امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ روس اور یوکرین کے مابین جاری جنگ کے خاتمے کے لیے معاہدہ طے پانے کے قریب ہے۔ امن منصوبے پر بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے‘ تاہم کچھ حساس نکات پر مزید بات چیت کی ضرورت ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہوں نے صرف نو ماہ میں آٹھ جنگیں رکوائیں‘ اور اب روس یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے بھی حتمی کوشش کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے یوکرین کو امن معاہدہ قبول کرنے کے لیے 27نومبر کی ڈیڈ لائن دے رکھی تھی لیکن بعد میں کہا کہ میرے پاس وقت کی کوئی حد نہیں‘ میرے لیے واحد ڈیڈ لائن وہ ہے جب یہ جنگ ختم ہو جائے۔ جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تو 27نومبر کا دن ہو گا اور وثوق کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ تب تک یوکرین جنگ ختم کرانے کے معاہدے پر مکمل اتفاقِ رائے ہو چکا ہو گا۔
آپ نے کوئلوں کی دلالی والا محاورہ تو ضرور سنا ہو گا۔ اگر اب تک آپ کو اس محاورے کی حقیقت کا ٹھیک طور پر ادراک نہیں ہوا تو یوکرین روس جنگ بند کرانے کے حوالے سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ معاہدے پر ایک نظر ڈال لیں‘ سب کچھ واضح ہو جائے گا کہ کیا ہوا‘ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ یوکرین کی جنگ بند کرانے کے سلسلے میں جو معاہدہ پیش کیا گیا ہے اس کی چیدہ شقیں کیا ہیں اور کل 28نکات کے مسودے میں سے کون سے نکات یوکرین کے لیے قابلِ قبول ہو سکتے ہیں اور کون سے نہیں۔
منصوبے میں کہا گیا ہے کہ یوکرین کی خود مختاری کی تصدیق کی جائے گی اور روس‘ یوکرین اور یورپ کے درمیان عدم جارحیت کا معاہدہ ہو گا۔ اس کے ساتھ یوکرین کے لیے سکیورٹی ضمانتیں دینے اور سو دنوں کے اندر انتخابات کرانے کی شق شامل ہے‘ لیکن یہ واضح ہے کہ یہ ضمانتیں نیٹو کے آرٹیکل فائیو جیسی واضح ضمانت کے برابر نہیں جس میں ایک ملک پر حملہ سب پر حملہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ بھی کہ اگر روس دوبارہ حملہ کرے گا تو ایک مشترکہ اور مضبوط فوجی ردِعمل دیا جائے گا۔ ایسی صورت میں روس پر پابندیاں بحال کرنے اور معاہدہ ختم کرنے کی شق بھی موجود ہے۔ ایک تجویز یہ ہے کہ یوکرینی فوج دونیتسک اوبلاست (Donetsk Oblast) کے اس حصے سے پیچھے ہٹ جائے گی جو اس وقت اس کے کنٹرول میں ہے اور یہ علاقہ ایک غیرجانبدار غیرفوجی علاقہ قرار پائے گا یعنی بفر زون سمجھا جائے گا‘ جسے بین الاقوامی طور پر روسی فیڈریشن کا علاقہ تسلیم کیا جائے گا۔ روسی افواج اس غیر فوجی علاقے میں داخل نہیں ہوں گی۔ یوکرین کا واضح مؤقف ہے کہ وہ روس کے قبضے والے علاقوں کو کسی صورت روسی نہیں مانے گا اور نہ ہی اپنی فوج کے سائز یا دفاعی صلاحیت پر کوئی پابندی قبول کرے گا۔ امن تجاویز میں یہ بھی شامل ہے کہ یوکرین اپنے آئین میں یہ ترمیم کرے گا کہ وہ نیٹو میں شامل نہیں ہو گا اور نیٹو بھی اپنے قوانین میں یہ شق شامل کرے گا کہ مستقبل میں یوکرین کو رکنیت نہیں دی جائے گی۔ ساتھ ہی یوکرین یورپی یونین میں شمولیت کا اہل ہو گا اور اس دوران اسے عارضی طور پر یورپی مارکیٹ تک ترجیحی رسائی حاصل ہو گی۔ مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیٹو یوکرین میں فوج نہیں تعینات کرے گا‘ یورپی لڑاکا طیارے پولینڈ میں ہوں گے‘ اور کیف کو غیر جوہری ریاست رہنے کا وعدہ کرنا ہو گا۔
یوکرین کے خلاف جنگ شروع کرتے ہوئے صدر پوتن نے مغرب کو خبردار کیا تھا کہ وہ یوکرین پر روس کی سرخ لکیریں عبور نہ کرے۔ وہ سرخ لکیریں کیا ہیں؟ ان میں سے ایک نیٹو کی مشرق کی جانب مزید توسیع ہے‘ جس میں یوکرین اور جارجیا کے ممالک شامل ہیں۔ روس یہ بھی چاہتا تھا کہ نیٹو مشرقی یورپ میں فوجی سرگرمیاں ترک کر دے‘ جس کا مطلب یہ ہو گا کہ پولینڈ‘ ایسٹونیا‘ لٹویا اور لتھوینیا سے اپنے لڑاکا دستوں کو نکال لے‘ اور پولینڈ اور رومانیہ جیسے ممالک میں اپنے میزائل نصب نہ کرے۔ دوسرے لفظوں میں روس یہ چاہتا تھا اور چاہتا ہے کہ نیٹو اپنی 1997ء والی پوزیشن پر آ جائے۔
آج جبکہ یوکرین روس جنگ کو ختم کرانے کے لیے کوششیں ہو رہی ہیں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ امن منصوبے پر عمل درآمد کے لیے اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو اہم ترین سوال یہ ہے کہ پونے چار سال سے جاری اس جنگ کے ‘ جس میں یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کے مطابق یوکرین کے 43 ہزار فوجی جنگ میں ہلاک جبکہ تین لاکھ 70 ہزار افراد زخمی ہو چکے ہیں‘ کیا نتائج نکلے ہیں؟ اس جنگ کی وجہ سے عالمی معیشت پر جو اثرات مرتب ہوئے وہ اس پر مستزاد۔ اتنا نقصان کرانے کے بعد بھی اگر یوکرین کو یہ معاہدہ ہی کرنا تھا تو بہتر ہوتا کہ وہ اتنی تباہی مچنے سے پہلے ہی روسی صدر کی بات مان لیتا۔ یوکرین کسی نہ کسی حد تک پہلے بھی یورپی یونین کا حصہ تھا‘ اصل جھگڑا نیٹو کا حصہ بننے پر تھا‘ یوکرین وہ تو نہیں بن سکا بلکہ اب اس سے یہ بھی تسلیم کرایا جا رہا ہے کہ وہ آئندہ نیٹو کا حصہ بننے کے بارے میں سوچے گا بھی نہیں۔ وہی بات کہ دوسروں کی شہ پر‘ ان کی لڑائی لڑنے کا نتیجہ کیا نکلا ہے؟
دوسری جانب روس اس جنگ میں ایک طرح سے کامیابی اور فتح کے قریب ہے تو کیا روسی صدر ولادیمیر پوتن یہ چاہیں گے کہ اس مرحلے پر وہ جنگ بندی پر راضی ہو جائیں؟ جنوری 2025ء میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین اور روس کے مابین جنگ کے خاتمے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا تھا اور ساتھ ہی یہ شکایت کی تھی کہ کیف اسے ملنے والی امریکی فوجی اور مالی مدد کے بدلے خاطر خواہ معاوضہ فراہم نہیں کر رہا ۔ تب انہوں نے اس بات پر بھی اصرار کیا تھا کہ واشنگٹن کو اس کے بدلے میں مزید رقم ملنا چاہیے۔ یہ رقم امریکہ نے یوکرین کے ساتھ معدنیات کا معاہدہ کر کے حاصل کی۔ سوال وہی ہے کہ اس سارے عمل میں یوکرین کے ہاتھ کیا آیا؟ اسی لیے تو میں نے اس جنگ کو یوکرین کے لیے کوئلوں کی دلالی کا نام دیا ہے جس میں نقصان صرف اور صرف یوکرین کا ہوا ہے۔ نہ یورپ کا‘ نہ امریکہ کا‘ نہ نیٹو کا اور نہ ہی روس کا۔ وہ علاقے بھی یوکرین کے ہاتھ سے جا رہے ہیں جن کی حفاظت کے لیے یہ جنگ لڑی گئی۔ یوکرین نیٹو کا رُکن بھی نہیں بن سکے اور جو جانی‘ مالی و معاشی نقصان ہوا اس کی تو کوئی حد ہی نہیں۔