"IYC" (space) message & send to 7575

رمضان المبارک اور مہنگائی

سینیٹ کے اجلاس میں اقلیتی رکن دنیش کمار کی جانب سے رمضان المبارک کے دوران مہنگائی کا مسئلہ اٹھانے پر ذہن اس جانب چلا گیا کہ ہمارے مسلمان عوامی نمائندوں نے اس معاملے پر آواز کیوں بلند نہیں کی؟ جیسی خواہش کا اظہار دنیش کمار نے اپنی اقلیتی برادری سے کیا‘ ویسی طلب ہمارے مسلم نمائندوں کے دلوں میں اجاگر کیوں نہیں ہوئی؟ دنیش کمار نے اپنے خطاب میں کہا کہ ماہِ مقدس میں مہنگائی بڑھا دی گئی‘ سستے بچت بازار بھی مہنگے ہیں‘ یہاں غریب عوام کا کوئی نہیں سوچتا‘ اقلیتی برادری مسلمانوں کو ریلیف دے‘ شاید مسلمان تاجروں کے دلوں میں رحم آ جائے۔
اس حقیقت سے کسی طور انکار ممکن نہیں کہ رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی کھانے پینے کی بہت سی چیزوں (پھلوں‘ سبزیوں‘ گوشت‘ کھجوروں‘ بیسن‘ چینی اور دوسری اشیا) کی قیمتیں بے قابو ہو گئی ہیں۔ دکانداروں نے ہر چیز کی قیمت میں پچاس سے سو روپے اضافہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے عام پاکستانی کی قوتِ خرید مزید محدود ہو چکی ہے‘ یوں لوگوں کے لیے افطاری یا سحری کا معقول انتظام کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے عام آدمی کی پہلے ہی چیخیں نکل رہی تھیں‘ رمضان المبارک میں چیزیں مزید مہنگی ہوئی ہیں تو گویا بے وسیلہ طبقے کی تو کمر ٹوٹ گئی ہے۔
یہ سلسلہ ہر سال چلتا ہے‘ ہر سال عوام روتے اور چیختے چلاتے ہیں۔ ہر سال حکمران اُن کو جھوٹے دلاسے دیتے ہیں‘ لیکن چونکہ اصلاح احوال کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کیاجاتا اس لیے کوئی بھی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ ابھی چار روز قبل وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت چینی کی سپلائی اور قیمت پر کنٹرول سے متعلق اجلاس ہوا جس میں جناب وزیراعظم نے کہا کہ عوام کو اشیائے خور و نوش کی کم قیمت پر فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے‘ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ اس موقع پر وزیراعظم کو جو بریفنگ دی گئی اس میں بتایا گیا کہ اس وقت ملک میں چینی کا وافر سٹاک موجود ہے‘ صوبائی سطح پر چینی کی کم قیمت پر فروخت کے لیے فیئر پرائس شاپس قائم کی گئی ہیں جبکہ چینی کی غیر قانونی ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائی یقینی بنائی جائے گی۔ آج جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو یہ خبر سامنے آئی ہے کہ کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد میں چینی کی خوردہ قیمت 170 روپے فی کلو گرام تک پہنچ گئی ہے جس کی وجہ رمضان میں زبردست مانگ کے باعث ہول سیل نرخوں میں اضافہ بتائی گئی ہے جبکہ ریٹیلرز نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر ہول سیل مارکیٹ میں تیزی کا رجحان برقرار رہا تو چینی کی قیمت 200 روپے فی کلوگرام تک پہنچ سکتی ہے۔ اگر تو معاملہ طلب اور رسد کا ہو تو کوئی بات نہیں‘ لیکن اگر ذخیرہ اندوز اور منافع خور مافیاز کی وجہ سے چینی اور دوسری اشیا مہنگی ہو رہی ہیں تو پھر یہ لمحۂ فکریہ ہے۔
کسی بھی ملک میں قیمتوں میں اضافے کے اس رجحان کا ایک حصہ طلب اور رسد کے قوانین سے تعلق رکھتا ہے لیکن پاکستان میں مہنگائی کے بڑھنے کا تعلق طلب اور رسد سے زیادہ ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری سے ہے۔ سرمایہ دار ماہِ مبارک شروع ہونے سے پہلے رمضان کے دوران استعمال ہونے والی اشیا کا ذخیرہ کر لیتے ہیں اور پھر مارکیٹوں میں ان اشیا کی مصنوعی قلت پیدا کر کے من مانے دام وصول کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے مہنگائی بڑھتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قیمتوں کی نگرانی کا ایک غیر مؤثر نظام ہونے کی وجہ سے لالچی اور بے ایمان تاجر رمضان کو زیادہ سے زیادہ کمانے کا سنہری موقع گردان کر سرگرم ہو جاتے ہیں اور عوام کو لٹنے سے بچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔
مہنگائی بڑھنے کی کچھ ذمہ داری صارفین پر بھی عائد ہوتی ہے جو رمضان سے پہلے اور ماہِ مبارک کے دوران اپنی ضرورت سے زیادہ خریداری کرلیتے ہیں۔ خیراتی ادارے اور افراد جو رمضان کے دوران ضرورت مندوں میں راشن تقسیم کرتے ہیں ‘وہ بھی بڑی مقدار میں کھانے پینے کی چیزیں خریدتے ہیں۔ اس وجہ سے بھی تاجروں کو اشیائے خور و نوش کی قیمتیں بڑھانے کا موقع ملتا ہے اور وہ اس موقع سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ رمضان میں قیمتوں کو مستحکم رکھنے اور مستحق شہریوں کو مدد فراہم کرنے کے لیے براہِ راست ٹارگٹڈ سبسڈیز ممدو معاون ثابت ہو سکتی ہیں اور ماہِ صیام کے دوران اُن کے لیے مناسب کھانے کا بندوبست کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ یہ ہدف نقد رقم کی منتقلی کے ذریعے یا خصوصی بچت یا رمضان بازاروں کا اہتمام کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے اعلانات کے باوجود ہنوز مستحقین منتظر ہیں۔ انتظامیہ کو مقررہ نرخوں پر اشیائے ضروریہ کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہیے کہ بازاروں میں دستیاب مصنوعات مناسب معیار کی ہوں۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تاجر ناجائز منافع خوری نہ کر سکیں۔
ویسے تو ذخیرہ اندوزوں پر ہاتھ ڈالنے اور ذخیرہ کی گئی اشیا برآمد کرنے کی ذمہ داری حکومت یعنی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے‘ اور اسی کو یہ ذمہ داری پوری کرنی چاہیے‘ لیکن حکومت اگر اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتی تو پھر بھی صارفین کو خود کو بے بس اور مجبور محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ دراصل ایک اصول اور ایک ضابطے کے تحت ساری طاقت صارفین کے ہاتھوں میں ہے اور وہ ضابطہ ہے طلب اور رسد کا۔ صارفین اپنی طلب کم کر کے مارکیٹ میں مصنوعی قلت کے تحت مہنگائی بڑھانے کے عمل کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ مہنگائی اس وقت بڑھتی ہے جب رسد مصنوعی طور پر کم رکھنے کے باوجود لوگ چیزیں خریدتے رہتے ہیں۔ ذخیرہ اندوز مصنوعی طور پر قلت پیدا کر کے مہنگائی بڑھانے کی کوشش کریں تو صارفین کو بھی چاہیے کہ ایسی اشیا کا بائیکاٹ کر دیں۔ پھر دیکھیں ذخیرہ اندوزوں کے ہوش ٹھکانے آتے ہیں یا نہیں آتے۔
یہ کوئی بہت زیادہ مشکل کام نہیں ہے‘ اس کا تجربہ ماضی میں بڑی کامیابی کے ساتھ کیا جا چکا ہے۔ 2019ء کے رمضان المبارک میں کنزیومرز ایسوسی ایشن آف پاکستان نے کراچی میں رمضان کے پہلے عشرے میں مہنگے پھلوں کی خریداری کی بائیکاٹ مہم شروع کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر عوام کی جانب سے بھرپور مثبت ردِ عمل ظاہر کیا گیا تھا اور یہ مہم کامیاب ہوئی تھی۔ اس مہم کے تیسرے ہی روز پھلوں اور دوسری اشیا کی قیمتیں اعتدال پر آ گئی تھیں۔ پتا نہیں کنزیومرز ایسوسی ایشن آف پاکستان نے اب کیوں چپ کا روزہ رکھ لیا ہے کہ کوئی بولتا ہی نہیں۔ مراکش میں رمضان المبارک کے دوران نرخوں میں بڑے اضافے پر احتجاجاً متعدد بنیادی اشیائے خور و نوش کے بائیکاٹ کی مہم اب بھی جاری ہے۔ یہاں پاکستان میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ صرف تین دن صبر کر لیں۔ صرف چند روز افطاری کھجوروں اور شربت سے کر لیں اور پھر جو بھی پکا ہو وہ کھانا پیٹ بھر کر کھا لیں۔ اس طرح فروٹ کی ضرورت نہیں رہے گی۔ تین دن تک فروٹ کے بائیکاٹ سے گوداموں میں ذخیرہ کیا گیا فروٹ سڑنا شروع ہو جائے گا اور پھر ذخیرہ اندوز تاجر اسے اصل قیمت سے بھی سستا فروخت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس کے لیے سب کو مل کر مہم چلانا ہو گی۔ انفرادی کوششیں ہی اجتماعی کاوشوں کی شکل دھارتی ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ روزے کا مطلب‘ مقصد زیادہ کھانا نہیں ہے بلکہ کم کھا کر اپنے نفس کو قابو میں کرنا ہے۔ اور کچھ نہیں تو روزے کے تقاضے ہی پورے کر لیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں