"IYC" (space) message & send to 7575

تیسری عالمی جنگ ہو گی؟ …(4)

آپ نے وہ قصہ تو سنا ہی ہو گا۔ سخت سردی کا موسم تھا۔ مُلا نصیرالدین گھر میں گہری نیند سوئے ہوئے تھے۔ آدھی رات کے وقت دو آدمی مُلا کے گھر کے دروازے کے قریب جھگڑنا شروع ہو گئے۔ ان کی اونچی آوازوں سے مُلا کی آنکھ کھل گئی۔ مُلا نے سوچا کہ چل کر انہیں منع کیا جائے تاکہ ان کا مسئلہ بھی حل ہو جائے اور دوسروں کی نیند میں خلل بھی نہ پڑے‘ چنانچہ وہ اٹھے‘ ایک کمبل اپنے اوپر لپیٹا اور باہر نکل گئے۔ باہر نکل کر وہ جھگڑنے والوں کے قریب گئے اور دونوں کو سمجھانے لگے۔ اسی دوران ایک آدمی ان کا کمبل چھین کر نو دو گیارہ ہو گیا۔ دوسرا بھی اس کے پیچھے بھاگ گیا۔ مُلا سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے گھر میں واپس داخل ہوئے تو اس دوران ان کی بیوی جاگ چکی تھی۔ بیوی نے جھگڑے کی وجہ پوچھی تو مُلا نصیرالدین نے منہ لٹکا کر جواب دیا: جھگڑے کی وجہ میرا کمبل تھا‘ جونہی انہوں نے میرا کمبل ہتھیایا‘ جھگڑا فوراً ختم ہو گیا۔
امریکہ اور یوکرین کے مابین اس وقت جو جھگڑا چل رہا ہے اور جس کو لے کر گزشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کے مابین لفظوں کی جنگ ہوئی تھی اس کی جڑ امریکہ یوکرین معدنیات معاہدہ ہے جس کی شرائط پر اتفاق ہو چکا تھا لیکن پھر امریکی صدر نے یوکرین کے صدر کو وائٹ ہاؤس بلا کر مزید دباؤ میں لانے کی کوشش کی تو زیلنسکی نے سیدھے سیدھے جواب دیے اور گفتگو تلخ کلامی میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔ یہ ایک ایسی ڈیل ہے جس میں یوکرین امریکہ کی حمایت چاہتا ہے جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ یوکرین کو روس کے خلاف حالیہ جنگ میں اربوں ڈالر کی امداد کے عوض قیمتی معدنیات میں حصہ چاہتے ہیں۔ یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ یوکرین اور روس کے مابین جنگ کا فوری خاتمہ چاہتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے صدر زیلنسکی کو ایک غیر مقبول آمر قرار دیا تھا۔ گزشتہ ماہ صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ عسکری اور معاشی مدد کی مد میں اب تک یوکرین کو 500 ارب ڈالر کی امداد دے چکا ہے اور یہ کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ کو اس کے بدلے یوکرین میں معدنیات کے ذخائر تک رسائی دی جائے۔ ٹرمپ سے جھگڑے کے باوجود یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے اتوار کے روز لندن میں یورپی رہنماؤں کے سربراہی اجلاس کے بعد برطانوی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح کیا کہ یوکرین امریکہ کے ساتھ معدنیات کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس آمادگی کے باوجود آج وائٹ ہاؤس کے ایک عہدے دار کے حوالے سے یہ خبر سامنے آئی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کے لیے تمام فوجی امداد روک دی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنے والے وقت میں یہ تنازع مزید شدت اختیار کرنے والا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شروع کی گئی ٹیرف وار بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ شدید ہوتی جا رہی ہے۔ چین‘ کینیڈا اور میکسیکو سے درآمدہ اشیا پر ٹیرف عائد کرنے سے امریکہ کو کم و بیش 100 ارب ڈالر کی اضافی آمدنی ہو گی لیکن اس کے باقی دنیا پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ جن ممالک کی پروڈکٹس پر ٹیرف عائد کیے گئے ہیں وہ ظاہر ہے خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ ان تینوں ممالک کی جانب سے جوابی اقدامات کے بعد امریکہ میں مہنگائی کا ایک نیا اور شدید طوفان پیدا ہونے کا خدشہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں ڈالر کی قدر میں بھی کمی ہو گی اور عالمی منڈی میں سونے اور چاندی کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹیرف کی یہ جنگ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کرے گی۔ مغربی ممالک کے کچھ سیاستدانوں کا خیال ہے کہ ٹیرف وار نے موجودہ عالمی نظام کے لیے بہت بڑا خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ یہ خطرہ کیا ہے؟ آیا یہ معاشی خطرہ ہے یا اسے حربی خطرہ قرار دیا جانا چاہیے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی طرح کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اس ساری تمہید کے بعد اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ یوکرین کی جنگ‘ یوکرین اور امریکہ کے مابین یوکرین کی معدنیات پر معاہدے کے حوالے سے پیدا ہونے والے اختلافات اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیرف وار ایسے معاملات ہیں جو اگر مزید شدت اختیار کر گئے تو تیسری عالمی جنگ کی چنگاری بھڑک سکتی ہے۔ اگر ان ایشوز پر جنگ ہوئی تو یہ جنگ امریکہ اور اس کے پڑوسی ممالک خصوصاً کینیڈا‘ میکسیکو اور لاطینی امریکہ کے ممالک کے مابین ہو گی جس میں بعد ازاں یورپی یونین بھی کود سکتی ہے اور اگر یورپی یونین کودی تو لا محالہ روس کو بھی آگے بڑھنے کا موقع مل سکتا ہے۔ چین اگرچہ امریکہ سے دور ہے لیکن ظاہر ہے کہ وہ بھی خود کو جنگی معاملات سے الگ تھلگ اور دور نہیں رکھ پائے گا۔ یوں ایک مقامی ایشو ایک عالمی جنگ کا سبب بن جائے گا۔
روئے ارض پر دوسرا مقام جہاں سے تیسری عالمی جنگ کی چنگاری بھڑک سکتی ہے‘ مشرق وسطیٰ اور مشرق وسطیٰ میں تخصیص کے ساتھ فلسطین اور اس سے ملحق ممالک اور علاقے ہیں۔ فلسطین میں صورتحال ایک بار پھر بھڑکتی (Volatile ہوتی) جا رہی ہے۔ جنگ بندی کے فیصلے سے کچھ حوصلہ بندھا تھا کہ حالات ٹھیک ہو جائیں گے لیکن اسرائیل کی جانب سے سیز فائر کے پہلے مرحلے میں توسیع پر اصرار اور حماس کی جانب سے اس توسیع سے انکار کے بعد حالات دوبارہ کشیدگی کی طرف جا رہے ہیں۔ حماس کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ شروع کیا جائے تاکہ مستقل امن قائم ہو سکے۔ پہلے مرحلے میں توسیع کروا کر اسرائیل جنگ چھیڑنے کا امکان کھلا رکھنا چاہتا ہے۔ پہلے ہی حالات یہ ہیں کہ اسرائیل جنگ بندی معاہدے کی پوری طرح پاس داری نہیں کر رہا اور جب اس کا جی چاہتا ہے‘ غزہ کے علاقوں پر بمباری شروع کر دیتا ہے۔ ادھر عرب رہنماؤں نے غزہ کے لیے مصر کی تعمیرِ نو کا منصوبہ منظور کر لیا ہے جس پر 53 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔ اس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 'مشرق وسطیٰ ریویرا‘ (Riviera of the Middle East) وژن کے برعکس فلسطینیوں کی عرب ممالک میں آبادکاری سے گریز کیا جائے گا۔ کیا اسرائیل اس منصوبے کو تسلیم کر لے گا؟ کیا امریکی صدر ٹرمپ اپنے غزہ پر قبضے کے منصوبے سے دست کش ہو جائیں گے؟ اور عرب ممالک غزہ کی تعمیرِ نو کے مصری منصوبے پر عمل درآمد کو یقینی بنا سکیں گے؟ یہی وہ سوال ہیں جن کے جوابات میں اس سوال کا جواب مضمر ہے کہ حماس اسرائیل تنازع کی وجہ سے تیسری عالمی جنگ کے شعلے بھڑک سکتے ہیں یا نہیں۔
پہلے بھی عرض کیا تھا کہ جنگ کوئی آسان کام نہیں۔ جنگ پر بھاری وسائل خرچ ہوتے ہیں۔ جن ممالک کے درمیان جنگ ہوتی ہے ان کی معیشتیں اگر مضبوط نہ ہوں تو انہیں سنبھلنے میں کئی سال بلکہ کئی دہائیاں لگ جاتی ہیں۔ اور متاثر صرف دو ممالک ہی نہیں ہوتے بلکہ اس کے پوری دنیا پر اثرات پڑتے ہیں۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یوکرین‘ روس جنگ کے پوری دنیا پر اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اگر کوئی نئی عالمی جنگ چھڑی تو کیا کیا تباہیاں ہوں گی‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔(ختم)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں