"IYC" (space) message & send to 7575

Déjà vu … (3)

بھاری مینڈیٹ والی حکومت بنانے اور حکومتیں ختم کرنے والے آئین کے آرٹیکل اٹھاون ٹو بی کے خاتمے کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے دل ہی دل میں سوچا ہوگا کہ اس بار نہ صرف وہ اپنی آئینی میعاد پوری کریں گے بلکہ اپنی مرضی کی مزید قانون سازی کر کے اپنی حکومت کو استحکام اور ملک کو ترقی کی راہ پر بھی گامزن کر لیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام نے بھی اپنا ذہن بنا لیا تھا کہ اس بار ایک مستحکم حکومت قائم ہوئی ہے تو نہ صرف ان کے دیرینہ مسائل حل ہو جائیں گے بلکہ ملک میں سیاسی استحکام کے امکانات بھی پیدا ہوں گے‘ لیکن وائے حسرت کہ یہ تمنا پوری نہ ہو سکی۔ نواز شریف کی دوسری حکومت کے پہلے ہی سال یعنی 1997ء میں اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان‘ جسٹس سجاد علی شاہ نے فیصل آباد میں واٹر اینڈ سینی ٹیشن اتھارٹی (واسا) کے کچھ اہلکاروں کو ہتھکڑیاں لگانے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ہوا یوں تھا کہ فیصل آباد میں واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے چند افسروں پر گھپلوں اور سرکاری فنڈز میں خورد برد کا الزام تھا‘ ان افسران کو وزیراعظم کے حکم پر ہتھکڑی لگا کر گرفتار کر لیا گیا اور یہ مناظر سرکاری ٹی وی پر بھی نشر ہوئے تھے۔ چیف جسٹس کی جانب سے اس کے از خود نوٹس سے حکومت اور عدلیہ میں محاذ آرائی کا آغاز ہو گیا۔ بعد ازاں انسدادِ دہشت گردی کے قانون کے نفاذ سے حکومت اور چیف جسٹس آف پاکستان کے مابین اختلافات مزید گہرے ہو گئے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے اس قانون کے نفاذ کی سختی سے مخالفت کی۔ کہا جاتا ہے کہ اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف دہشت گردی کے خاتمے اور انصاف کی فراہمی کے لیے اینٹی ٹیررازم عدالتیں بنانا چاہتے تھے لیکن جسٹس سجاد علی شاہ ان خصوصی عدالتوں کے قیام کے خلاف تھے۔ اس کے باوجود چیف جسٹس وزیراعظم نواز شریف اور اس وقت کے وزیر قانون خالد انور سے اس سلسلے میں بات چیت کرتے رہے کہ اس قانون میں کون سی شق کو شامل کیا جانا چاہیے اور کون سی شق کو شامل نہیں کرنا چاہیے۔ طویل مشاورت کے باوجود حکومت نے جسٹس سجاد علی شاہ کی تجاویز تسلیم نہ کیں اور 13 جنوری 1997ء کو اپنی مرضی کا ایک قانون منظور کرا لیا۔ اس پر چیف جسٹس کمر کس کے حکومت کے خلاف میدان میں آ گئے۔ یوں ایک سیاسی‘ آئینی اور عدالتی بحران پیدا ہو گیا۔
بعد ازاں چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے 13ویں آئینی ترمیم کو سماعت کے بغیر معطل کر کے پارلیمنٹ کے استحقاق کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور صدر کے اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیار کو بحال کر دیا۔ یہ معاملہ حکومت اور چیف جسٹس کے مابین اختلافات کے اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا۔ بعد میں جو معاملات پیش آئے اور جو واقعات رونما ہوئے وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔
اس بحران کے اثرات ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوئے تھے کہ وزیراعظم اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے مابین اختلافات نے سر اٹھانا شروع کر دیا۔ یہ مسئلہ کارگل کی جنگ کی وجہ سے پیدا ہوا تھا‘ جس کے بارے میں عساکر پاکستان کا موقف تھا کہ وزیراعظم کو اعتماد میں لے کر یہ جنگ شروع کی گئی تھی جبکہ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ انہیں کسی قسم کی کوئی بریفنگ نہیں دی گئی۔ 12 اکتوبر 1999ء کے روزوزیراعظم نواز شریف نے اپنے آئینی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو برطرف کر کے ان کی جگہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ضیا الدین بٹ کو آرمی چیف تعینات کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ وزیراعظم کا یہ اقدام ان کی گرفتاری اور حکومت کی برطرفی کا سبب بنا ۔اُس وقت چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے پرویز مشرف کے ماورائے آئین اقدامات کے خلاف سید ظفر علی شاہ کی آئینی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے مشرف آمریت کو نہ صرف نظریۂ ضرورت کے تحت جائز قرار دیا بلکہ پرویز مشرف کو پارلیمنٹ کے بغیر ہی آئین میں ترامیم کرنے کا اختیار بھی دے دیا‘ حالانکہ پرویز مشرف کے وکلا کی جانب سے ایسی کوئی استدعا ہی نہیں کی گئی تھی۔ اس طرح ایک مستحکم حکومت اور سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کا خواب پاش پاش ہو گیا۔ ایک اور جمہوری دورِ حکومت مکمل نہ ہو سکا اور ایک اور وزیراعظم کو اس کی آئینی میعاد پوری ہونے سے قبل ہی اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا۔
پرویز مشرف کا دور آیا تو قوم نے ایک بار پھر سوچا کہ شاید اب سیاسی استحکام نصیب ہو جائے گا اور ان کے مسائل حل ہو سکیں گے لیکن اس قوم کی قسمت میں ابھی چین نہیں لکھا تھا۔ پرویز مشرف کے اقتدار پر قابض ہونے کے دو سال بعدنائن الیون کا سانحہ پیش آ گیا اور باقی دنیا کی طرح پاکستان اور پاکستانیوں کے خواب بھی ٹوٹ گئے۔ امریکہ میں 11 ستمبر 2001ء کو ہونے والا حملہ دہشت گردی کی وہ کارروائی تھی جس نے دنیا کا منظر نامہ پوری طرح بدل کر رکھ دیا۔ اُس روز نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر‘ پینٹا گون اور پنسلوینیا میں طیاروں سے حملے کیے گئے جن میں تین ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ تباہ ہونے والے چاروں طیاروں میں سوار مسافروں اور جہاز کے عملے کی تعداد 246 تھی جن میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچ سکا۔ ان حملوں میں مرنے والے افراد کا تعلق77 مختلف ممالک سے تھا۔ حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا عندیہ دے دیا۔ امریکہ نے چند روز بعد القاعدہ کو ان حملوں کا ذمہ دار قرار دے کر افغانستان سے القاعدہ کی لیڈرشپ کی حوالگی کا مطالبہ کیا اور پھر نائن الیون کے بعد ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں افغانستان پر حملہ کر دیا گیا۔ آپریشن اینڈیورنگ فریڈم (Operation Enduring Freedom) کے نام سے افغانستان پر امریکی حملوں کا آغاز 7 اکتوبر 2001ء کو ہوا تھا۔
نائن الیون حملوں کے بعد افغانستان پر امریکی حملوں کے نتیجے میں شروع ہونے والی وار آن ٹیرر میں پاکستان امریکہ کا سب سے اہم اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بن کر سامنے آیا۔ صدر پرویز مشرف نے جہاں افغان طالبان کے خلاف امریکی اور نیٹو سپلائی کے لیے پاکستان کی سرحدیں کھول دی تھیں‘ وہیں قوم کو بتائے بغیر کئی پاکستانی ہوائی اڈے اور دیگر عسکری سہولتیں بھی امریکہ کو فراہم کر دی تھیں۔امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے فرنٹ لائن سٹیٹ بننے کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو جنگ سرحد کے اُس پار افغانستان میں لڑی جا رہی تھی اس کی چنگاریاں پاکستان میں بھی گرنے لگیں۔ افغانستان میں افغان طالبان کی حکومت ختم کر دی گئی‘ وہی اُس وقت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے حملوں کے خلاف مزاحم تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ پاکستان اس جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ بن گیا ہے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے حملوں کیلئے بیسز اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کر رہا ہے تو انہوں نے پاکستان میں موجود اپنے حامیوں کے جذبات کو ابھارا جس کا نتیجہ ٹی ٹی پی کے قیام کی صورت میں سامنے آیا۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پاکستان اور افغانستان میں قائم ایک دہشت گرد تنظیم ہے جو 2007ء میں تشکیل دی گئی تھی۔ ٹی ٹی پی نے پاکستانی اور امریکی مفادات کے خلاف متعدد دہشت گردانہ کارروائیاں کیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 80 ہزار سے زائد سویلین اور فوجی شہید ہوئے۔ ان حملوں کی وجہ سے انفراسٹرکچر کی تباہی اور مالی حوالے سے جو نقصانات ہوئے وہ اس پر مستزاد۔ یکم ستمبر 2010ء کو امریکی محکمہ خارجہ نے امیگریشن کے سیکشن 219 کے تحت ٹی ٹی پی کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔ ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کی وجہ سے پاکستان کو اپنے کئی علاقوں میں متعدد مسلح آپریشن کرنا پڑے۔ یوں مشرف دور میں ایک پُرامن اور سیاسی طور پر مستحکم پاکستان کے قیام کا خواب بکھر کر رہ گیا۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں