہ‘ بہت دیر ہو چکی ہو اور چڑیاں کھیت چُگ چکی ہوں۔ اب تو یہ راز بھی دنیا بھر میں کھل چکا ہے کہ بھارت کے اسلحہ ساز کارخانے یا تو اسرائیل خود چلا رہا ہے یا اس کی مدد سے چل رہے ہیں۔ انسان یہ دیکھ کر حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ عرب ممالک اسرائیل اور بھارت کا گٹھ جوڑ دیکھتے جانتے ہوئے بھی مودی پر فدا ہو رہے ہیں۔ کہیں اسے تمغے اور اعزازات دیے جا رہے ہیں اور کہیں اس کی خوشنودی کیلئے مندروں کا افتتاح ہو رہا ہے۔ ہم مندر بنانے کے مخالف نہیں۔ ہر شخص کو اپنے مذہب اور اپنے عقیدے کی رُو سے عبادت گاہ بنانے کا حق حاصل ہے اور عبادت کرنے کا بھی! مگر کیا یہ بھی لازم ہے کہ مندر کا قیام اور افتتاح سرکاری سطح پر ہو اور تقریب میں سرکاری نمائندے موجود ہوں؟ میرے پاس حوالہ موجود نہیں مگر میں نے کہیں پڑھا ہے کہ ایران نے اسرائیل کے حملوں کے بعد عرب ملکوں کو متنبہ بھی کیا تھا کہ بھارتی باشندے اسرائیل کیلئے جاسوسی کرتے ہیں۔ ہماری عرب ممالک کے اربابِ اختیار سے دست بستہ گزارش ہے کہ بھارتی مسلمانوں کے حوالے سے آپ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس نہیں کرتے تو بے شک نہ کریں مگر اس حقیقت کو تو نظر انداز نہ کیجئے کہ بھارت آپ کے ازلی دشمن اسرائیل کا قریبی دوست ہے اور دفاعی معاملات میں دونوں ایک دوسرے کے ہمکار اور راز دار ہیں۔
متاثرہ خاتون ڈاکٹر نصرت پروین نے ابھی تک سرکاری ڈیوٹی جوائن نہیں کی۔ بھارتی ریاست جھاڑ کھنڈ کے وزیر صحت ڈاکٹر عرفان انصاری نے ڈاکٹر نصرت پروین کو ماہانہ تین لاکھ روپے تنخواہ‘ سرکاری اپارٹمنٹ‘ اپنی مرضی کی پوسٹنگ اور مکمل سکیورٹی کے ساتھ ملازمت کی پیشکش کی ہے۔ عرفان انصاری نے یہ بھی کہا ہے کہ نتیش کمار نے اس حرکت سے مسلم کمیونٹی کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ہے۔ انصاری کے نزدیک یہ واقعہ صرف ایک فرد پر حملہ نہیں بلکہ انسانیت کی عزت‘ وقار اور آئین پر براہِ راست حملہ ہے۔ حد یہ ہے کہ بی جے پی نے عرفان انصاری کی اس پیشکش پر بھی تنقید کی ہے۔ نتیش کمار کی حمایت میں بی جے پی کے لیڈروں نے جو بیانات دیے ہیں ان میں سے کچھ اتنے شرمناک اور فحش ہیں کہ ناقابلِ بیان ہیں۔ بی جے پی کے لیڈروں اور حمایتیوں کے دماغوں میں غلاظت بھری ہے۔ تعفن اتنا ہے کہ پورے جنوبی ایشیا نے ناک پر رومال رکھا ہوا ہے۔ بی جے پی نے بھارتی سیکولرازم کا لباس تار تار کر دیا ہے۔ اس نے بھارت کے اجتماعی کلچر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔ بھارت سب کا ملک تھا مگر بی جے پی نے اسے صرف آر ایس ایس کا ملک بنا دیا ہے۔ یہ بنیاد میں بارود بھرنے والی بات ہے۔ کوئی دن کی بات ہے کہ عمارت بھک سے اڑ جائے گی! رہا نصرت پروین کا مقدمہ‘ تو جس دن یہ مقدمہ بڑی عدالت میں پیش ہو گا اس دن نتیش کمار‘ ادتیا ناتھ‘ امیت شاہ اور مودی کے ساتھ آج کی پچپن مسلمان ریاستوں کے حکمران بھی کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔ ان سے پوچھا جائے گا کہ تخت و تاج کے دیوانو! کیا تم میں اتنی حیا بھی نہیں تھی کہ بھارت کے سفیروں کو بلا کر دو لفظ احتجاج ہی کے ریکارڈ کرا دیتے؟ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھ کر تم اپنی ماؤں‘ بہنوں اور بیٹیوں کی حفاظت بھی نہ کر سکے؟