مجھے یہ تو معلوم تھا کہ برادرِ محترم میجر عامر صاحب ایک ہر دلعزیز شخصیت ہیں مگر وہ اتنے مرجع خلائق ہیں اسکا حقیقی اندازہ مجھے اسلام آباد میں ہفتے کے روز اُنکی صاحبزادی کی تقریبِ رخصتی میں شرکت کرنیوالے لوگوں کو دیکھ کر ہوا۔ احباب کی طرف سے جب کبھی مجھے تقریبِ رخصتی میں شرکت کی دعوت ملتی ہے تو میری کوشش ہوتی ہے کہ ہدیۂ دعا کیساتھ وہاں ضرور حاضر ہوں۔
قارئین جانتے ہیں کہ فقیر لاہور میں مقیم ہے۔ ان دنوں لاہور اسلام آباد موٹروے شدید دھند کی لپیٹ میں ہے۔ بعض اوقات صبح موٹروے دس گیارہ بجے کے قریب کھلتی اور عشا کے بعد بند ہو جاتی ہے۔ ان حالات میں علی الصباح لاہور سے بذریعہ کار روانہ ہو کر دوپہر کے فنکشن میں شرکت کا آپشن خاصا رسکی تھا۔ میجر صاحب سے برسوں پر محیط قلبی روابط کی بنا پر میں یہ رسک نہیں لے سکتا تھا۔تقریب سے ایک دن پہلے جمعۃ المبارک کے روز میں عشا کے قریب اسلام آباد پہنچ گیا۔ قیام تو ایک جگہ طے تھا مگر اسلام آباد‘ راولپنڈی کی ممتاز شخصیت شوکت قاضی صاحب کا اصرار تھا کہ رات کے کھانے کیلئے انکے ہاں حاضر ہوں۔ شوکت قاضی صاحب کو اللہ نے بہت خوشحالی عطا کی ہے‘ وہ خیر کے کاموں میں دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔ انکی زندگی ایک Success Storyہے جو نوجوانوں کیلئے مشعلِ راہ ہے۔ ہمارے نوجوان اکثر مغرب کے لوگوں کی شاہراہِ زندگی پر کامیابی کی داستانیں پڑھتے ہیں مگر انہیں معلوم نہیں کہ انکے اپنے دیس میں بعض اوقات بالکل بے وسیلہ لوگ اللہ کے سہارے اور محنت کے بل بوتے پر فرش سے عرش پر جا پہنچتے ہیں۔ قاضی صاحب گوجر خان کے رہائشی ہیں۔ انکے پاس دینی و دنیاوی تعلیم کی دولت تو تھی مگر درہم و دینار کی دولت ناپید تھی‘ لہٰذا محنت مزدوری کیلئے گوجر خان سے راولپنڈی آ گئے۔ راولپنڈی میں باقاعدہ مزدوری بھی کی مگر جلد ہی انہیں ایک دکان پر ہیلپر کی ملازمت مل گئی جو چند ماہ کے بعد سیلز مینی میں بدل گئی۔ سیلز مینی کے بعد درمیانے درجے کے پراپرٹی ڈیلرز کیساتھ بطور ایجنٹ کمیشن پر کام شروع کر دیا‘ اللہ نے اس میں برکت دی یوں چند برسوں کے تجربے اور کمیشن کی بچت سے پس انداز کی ہوئی رقم سے معمولی درجے کی پراپرٹی کی خرید و فروخت شروع کر دی۔ اس میں معقول منافع ہونے لگا توآگے بڑھتے چلے گئے حتیٰ کہ اسلام آباد‘ راولپنڈی کے بڑے بزنس مینوں میں شمار ہونے لگا۔ میں نے اُس روز پوچھا کہ آپ کی کامیابی کا راز کیا ہے تو انہوں نے بتایا کہ صرف اللہ کا فضل ہے اور کامیابی کیلئے میرا سہ نکاتی فارمولا ہے: دیانت‘ محنت اور مہارت۔ برسوں سے قاضی صاحب کے ساتھ تعلقِ خاطر قائم ہے‘ جمعۃ المبارک کے روز اُن کے دولت کدے پر معروف کشمیری رہنما اور آزاد کشمیر کی سابق پارلیمنٹ کے رکن اور عرب و غرب میں مسئلہ کشمیر کے ترجمان جناب عبدالرشید ترابی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ چند روز قبل استنبول میں مسئلہ فلسطین پر ہونے والی کانفرنس میں شرکت کر کے لوٹے تھے۔ اس کی روداد پھر کسی کالم میں قارئین کو سناؤں گا۔ اسی موقع پر پیر ڈاکٹر عبدالرحمن قریشی سے بھی ایک بار پھر ملنے کا موقع ملا۔ پیر صاحب نے سوربون یونیورسٹی فرانس سے سیاسیات میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ ان دنوں وہ مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی تفہیم القرآن کا فرنچ زبان میں ترجمہ کر رہے ہیں۔ تفہیم کی پہلی جلد اگلے چند ماہ میں چھپ کر منظر عام پر آ جائے گی۔ یوں قاضی صاحب سے ملاقات سہ آتشہ ہو گئی۔
