"IYC" (space) message & send to 7575

نریندر مودی کے بکھرتے خواب

لوگ بھی کیسے کیسے خواب دیکھتے ہیں جن کی نہ تو تعبیر ممکن ہوتی ہے اور نہ ہی زمینی حقائق ان خوابوں کے متشکل ہونے کی غمازی کرتے ہیں۔ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ بھی آج کل بڑے بڑے خواب دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج سندھ کی سرزمین بھارت کا حصہ نہیں ہے لیکن تہذیبی طور پر سندھ ہمیشہ سے ہندوستان کا حصہ رہا ہے اور اس کا حصہ رہے گا۔ جہاں تک زمین کی بات ہے تو سرحدیں بدل بھی سکتی ہیں‘ کیا پتا کل کو سندھ پھر سے انڈیا میں واپس آ جائے۔ پاکستان نے راج ناتھ سنگھ کے اس بیان کو غیر حقیقی‘ اشتعال انگیز اور خطرناک حد تک تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔ دفترِ خارجہ کے ترجمان کے مطابق بھارتی وزیر دفاع کا یہ بیان اُس ہندوتوا سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو بین الاقوامی قوانین‘ تسلیم شدہ سرحدوں کی حرمت اور ریاستی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی کا پرچار کرتی ہے۔
راج ناتھ سنگھ نے یہ بیان معرکہ حق میں بھارت کے گیدڑ کُٹ کھانے کے چھ ماہ 14 دن بعد اور بھارتی سموسے یعنی تیجس ایئر کرافٹ کی دبئی ایئر شو میں تباہی کے محض تین دن بعد دیا ہے‘ سو یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اس بیان کا مقصد کیا ہے۔ دراصل معرکہ حق میں بھارت کو پاکستان کے ہاتھوں جو مار پڑی اس نے بھارتی حکمرانوں کے بہت سے خواب بکھیر کر رکھ دیے ہیں۔ بالکل اسی طرح بھارت کے اپنے تیارہ کردہ طیاروں کی تباہی نے یہ جہاز دوسرے ممالک کو بیچ کر پیسے کمانے کا مودی سرکار کا خواب بھی پاش پاش کر دیا ہے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ آرمینیا نے بھارتی سموسوں (تیجس طیاروں) کی خریداری سے انکار کر دیا ہے۔ دبئی ایئر شو میں طیارہ گرنے کے بعد آرمینیا نے 1.2 ارب ڈالر کے 12 تیجس طیارے خریدنے کا اپنا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔
اس سے قبل بھارت کا ایک خواب بنگلہ دیشی عوام نے گزشتہ برس اس وقت بکھیر کر رکھ دیا تھا جب انہوں نے اپنے احتجاجی مظاہروں کے ذریعے بھارتی کٹھ پتلی وزیراعظم حسینہ واجد کو مستعفی ہو کر ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ حسینہ واجد اِس وقت بھارت کی پناہ میں ہیں اور حال ہی میں ان کا بھی ایک خواب ٹوٹ گیا ہے۔ ہوا یہ ہے کہ 17 نومبر بروز پیر بنگلہ دیش کی ایک اعلیٰ عدالت نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب ثابت ہونے پر سزائے موت کا حکم سنایا ہے۔ یوں حسینہ واجد کا یہ خواب بکھر گیا کہ وہ کبھی اپنے وطن واپس لوٹ کر پھر سے اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہو سکیں گی۔ حسینہ واجد کا یہ خواب بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ہے کہ وہ کبھی بنگلہ دیش سے اپنی عوام سے لوٹی گئی دولت بھارت منگوا کر اس پہ عیش کریں گی کیونکہ چار روز قبل ہی بنگلہ دیشی حکام نے شیخ حسینہ واجدکے بینک لاکرز سے 13 لاکھ ڈالر (تقریباً 37 کروڑ پاکستانی روپے) مالیت کا سونا ضبط کیا ہے۔ گزشتہ ستمبر کے بعد اب نومبر کا مہینہ بھی بھارت اور حسینہ واجد‘ دونوں کے لیے ستمگر ثابت ہوا ہے۔
راج ناتھ سنگھ نے سندھ کے حوالے سے جو کہا ہے اب اس کی حقیقت بھی جان لیں۔ بھارت کی کل آبادی ایک ارب 40 کروڑ نفوس سے زائد ہے۔ یہ دنیا میں کسی بھی ملک کی سب سے بڑی آبادی ہے اور ان ایک ارب چالیس کروڑ میں سے ایک ارب افراد صرف اتنا کما پاتے ہیں کہ اپنی روزمرہ کی بنیادی ضروریات پوری کر سکیں۔ اتنی بڑی آبادی کے پاس بنیادی ضروریاتِ زندگی کے علاوہ کچھ خرچ کرنے کی مالی حیثیت نہیں۔ بھارت میں دولت کا ارتکاز ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ غریب غریب تر ہوتے جا رہے ہیں اور امیر امیر تر۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کے 10 فیصد لوگوں کے پاس کل ملکی دولت کا تقریباً 57.7 فیصد ہے۔ آکسفیم کی ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں سب سے زیادہ غریب بھارت میں بستے ہیں جن کی تعداد تقریباً 23 کروڑ بتائی گئی ہے۔ بھارتی حکمران دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعوے کرتے نہیں تھکتے لیکن حالت یہ ہے کہ ہندتوا کا مست ہاتھی تمام اقلیتوں کو بری طرح روند رہا ہے۔ کیا کوئی بھی اس غربت اور مذہبی شدت پسندی کا سامنا کرنے یا اس کا حصہ بننے کے لیے بھارت کے ساتھ الحاق کا سوچ سکتا ہے؟ ہرزہ سرائی کرتے شرم تم کو مگر نہیں آتی۔
