پاکستانیوں کی کہیں کوئی شنوائی نہیں ہے۔ ان کے ساتھ دنیا میں کہیں بھی‘ کچھ بھی ہو جائے ان کو انصاف نہیں ملتا۔ اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک اپنے شہریوں کے حقوق کے حوالے سے اُس وقت بھی فکرمند رہتے ہیں جب وہ کسی اور ملک میں رہائش پذیر ہوں یا محض وزٹ پر ہی بیرونِ ملک گئے ہوں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس حوالے سے علیحدہ محکمے قائم ہیں‘ جو دنیا بھر میں اپنے شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔ ان ممالک میں اپنے شہریوں کی جان ومال کے تحفظ کو نہایت سنجیدگی سے لیا جاتا ہے مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ مایہ ناز صحافی ارشد شریف قتل کیس کی مثال دیکھ لیں۔ حکومت ایک سال سے عدالت میں یہ کہہ رہی کہ ہم مشترکہ لیگل اسسٹنس معاہدہ(ایم ایل اے) سائن کرنے والے ہیں تاکہ کینیا میں ارشد شریف کے قتل کے محرکات بارے تفتیش ہو سکے مگر آج تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ جب عدالت میں یہ سوال آیا کہ کینیا میں پاکستان کی طرف سے وکیل کیا جائے‘ تو یہ عذر پیش کیا گیا کہ وہاں وکیل بہت مہنگے ہیں۔ یہ فقط ایک بہانہ تھا۔ حکومت کی اس کیس میں دلچسپی ہی نہیں ہے‘ ورنہ پاکستان کی حکومت اتنی بھی گئی گزری نہیں کہ کینیا جیسے ملک میں ایک وکیل ہائر نہ کر سکے۔ بطور بیوہ‘ میں نے اکیلے وہاں کیس فائل کیا‘ وکیل ہائر کیا اور ایک سال کے اندر ہائیکورٹ میں کیس جیت بھی لیا لیکن اپنے ملک میں انصاف کی دور‘ دور تک کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔ وجہ صرف یہ ہے کہ حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں اور پاکستان کے شہریوں کے حقوق کا دفاع کرنے والا کوئی ادارہ بھی نہیں ہے۔
دوسری جانب سارہ شریف کیس کی مثال دیکھ لیں۔ ایک دس سالہ معصوم برطانوی بچی کا قتل برطانیہ میں ہوا اور قاتل بھاگ کر پاکستان آ گئے۔ برطانیہ کی پولیس اور نظام عدل نے ٹھان لی کہ قاتلوں کو ہرصورت سزا ہو گی۔ عرفان شریف اور اس کی بیوی جہلم میں چھپے ہوئے تھے‘ انٹرپول کی مدد سے ان مجرموں کو گرفتار کیا گیا۔ پاکستان اور برطانیہ کے مابین مجرمان کی حوالگی کا کوئی معاہدہ نہیں‘ لیکن اس کے باوجود مجرموں کو گرفتار کر کے برطانیہ لے جایا گیا جہاں ان پر کیس چلا کر انہیں سزا سنائی گئی۔ اب سارہ کے قتل کے جرم میں مجرموں کو عمر قید کی سزا ہو چکی ہے۔ برطانیہ کی حکومت نے اس حوالے سے کوئی تاخیری حربہ نہیں اپنایا۔ انہوں نے مجرمان کو پکڑنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور معصوم بچی کو انصاف دلا کر ہی سکھ کا سانس لیا۔
پاکستان میں چونکہ وسائل کی مساوی تقسیم نہیں اور یہاں حقیقی جمہوریت بھی مفقود ہے‘ اس لیے عوام کا استحصال ہو رہا ہے۔ جب یہ خبر آتی ہے کہ غیر قانونی تارکینِ وطن کی کشتی ڈوب گئی تو اس میں مرنے والوں میں سب سے زیادہ پاکستانی ہی ہوتے ہیں۔ غریب افراد ڈنکی لگا کر یورپ اور امریکہ میں رہنے کے خواب آنکھوں میں سجائے سمندر برد ہو جاتے ہیں مگر یہ دھندہ زور وشور سے جاری ہے۔ جو کچھ انسانی سمگلرز سادہ لوح عوام کے ساتھ کر رہے ہیں‘ اس ظلم کی مثال نہیں ملتی۔ بڑی تعداد میں پاکستانی ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں‘ جن کے پاس پیسے اور ڈگری ہیں‘ وہ قانونی طریقے سے دوسرے ملکوں میں آباد ہو رہے ہیں مگر جن کے پاس تعلیم اور اتنے وسائل نہیں وہ ادھار مانگ کر یا والدین کی جمع پونجی لگا کر ایجنٹس کے ذریعے‘ غیر قانونی طور پر بیرونِ ملک جا رہے ہیں۔ یہ سفر اتنا آسان نہیں ہوتا۔ ایجنٹس پیسے تو پورے لیتے ہیں لیکن اکثر افراد کا سفر منزل پر پہنچنے سے پہلے‘ کسی صحرا یا سمندر میں ختم ہو جاتا ہے۔ ایجنٹس ان کو صحرائوں میں بھوکا پیاسا چھوڑ جاتے ہیں یا سمندر کی لہروں کے سپرد کرکے خود غائب ہوجاتے ہیں۔ جن لانچوں اور جہازوں میں ان کو لے جایا جاتا ہے‘ وہ بہت خستہ حال ہوتے ہیں۔ کھانے پینے کا بندوبست بھی ناکافی ہوتا ہے۔ اکثر ان لوگوں کوکنٹینرز میں لے جایا جاتا ہے جہاں بیشتر افراد دم گھٹنے سے مارے جاتے ہیں۔ ہر جگہ ان کو چھپ کر رہنا پڑتا ہے۔ بہت سے غریب شہری غیر قانونی طور پر سرحد پار کرتے ہوئے کوسٹ گارڈز اور بارڈر سکیورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود ہمارے نوجوان اگر موت کا سفر کر رہے ہیں تو اس کے پیچھے ملک کے حالات ہیں۔ سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران میں نوجوان مایوس ہو جاتے ہیں۔ اشرافیہ امیر سے امیر تر ہوتی جا رہی ہے اور عوام غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ مہنگائی‘ انصاف کی عدم فراہمی‘ بجلی کی لوڈشیڈنگ‘ گیس کی بندش‘ انٹرنیٹ کی سست روی‘ آزادیٔ اظہارِ رائے پر پابندی‘ مہنگی توانائی اور آئے دن سڑکوں کے بند ہو جانے جیسے عوامل نقل مکانی کی بڑی وجہ ہیں۔ معاشی ضروریات کے سبب پاکستانی سب سے زیادہ یورپ‘ امریکہ یا خلیجی ریاستوں میں جاتے ہیں۔ ایک بیٹے پر پورے خاندان کا بوجھ ہوتا ہے‘ اس نے چھوٹے بہن بھائیوں کو پڑھانا بھی ہوتا ہے‘ گھر کی کچی چھت بھی پکی کرانا ہوتی ہے‘ والدین کا قرضہ بھی اتارنا ہوتا ہے اور خاندان کو پیٹ بھر روٹی بھی فراہم کرنا ہوتی ہے۔ یہی معاشی عوامل نوجوانوں کو سمندروں اور صحرائوں میں موت کے سفر پر روانہ کرتے ہیں۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی سفارتکاری میں محنت کشوں کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اگر ہمارے حکومتی معاہدے یورپ اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ ہوئے ہوتے تو ہمارے محنت کش قانونی طریقے سے وہاں جاتے اور لاکھوں‘ کروڑوں ڈالر کا زرِمبادلہ پاکستان آتا۔ ہمارے ہنرمند طبقے کی جگہ بھارتی افراد لے چکے ہیں۔ فی الوقت ہمارے ہاں سیاسی اشرافیہ اپنا حساب برابر کرنے میں مصروف ہے‘ ایسے میں اس کو عوام کے مسائل کہاں نظر آئیں گے۔ ہماری لیبر فورس جب یہاں بیروزگاری دیکھتی ہے اور حکومتی سطح پر بھی ان کے لیے کوئی اقدام نہیں ہوتا تو وہ انسانی سمگلروں اور ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے۔ آج کل کوئی تنقیدی ٹویٹ بھی کر دے تو اس کو فوری گرفتار کر لیا جاتا ہے‘ ایسے میں انسانی سمگلرز حکومت کی نظروں سے کیسے اوجھل رہ سکتے ہیں؟ یہ بھیڑیے عوام کو لوٹ کر اپنا بزنس چمکا رہے ہیں مگر ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ابھی حال ہی میں یونان میں پیش آئے ایک دالخراش واقعے نے انسانی سمگلنگ کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ یونان کے قریب تارکینِ وطن کی کشتی ڈوبنے سے 40 کے قریب پاکستانی ہلاک ہو گئے‘ جبکہ 47 کو زندہ بچا لیا گیا۔ 40تارکین وطن کی ہلاکت کی خبر ان کے لواحقین پر بجلی کی طرح گری۔لواحقین نے بتایا کہ انہوں نے بیس سے بائیس لاکھ فی کس ایجنٹ کو دے کر اپنے پیاروں کو غیر قانونی طور پر یورپ بھیجا تھا۔ یہ رقم جمع کرنا ان کے لیے قطعاً آسان نہ تھا۔ اپنی عمر بھر کی جمع پونجی اور قرض لے کر انہوں نے اپنے بچے باہر بھیجے لیکن ان کو کیا ملا؟ کچھ بھی نہیں! ان کے ہاتھ آج بھی خالی ہیں۔ اس سانحے میں ہلاک ہونے والا ایک پاکستانی بچہ محمد عابد صرف 13 سال کا تھا۔ بچ جانے والوں کے مطابق وہ پاکستان سے لیبیا گئے اور پھر یونان‘ اس کے بعد ان کی منزل اٹلی تھی لیکن بیشتر کو موت نے نگل لیا۔ 2023ء میں بھی یونان کے ساحل کے پاس تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سے تین سو سے زائد پاکستانی ہلاک ہو گئے تھے۔ اسی طرح اٹلی کے قریب ایک کشتی ڈوبنے سے پاکستان کی ایک نیشنل لیول بلوچ ہاکی و فٹ بال پلیئر بھی ہلاک ہو گئی تھی۔ ڈنکی کا سفر آسان ہرگز نہیں۔ ہمارے نوجوان اس وقت شدید محرومی کا شکار ہیں‘ ان کے پاس ترقی کے مواقع ہی نہیں۔ وہ صرف اس لیے بحیرۂ روم میں ڈوب رہے ہیں کہ اپنے ملک میں ان کو باعزت روزگار نہیں مل رہا۔ وہ اپنے خاندان کی معاشی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر گزشتہ برس ہونے والے حادثات کے بعد ہی کچھ اقدامات کر لیے جاتے تو اب دوبارہ پاکستانی یونان کے قریب ڈوب کر ہلاک نہ ہوتے‘ مگر عوامی مسائل کی طرف کسی کی توجہ ہی نہیں۔ اپنے ملک کے نوجوانوں کی اس طرح ہلاکت پر مجھے شدید افسوس ہے۔ کاش کہ ہمارے ملک میں ان کے لیے اتنے مواقع ہوتے کہ انہیں موت کا یہ خطرناک سفر نہ کرنا پڑتا۔