کراچی کی نیپا چورنگی کے قریب مین ہول میں گرنے والا تین سالہ بچہ اب قبر میں ابدی نیند سو رہا ہے۔ وہ اتوار کے روز رات 11بجے کے قریب ایک کھلے مین ہول میں گر گیا تھا۔ شہری انتظامیہ کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ بچے کی لاش تقریباً 15گھنٹے بعد نالے سے ملی اور وہ بھی جائے وقوعہ سے ایک کلو میٹر دور۔ وقوعہ کے دوسرے روز مشتعل افراد نے اس واقعے کے خلاف احتجاج کیا اور سڑکوں پر ٹائر جلا کر ٹریفک معطل کر دی۔ غلطی کس کی ہے؟ والدین کی یا ان کی جن کی وجہ سے مین ہول کھلا رہ گیا تھا؟ اس کا شاید کوئی فائدہ نہیں کیونکہ بچہ تو جا چکا‘ جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا۔ لیکن وجہ معلوم کرنا مزید بچوں اور شہریوں کے مین ہولوں میں گر کر ہلاک ہونے کے عمل کو روکنے میں ممد ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے وجہ معلوم کر ہی لیتے ہیں۔
زیر زمین سیوریج سسٹم بنانے سے شہروں میں نکاسی آب کا مسئلہ تو حل ہو گیا لیکن اس کی وجہ سے کچھ اور طرح کے مسائل نے جنم لیا جو قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بن رہے ہیں۔ ایک تو ان مین ہولز کی صفائی کے دوران ہر سال کئی سیوریج ورکر زہریلی گیس اور دوسرے حادثات کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ دوسرا متعدد افراد ہر سال کھلے مین ہولز میں گر کر زخمی یا جاں بحق ہو جاتے ہیں جیسے گزشتہ دنوں کراچی میں تین سال کا بچہ ہوا۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق کراچی میں 2024ء میں کھلے مین ہولز میں گرنے سے 19 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ امسال یعنی 2025ء میں کراچی میں گٹر میں گرنے والوں کی تعداد 23 ہو چکی ہے۔ اگر صرف ایک کراچی شہر میں مین ہولز کے حادثات میں ہلاکتوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک بھر میں ایسے حادثات میں جانوں سے ہاتھ دھونے والوں کی تعداد کیا ہو گی۔ سابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے شاید درست ہی کہا ہے کہ المیہ یہ ہے کہ کھلے گٹر میں صرف ایک معصوم بچہ نہیں گرا بلکہ پاکستان کا پورا جمہوری نظام ہی اوندھے منہ اسی گٹر میں پڑا ہے‘ جہاں نہ انسان کی عزت محفوظ ہے‘ نہ جان و مال کی قیمت باقی۔ یہ حادثہ نہیں گلے سڑے نظام کی ناکامی کی صدائیں ہیں جس کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔
کراچی میں سیوریج لائنوں کی لمبائی 567کلومیٹر ہے اور ان میں بنے مین ہولز کی تعداد ڈھائی لاکھ کے قریب ہے‘ اور ان میں سے اچھی خاصی بڑی تعداد میں مین ہول ہر وقت کھلے رہتے ہیں۔ صرف گزشتہ 40 دنوں کے دوران کراچی میں گٹر کے ڈھکن نہ ہونے کی 1500 سے زائد شکایت موصول ہوئیں۔ کھلے مین ہولز کی تعداد اور شرح شہر کے کم اور غیر ترقی یافتہ علاقوں میں زیادہ ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ امریکہ میں دو کروڑ سے زیادہ مین ہولز ہیں۔ لوگوں کو اتنی بڑی تعداد میں موجود موت کے کنووں سے بچانا ایک مشکل کام ہے لیکن امریکہ نے ٹیکنالوجی کو بروئے کار لا کر اس مسئلے کا حل نکال لیا ہے۔ امریکہ میں بھی مین ہول کے ڈھکن وغیرہ چوری ہوتے ہیں اور وہاں بھی چوری کرنے والے منشیات کے عادی افراد ہی ہوتے ہیں۔ یا پھر جب شدید طوفان آتے ہیں تو مین ہولوں کے ڈھکن تیز ہوا کے ساتھ اڑ کر یا بارشی پانی کے تیز بہاؤ کے ساتھ بہہ جاتے ہیں۔ لیکن امریکی شہروں کی انتظامیہ نے اس مسئلے کا حل سکیننگ کے ذریعے نکالا ہے۔ سکیننگ سسٹم کا استعمال مین ہول کی دیواروں کی تصویر کشی اور نقشہ بنانے کے لیے کیا جاتا ہے تاکہ اگر مین ہولوں کی حالت میں کوئی تبدیلی واقع ہو تو فوراً پتا چل جائے اور تدارک کیا جا سکے۔ وہاں جو لوگ مین ہولز کی صفائی پر متعین ہیں ان کی دیکھ بھال اور حفاظت کا بھی مناسب انتظام کیا جاتا ہے۔ کیا ایسے انتظامات ہم نہیں کر سکتے؟
جیسا کہ پہلے عرض کیا‘ اعداد و شمار کے مطابق 2024ء میں کراچی بھر میں کھلے مین ہولز میں گرنے سے 19اموات ہوئیں۔ متاثرین میں سے بہت سے ایسے بچے بھی شامل ہیں جو اپنے گھروں کے باہر کھلے سیوریج ہولز کے قریب کھیلتے ہیں اور کھیلتے کھیلتے مین ہول میں گر جاتے ہیں۔ ان کے بڑے اکثر دیکھتے ہیں کہ ان کے بچے جہاں کھیل رہے وہاں مین ہول قریب ہیں اور وہ جانتے ہوتے ہیں کہ حادثہ ہو سکتا ہے‘ اور پھر حادثات ہو بھی جاتے ہیں۔ ان بدقسمت بچوں کے والدین اور یہاں تک کہ پڑوسیوں نے بھی کبھی یہ نہیں دیکھا کہ یہ بچے کھلے مین ہول کے اتنے قریب کھیل رہے ہیں تو مین ہول کو اپنے طور پر ہی ڈھانپ دیں یا بچوں کو ان کے اتنے قریب کھیلنے سے منع کر دیں۔ کھلے مین ہولوں کے قریب بچوں کو کھیلنے دینا تو بہرحال والدین کی ہی غلطی ہے۔
شہری حکومتیں دعویٰ کرتی ہیں کہ کھلے نالوں اور مین ہولز کو باقاعدگی سے ڈھانپا جاتا ہے لیکن ان کے ڈھکن چوری ہو جاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ مجرم کون ہے؟ اس کے جواب کے طور پر زیادہ تر منشیات کے عادی افراد کی طرف انگلی اٹھتی ہے جو پلوں اور انڈر پاسز کے نیچے پڑے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ پہلے مین ہولوں اور گٹروں کے کور لوہے کے ہوتے تھے لہٰذا جرائم پیشہ افراد ان کو چوری کر لیتے تھے۔ مگر پھر کنکریٹ کے بھاری ڈھکن بنائے گئے جن کو چرانا آسان نہ تھا کیونکہ وہ بہت بھاری ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود کھلے مین ہولز کا مسئلہ حل نہ ہو سکا۔ تو کیا متعلقہ ادارے مین ہول پوری طرح کور نہیں کرتے جس کی وجہ سے یہ حادثات پیش آتے ہیں؟ ہوتا یہ ہے کہ ایسے کسی بھی سانحے کے بعد ادارے اور افراد ایک دوسرے کی طرف انگلیاں اٹھانا شروع کر دیتے ہیں اور اصل مسئلہ کہیں بیچ میں ہی دب جاتا ہے۔
میرا خیال یہ ہے کہ موت کے ان کنووں کو بند کیا جا سکتا ہے اگر شہریوں اور شہری انتظامیہ‘ دونوں کے مابین ایک رابطہ اور تعلق قائم ہو جائے۔ شہری جہاں دیکھیں کہ مین ہول کھلا ہے فوراً شہری حکومت کو‘ بلدیاتی اداروں کو مطلع کریں‘ اور شہری انتظامیہ کا بھی فرض بنتا ہے کہ جب ایک شکایت موصول ہو تو اس کو دور کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔ کھلے مین ہول شہریوں کی جان کے لیے براہِ راست کے ساتھ ساتھ بالواسطہ طور پر بھی خطرہ ہیں۔ مین ہول کھلے ہوں تو گلیوں اور سڑکوں پر پڑا کچرا اور سالڈ ویسٹ بھی ان میں گر جاتا ہے اور اس سے ایک تو ان گٹروں کی گنجائش کم کرنے کا باعث بنتا ہے‘ دوسرا سالڈ ویسٹ گرنے سے گٹر اور مین ہول بند ہو جاتے ہیں اور جب بارش ہو تو جمع ہونے والا پانی ڈرین نہیں ہو پاتا اور سڑکوں پر کھڑا ہو جاتا ہے جس سے وہاں سے گزرنے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میری نظر میں اس مسئلے کا ایک اور حل بھی ہے۔ یہ کہ ملک بھر میں بلدیاتی ادارے قائم کر دیے جائیں کیونکہ مقامی یعنی محلے کی سطح کے مسائل یہی ادارے حل کر سکتے ہیں۔ فرض کریں کہیں کوئی گٹر یا مین ہول کھلا ہے تو اہلِ علاقہ فوری طور پر اپنے کونسلر کے پاس جائیں گے اور کونسلر صاحب دستی کھلے مین ہول کو بند کرا دیں گے۔ چنانچہ اگر صوبائی حکومتوں سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو پا رہا تو مقامی حکومتوں کے ذریعے حل ہو سکتا ہے۔