ہفتے کے روز میں ایک بجے دوپہر ایک مقامی ہوٹل میں جناب میجر عامر کی صاحبزادی کی تقریبِ رخصتی میں حاضر ہوا۔ میجر صاحب نہایت تپاک سے ملے۔ انہوں نے دھند کے دوران میری حاضری پر بہت خوشی کا اظہار کیا۔ میجر صاحب کا تعلق خیبر پختونخوا کے دینی خانوادے سے ہے۔ اُن کے والد گرامی مولانا محمد طاہر مرحوم مدرسہ تعلیم القرآن کی روح رواں تھے۔ والدِ محترم مولانا گلزار احمد مظاہری مرحوم سے اُن کے باہمی محبت و احترام کے روابط تھے۔ میجر صاحب سے ہمارے گہرے تعلقِ خاطر کا یہ ایک مرکزی سبب ہے۔اس روز تقریب میں میجر صاحب کے بعد جناب مشاہد حسین سیّد سے ملاقات ہوئی۔ اگرچہ سیّد صاحب برسوں سے اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں مگر وہ خالص لاہوری ہیں۔ وہ جب کبھی ملتے ہیں تو کھلے ڈھلے کشادہ بازوؤں اور قہقہوں کے ساتھ ملتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ جمعۃ المبارک کو ہی ماسکو سے آئے ہیں جہاں انہوں نے پاک وطن کی نمائندگی کرتے ہوئے پہلے ''روس پاکستان فورم‘‘ میں شرکت کی۔ اس فورم کے بارے میں بعض دلچسپ معلومات ہیں جو کسی ا گلے کالم میں سپردِ قلم کروں گا۔ سیّد صاحب نے اپنے ہونہار صاحبزادے مصطفی حیدر سیّد سے بھی تعارف کروایا جنہوں نے بیک وقت امریکہ اور چین سے تعلیم حاصل کی ہے۔ اس وقت وہ اسلام آباد میں چین اور یوریشیا وغیرہ کے بارے میں قائم تھنک ٹینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ اس تقریب میں پاک فوج کے سابق افسرانِ اعلیٰ بھی موجود تھے‘ ممتاز علمائے کرام بھی تھے‘ تقریباً ہر سیاسی جماعت کی نمائندگی بھی موجود تھی۔ صحافی حضرات بھی تھے جن میں نمایاں مجیب الرحمن شامی‘ جاوید چودھری اور حفیظ اللہ نیازی شامل تھے۔ سماجی شعبے کی نمایاں شخصیات بھی تھیں۔ بیورو کریسی کی نمائندگی بھی تھی۔ سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے بھی علیک سلیک ہوئی۔ سابق چیئرمین جائنٹ چیف آف سٹاف جنرل زبیر حیات اور جنرل احسان الحق بھی آئے ہوئے تھے۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل(ر) شجاع پاشا بھی ہال میں تھے۔ سابق فیڈرل چیف سیکرٹری محمد سعید مہدی بھی تھے۔ بعض حاضر سروس سول و فوجی افسران بھی تھے جنہیں میں پہچانتا نہ تھا۔ پی ٹی آئی کے بابر اعوان‘ شہرام ترکئی اور شاندانہ گلزار تقریب میں موجود تھیں۔ پیپلز پارٹی کی نمائندگی وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کی۔ مسلم لیگ (ن) کے پرویز رشید بھی تھے۔ جماعت اسلامی کے شکیل ترابی بھی دکھائی دیے۔ مولانا فضل الرحمن صاحب کے بارے میں دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ کراچی میں ہیں‘ انہوں نے معذرت کی ہے۔ فواد چودھری سے سلام دعا ہوئی۔ اُن کا کہنا تھا کہ آغاز حکومت کرے گی تو بات آگے بڑھے گی۔ تقریب میں جمعہ خان صوفی سے بھی تعارف ہوا‘ جنہیں میں نہیں جانتا تھا۔ خیبر پختونخوا کی یہ ایک صاحبِ علم شخصیت ہیں۔ یہ نوجوان پروفیسر تھے جب 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے ولی خان کی زیر صدارت نیب کو خلافِ قانون قرار دیا تو یہ اجمل خٹک کے ساتھ کابل چلے گئے اور پختونستان کی تحریک چلاتے رہے۔ 20برس کی جلاوطنی کے بعد وطن واپس آئے۔ وہ کابل کے حکمرانوں اور اس تحریک سے بہت مایوس ہوئے تھے۔انہوں نے ایک کتاب ''فریب ناتمام‘‘ کے عنوان سے لکھی ہے۔
تقریب میں مختلف شعبۂ ہائے زندگی اور مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کی موجودگی کا سب سے بڑا سبب تو یہ تھا کہ میجر صاحب ایک مردِ خلیق ہیں۔ اس کے علاوہ میجر صاحب نے فوج میں دورانِ ملازمت آئی ایس آئی میں کسی شخصیت کیلئے نہیں بلکہ وطنِ عزیز کیلئے گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔ وہ دورانِ ملازمت بھی اعلیٰ افسران کو سچی بات ان کے منہ پر بتا دیا کرتے تھے اور باہمی غلط فہمیوں اور رنجشوں کو دور کروا دیا کرتے تھے۔ میں تقریب میں سوچتا رہا کہ یہاں ایک چھت تلے سینکڑوں مختلف الخیال لوگ بیٹھے ہیں‘ ان میں سے کچھ کو جنرل کیانی سے شکوہ شکایت ہو گی‘ بہت سے لوگوں کو شجاع پاشا سے گلے شکوے ہوں گے مگر سب پُرسکون ماحول میں تبادلۂ خیال کر رہے ہیں‘ یہی فضا ہماری حقیقی سیاست میں آ جائے تو کون سی ایسی تلخی ہے جو دور نہ ہو سکے۔