اپنے دشمنوں کی سالمیت کے خلاف منصوبے بنانے والا بھارت خود اس وقت ٹوٹنے کے خطرے سے دوچار ہے۔ بھارت میں اس وقت علیحدگی کی تحریکیں 20 ریاستوں میں چل رہی ہیں۔ اگر یہ تحریکیں کامیاب ہو جائیں تو بھارت کم از کم 20 ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ بھارت کے مختلف حصوں میں اس وقت 67 آزادی اور علیحدگی پسندی کی تنظیمیں سرگرم ہیں‘ جو بھارتی حکومت کی ناانصافی‘ اقلیتوں کے استحصال اور جبری قبضے کے خلاف عوام کے رد عمل کی غماز ہیں۔ بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں ناگالینڈ‘ منی پور‘ تری پورہ اور آسام میں آزادی کی تحریکوں نے ایک بار پھر زور پکڑ لیا ہے۔ ناگالینڈ نیشنلسٹ موومنٹ کے سربراہ تھونگالینگ میووہ (Thuingaleng Muivah) نے اپنے ایک حالیہ بیان میں واضح کیا ہے کہ ان کی آزادی کی جدوجہد کسی صورت نہیں رکے گی۔ انہوں نے بھارتی حکومت اور فوج کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر وزیراعظم مودی تصادم چاہتے ہیں تو وہ تیار ہیں کیونکہ ناگالینڈ کے عوام کسی قیمت پر بھارت کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں۔ منی پور اور آسام میں بھی علیحدگی پسندوں کی سرگرمیاں تیز ہو چکی ہیں۔ جونا گڑھ سمیت دیگر کئی ریاستیں بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتیں۔ مقبوضہ کشمیر کا معاملہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ایسے میں بھارت کو توسیع پسندی کے خواب چھوڑ کر حقیقت کی دنیا کا سامنا کرنا چاہیے۔
مودی اپنے ملک کی تمام ریاستوں کو تو اپنے ساتھ یکجا نہیں رکھ پا رہے لیکن انہیں پاکستان کے عوام کا بہت خیال ہے۔ یہ سب دکھاوے اور بہکاوے ہیں۔ مکر ہے‘ فریب ہے۔ مودی کو بُچر آف گجرات کہا جاتا تھا‘ جس نے بھارتی ریاست گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کو خون میں نہلا دیا۔ اب انہیں بھارت کا گوربا چوف بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ آپ گوربا چوف کو جانتے ہیں؟ وہی گورباچوف جس کی پالیسیوں کی وجہ سے سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا۔میخائل سرگئی وچ گورباچوف (Mikhail Sergeyevich Gorbachev) 11 مارچ 1985ء کو سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے تھے۔ سوویت یونین میں پولٹ بیورو (Politburo) مرکزی پالیسی ساز کمیٹی تھی اور یہی کمیٹی انہیں ووٹ کے ذریعے اقتدار میں لائی تھی۔ گوربا چوف نے کئی نئی پالیسیوں کا آغاز کیا۔ داخلی محاذ پر ان پالیسیوں کو glasnost یعنی مشورے سے چلائی جانے والی کھلی پالیسیوں کا نام دیا گیا۔ خارجہ امور میں مسٹر گورباچوف کی اصلاحات کو نئی سوچ کا نام دیا گیا تھا۔ وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اپنی حکومت کے ابتدائی چھ برسوں میں گوربا چوف نے جو پالیسیاں اختیار کیں ان سے سوویت یونین ہی نہیں‘ تاریخ کا بھی رُخ بدل گیا اور سوویت یونین جیسی سپرپاور متعدد ٹکڑوں میں بٹ کر ختم ہو گئی۔ نریندر مودی نے جس طرح پڑوسی ممالک میں چھیڑ خانی کی پالیسی اختیار کی‘ دہشت گردی کو بڑھایا اور بھارت میں بسنے والی اقلیتوں کا ناطقہ بند کیا‘ جس طرح کی سیاسی پالیسیاں اپنائی ہیں ان کے نتائج ظاہر ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ اب مودی کے پاس دو ہی راستے بچے ہیں۔ ایک یہ کہ خود ہی بھارت کو توڑ کر نئی آزاد ریاستوں کا اعلان کر دیں بصورت دیگر آزادی کی تحریکیں جلد اپنا رنگ جمانے میں کامیاب ہو جائیں گی اور بُچر آف گجرات کی طرح گوربا چوف آف انڈیا کے طور پر بھی مودی کا نام ہمیشہ کالے حروف میں لکھا جائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں