دبئی ایئر شو کے دوران بھارت کا ہوم میڈ جنگی طیارہ تیجس گر کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں پائلٹ بھی ہلاک ہو گیا۔ یہ بھارت کیلئے 17.44ارب ڈالر کا مالی جھٹکا تو ہے ہی‘ مودی سرکار کی ساکھ کو جو جھٹکا لگا ہے وہ اس سے شدید تر ہے۔ تیجس سنسکرت کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں شعلہ یا چمک؛ چنانچہ دبئی ایئر شو میں تیجس شعلوں میں تبدیل ہو گیا جس سے اچھی خاصی چمک پیدا ہوئی۔ حادثے کا شکار ہونے والا طیارہ 2016ء سے سروس میں تھا۔ دبئی ایئر شو کے دوران لڑاکا طیاروں کے مظاہرے کا سیشن شائقین کا پسندیدہ ترین ایونٹ ہوتا ہے لیکن بھارتی لڑاکا طیارے کو پیش آنے والے حادثے کے بعد یہ ایونٹ روک دیا گیا۔
چند روز قبل دبئی ایئر شو کے دوران بھارتی لڑاکا طیارے کی ایک وڈیو سامنے آئی تھی جس میں تیجس طیارے کے فیول ٹینک سے تیل لیک ہوتے دیکھا گیا تھا۔ وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ تباہ ہونے والا طیارہ وہی تھا جس کا فیول ٹینک لیک ہو رہا تھا یا کوئی اور طیارہ تھا‘ لیکن ایک بات طے ہے کہ بھارتی ایئر فورس کے ساتھ کچھ نہ کچھ مسئلہ ضرور ہے جو اس کے جنگی طیارے ایک کے بعد ایک گرتے چلے جا رہے ہیں اور پائلٹ ہلاک ہوتے جا رہے ہیں۔
سب سے پہلے تو میں انسانی ہمدردی کی بنا پر طیارے (چاہے وہ دشمن کا ہی سہی) کے تباہ ہونے اور پائلٹ کی ہلاکت پر بھارتی عوام کے ساتھ اظہار ِتعزیت کرتا ہوں کیونکہ میاں محمد بخش نے کہا تھا:
دشمن مرے تے خوشی نہ کریے سجناں وی مر جانا
ہماری جانب سے کوئی تنقید نہیں ہو رہی لیکن بھارتی میڈیا میں مودی حکومت اور اپنی ایئر فورس کے خلاف ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ بھارتیوں کی جانب سے اپنی فضائیہ پر شدید تنقید کی جا رہی ہے اور لوگوں کی جانب سے بھارتی ایئر چیف کے استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ایک بھارتی نے اپنی ایکس کی پوسٹ پر لکھا کہ یہ پوری دنیا کے سامنے بھارت کیلئے ایک بہت بڑی توہین ہے۔ ایک اور بھارتی شہری نے سوال اٹھایا کہ اگر ہمارے طیارے بنیادی ایروبیٹک سٹنٹ بھی نہیں کر سکتے تو یہ اس سے بھی بڑا سوال پیدا کرتا ہے کہ کیا ہمارے پائلٹوں کو ان طیاروں پر مناسب تربیت دی جا رہی ہے؟ یہ وہی سوال ہے جو میں نے سطورِ بالا میں اٹھایا ہے۔
پچھلے کچھ عرصے کے دوران پے در پے حادثات اور تباہی کی وجہ سے مگ 21طیاروں کو انڈیا نے خود اڑتے تابوت قرار دیا تھا اور امسال ستمبر میں بھارت میں ان طیاروں کا استعمال بند کر دیا گیا تھا۔ انڈیا کے روسی ساختہ مگ 21جنگی طیاروں نے ستمبر میں آخری بار اُڑان بھری جو بھارت کے پہلے سپر سونک لڑاکا طیارے کے دور کے خاتمے کی ایک علامت ہے۔ اب یہ طیارے کبھی نہیں اڑیں گے۔ حتیٰ کہ ٹریننگ کیلئے بھی استعمال نہیں ہوں گے۔ مگ 21طیاروں کو 1960ء کی دہائی میں بھارتی فضائیہ میں شامل کیا گیا تھا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ ان کی تعداد بڑھتے بڑھتے 874تک پہنچ گئی تھی لیکن پھر یہ گرنا اور تباہ ہونا شروع ہو گئے اور ان میں سے 482گر کر تباہ ہو گئے تھے اور باقی چار سو سے بھی کم بچے تھے۔ مگ 21طیاروں کے حادثوں میں 171بھارتی پائلٹ مارے گئے۔ مگ 21طیاروں کے گراؤنڈ کیے جانے سے ایک روز قبل مودی حکومت نے سوویت دور کے اپنے بحری بیڑے کو جدید بنانے کیلئے مقامی طور پر تیار کیے گئے 97تیجس جیٹ طیاروں کے حصول کیلئے سات ارب ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ فروری 2019ء میں پاک بھارت جھڑپ کے دوران بھی پاکستانی فضائیہ نے انڈیا کا مگ 21بائسن مار گرا کر وِنگ کمانڈر ابھینندن ورتھمان کو حراست میں لے لیا تھا۔
تیجس بھارتی دفاعی صنعت کا مقامی طور پر تیار کردہ لڑاکا طیارہ ہے جو سنگل سیٹر ڈیزائن پر مبنی ہے جبکہ بھارتی فضائیہ اور بحریہ دونوں اس کا ٹوئن سیٹر ٹرینر ویرینٹ بھی استعمال کرتی ہیں۔ تیجس چار ہزار کلوگرام تک اسلحہ اور آلات اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسے بھارت کی مقامی ایروناٹکس ٹیکنالوجی کی اہم پیش رفت سمجھا جاتا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ بھارت نے تیجس طیارہ دبئی کے ایئر شو میں مارکیٹنگ کی غرض سے بھیجا تھا کہ دنیا اس طیارے کے کمالات دیکھے گی تو ملکی استعمال کے ساتھ ساتھ اس کی بیرونِ ملک فروخت کی راہیں بھی کھل جائیں گی‘ لیکن مودی حکومت کا یہ خواب پورا نہیں ہو سکا۔ تیجس طیارے برآمد تو کیا ہوتے اب ممکن ہے بھارت کے اندر بھی ان کا استعمال ممنوع قرار دے دیا جائے کیونکہ مگ 21کی طرح تیجس بھی بھارتی پائلٹوں کیلئے اڑتے تابوت ثابت ہو رہے ہیں۔ بھارتی فضائیہ کے دیگر لڑاکا طیارے جیسے مگ 23‘ جیگوار اور ایس یو 30بھی مختلف ادوار میں حادثات سے متاثر ہوتے رہے لیکن ان کی تعداد مگ 21اور مگ 27کے مقابلے میں کم رہی۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ گزشتہ کئی برسوں میں ہونے والے متعدد حادثات کا تعلق تربیتی غلطی یا انسانی عوامل سے تھا جبکہ تکنیکی مسائل بھی ایک نمایاں وجہ رہے یعنی مندرجہ بالا سطور میں ایک بھارتی شہری نے بھارتی پائلٹوں کی تربیت کے حوالے سے جو سوال اٹھایا تھا وہ بالکل درست تھا۔
اس زمینی حقیقت کو کوئی تاریخ دان نظر انداز نہیں کر سکے گا کہ بر صغیر میں اسلحے کی دوڑ بھارت نے شروع کی تاکہ پڑوسی ممالک پر دھونس جما سکے۔ جنگی طیاروں کی خریداری بھی اسی جنون کا نتیجہ تھا۔ یہ دوڑ پینسٹھ‘ ستر برسوں سے جاری تھی لیکن پاکستان اور بھارت کے مابین طاقت کا توازن بہرحال قائم رہا۔ لیکن جب سے نریندر مودی نے بھارت کا سنگھاسن سنبھالا ہے یہ جنون اور یہ دوڑ تیز تر ہو چکی ہے۔ نریندر مودی ایک سدھائے ہوئے جانور کی طرح راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے ایجنڈے پر کام کرتے جا رہے ہیں اور اس بات سے بالکل بے خبر ہیں کہ دنیا انہیں کیا کیا نام دے رہی ہے۔ ہندتوا کے جنون نے ہی نریندر مودی کو Butcher of Gujaratقرار دلوایا اور یہ جنگی جنون اسی طرح قائم رہا اور اس کی شدت میں اسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب نریندر مودی کو Butcher of Jammu and Kashmir اور Butcher of India کا نام بھی دیا جانے والا ہے۔ عالمی برادری انہیں پہلے ہی بھارت کا میخائل گورباچوف (Mikhail Gorbachev) قرار دے رہی ہے۔ میخائل گوربا چوف کو تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔ وہی صاحب جن کی حکمرانی کے دوران سوویت یونین انتشار کا شکار ہوئی اور پھر اس کا خاتمہ ہو گیا۔
کیا بھارت کا بھی خاتمہ ہونے والا ہے اور اَکھنڈ بھارت کے بھی ٹوٹے ٹوٹے ہونے والے ہیں؟ جواب میں نہیں دوں گا۔ اس کا جواب بھارت کی چکن نیک (Siliguri Corridor) سے پرے واقع آٹھ بھارتی ریاستوں اروناچل پردیش‘ آسام‘ منی پور‘ میگھالیا‘ میزورم‘ ناگا لینڈ‘ تری پورہ اور سکم میں چلنے والی علیحدگی کی تحریکوں سے اور ان تحریکوں کو چلانے والوں سے مل جائے گا۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ نریندر مودی بھارت کو ہندتوا کی بھینٹ چڑھانے کے بجائے یہی پیسہ اپنے عوام کی فلاح اور بہبود کیلئے خرچ کرتے اور دہشت گردی کو بڑھانے کے اقدامات کرنے کے بجائے امن کا علم بلند کرتے۔ کاش ایسا ہوتا۔ ایسا ہوتا تو آج کا برصغیر موجودہ صورتحال سے الگ نوعیت کا برصغیر ہوتا۔