"IYC" (space) message & send to 7575

سیکولر بھارت میں منہ زور ہندوتوا کا ننگا ناچ

بھارتی ریاست بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کی جانب سے ایک سرکاری تقریب کے دوران ایک مسلمان خاتون ڈاکٹر کا حجاب زبردستی اتارنے کی کوشش کے معاملے پر بھارت کی اپوزیشن جماعتیں انہیں آڑے ہاتھوں لے رہی ہیں۔ حزبِ اختلاف کی جماعت انڈین نیشنل کانگریس نے تو اس معاملے پر وزیراعلیٰ کے استعفے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ بھارتی اپوزیشن جماعت راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ نتیش کمار کی ذہنی حالت اب قابلِ رحم حالت تک پہنچ چکی ہے۔ اس واقعے بلکہ سانحے کو لے کر پاکستان میں بھی مختلف طبقہ ہائے فکر کی جانب سے شدید ردِعمل ظاہر کیا اور وزیراعلیٰ بہار کی اس حرکت کو نہایت بے ہودہ قرار دیا جا رہا ہے۔
کسی ملک یا ریاست کا سربراہ اس ریاست میں بسنے والے عوام کا ایک طرح سے باپ اور رہنما ہوتا ہے۔ نتیش کمار تو عمر کے حساب سے بھی ڈاکٹر نصرت پروین کے باپ کی عمر کا ہے۔ اسے ایسی قبیح حرکت کرتے ہوئے بہرحال سوچنا چاہیے تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ اب نتیش کمار کو پاگل قرار دیا جائے یا دماغ سے کھسکا ہوا‘ یہ کوئی جواز نہ ہو گا۔ اگر وہ دماغ سے اتنا ہی کھسکا ہوا ہے تو اسے ایک بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ کیوں بنایا گیا ہے۔ بنا ہی دیا گیا تھا تو اس واہیات حرکت کے بعد اس سے استعفا لے لینا چاہیے۔ بہار کے عوام نے اسے اپنا حکمران اس لیے نہیں بنایا کہ وہ لوگوں کی عزتیں اچھالتا پھرے۔
انسانی حقوق کا مطلب ہے کہ ہر انسان کو عزت‘ آزادی اور تحفظ کا حق حاصل ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کسی کو بلا وجہ چھونا‘ نقصان پہنچانا یا اس کی ذاتی حدود کی خلاف ورزی کرنا اس کے بنیادی حقوق کی پامالی ہے‘ خاص طور پر بغیر رضا مندی کے چھونا (جسمانی حملہ؍ تجاوز) قانونی اور اخلاقی طور پر غلط ہے۔ شخصی آزادی کا تصور ہر ملک اور معاشرے میں مختلف ہو سکتا ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ یہ ہر سماج میں موجود ضرور ہوتا ہے۔ اسلام میں شخصی آزادی کو ذمہ داری‘ اخلاقیات اور دوسروں کے حقوق کے احترام کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ مغربی دنیا میں یہ آزادی انسانی حقوق اور ذاتی ارادے کی بنیاد پر استوار ہے۔ بھارت میں شخصی آزادی سے کیا مراد ہے؟ کیا وہاں واقعی سب کو مذہبی اور سماجی آزادی میسر ہے؟ سب سے پہلے خود ہندو ازم میں شخصی آزادی موجود نہیں ہے۔ بھارت کا ہندوانہ ذات پات میں بٹا ہوا معاشرہ دوسرے مذاہب کے لیے کتنی رواداری کا مظاہرہ کر سکتا ہے؟ سقوطِ ڈھاکہ کے موقع پر سابق بھارتی وزیراعظم آنجہانی اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ آج ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں حجاب نوچنے جیسے واقعات‘ ہندوتوا کے ہاتھوں اقلیتوں کے حقوق کی ڈاکا زنی اور انسانی حقوق کی بدترین صورت حال ہر بار چیخ چیخ پر کر واویلا کر تے نظر آتے ہیں کہ دو قومی نظریہ گزشتہ صدی میں بھی اتنی ہی بڑی حقیقت تھا جتنی بڑی حقیقت آج ہے۔
دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بھارت میں سیکولر ازم ہے اور بھارت کا آئین تمام مذاہب کے لوگوں کو اپنی مذہبی روایات اور رسومات پر چلنے کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ انسانی حقوق کے کام کرنے والی این جی او ساؤتھ ایشیا فورم فار ہیومن رائٹس (South Asia Forum for Human Rights) کے سیکرٹری جنرل نے کچھ عرصہ پہلے غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ آئین نے تو حقوق دیے ہیں لیکن بھارتی حکومتیں آئین کے مطابق عمل نہیں کرتیں۔ انہوں نے بتایا کہ یوں تو بھارت میں آزادی کے بعد سے ہی ہندوتوا کی مبینہ فرقہ پرستانہ سیاست رہی ہے لیکن جب سے مرکز میں بی جے پی کی‘ خصوصاً نریندر مودی کی حکومت آئی ہے‘ اقلیتوں پر مظالم بڑھ گئے ہیں۔ ان کے بقول مسلمانوں اور مسیحیوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے خواہ وہ بیف کے نام پر ہو یا لَو (Love) جہاد کے نام پر۔ ان کا کہنا تھا ہے کہ 2014ء کے بعد سے‘ یعنی مودی کے حکومت میں آنے کے بعد سے یہ سلسلہ چل پڑا کہ مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر یہ دیکھا جانے لگا کہ کہیں وہ بیف تو نہیں کھا رہے۔ ان کے بقول آج بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے جان ومال‘ عزت وآبرو‘ تہذیب وثقافت اور مذہب سب خطرے میں ہیں۔ ایسے ماحول میں باپردہ‘ عصمت مآب خواتین کو بے حجاب کرنا بھی عام سی بات ہی ہو گی‘ لیکن انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کو پیشِ نظر رکھا جائے تو ایک خاتون کے ساتھ اس طرح کی دست درازی کوئی عام سی بات نہیں ہے‘ یہ ایک بہت بڑا جرم ہے۔
تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ اس واقعہ کے بعد پٹنہ سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر نصرت پروین‘ جنہیں حال ہی میں آیور ویدک محکمے میں تقرری کا لیٹر موصول ہوا تھا‘ نے حال ہی میں ملنے والی سرکاری ملازمت جوائن نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ان کے بھائی نے بتایا کہ اگرچہ خاندان کے تمام افراد‘ بشمول وہ خود ڈاکٹر نصرت کو فیصلہ تبدیل کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ تاہم وہ اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔ یہ تو ایک نصرت پروین کا معاملہ ہے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ بھارت میں بسنے والی دوسری مسلمان خواتین کتنی محفوظ ہیں؟
انسانی حقوق کمیشن رپورٹ‘ عالمی ادارے‘ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اور میڈیا رپورٹیں بتاتی ہیں کہ بھارت نسلی‘ مذہبی اور سیاسی جبر کا گڑھ بنتا جا رہا ہے جہاں مسلمانوں سمیت تمام اقلیتیں شدید خطرات اور ریاستی ظلم و جبر کا شکار ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام دہائیوں سے جبری گمشدگیوں‘ ماورائے عدالت قتل‘ تشدد اور بنیادی انسانی آزادیوں پر کڑی پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ بھارت بھر میں مذہبی اور نسلی اقلیتوں پر ظلم وجبر انتہائی سطح پر پہنچ چکا ہے۔ بی بی سی کے مطابق بھارتی مسلمان مودی دورِ حکومت میں اپنے مستقبل کے بارے میں شدید خوفزدہ ہیں جبکہ مودی کی بلڈوزر پالیسی کے تحت صرف گجرات میں سات ہزار سے زائد مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کیا جا چکا ہے۔ بُچر آف گجرات ایک بار پھر اسی خطے کے حقوق پامال کرنے میں مصروف ہے جہاں اس نے چند سال پہلے خون کی ہولی کھیلی تھی۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی گود میں بیٹھ کر مودی کی بی جے پی حکومت کا ہندوتوا کو بڑھانے کا منصوبہ جوں جوں تکمیل کی منازل طے کر رہا ہے‘ انسان اور انسانیت دونوں بے حجاب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ عالمی برادری کو بھارت میں جاری منہ زور ہندوتوا کا یہ ننگا ناچ کیوں نظر نہیں آتا؟ ان کی جانب سے مودی سرکار کے خلاف کیوں اقدامات نہیں کیے جاتے؟ چیخ چیخ کر انسانی اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیموں کے گلے بیٹھ چکے ہیں۔ کیا عالمی برادری کو ان کی آواز بھی سنائی نہیں دیتی؟ اور اب حجاب نوچنے کی وڈیوز بھی سب کچھ آشکار کر رہی ہیں کہ بھارت میں کوئی مسلم عورت‘ کوئی مسلم مرد محفوظ نہیں ہے۔ کیا عالمی برادری کو یہ سب کچھ دکھائی بھی نہیں دیتا؟ کیا اس سے بڑی دُرگھٹنا گھٹنے کا انتظار کیا جا رہا ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں