آپ نے انسانی حقوق کا عالمی منشور پڑھا ہے؟ پڑھا ہے تو ٹھیک! نہیں پڑھا تو میں آپ کو اس کی چیدہ شقوں سے آگاہ کر دیتا ہوں۔ انسانی حقوق کا عالمی منشور‘ یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس (UDHR) اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ وقار اور حقوق کے حوالے سے تمام انسان آزاد اور برابر پیدا ہوتے ہیں‘ انہیں استدلال اور ضمیر سے نوازا گیا ہے اور انہیں چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے کے جذبے سے پیش آئیں۔ یہ کہ ہر شخص کو اپنی جان‘ آزادی اور ذاتی تحفظ کا حق حاصل ہے۔ غلامی اور بردہ فروشی‘ چاہے اس کی کوئی شکل بھی ہو‘ ممنوع قرار دی جاتی ہے۔ کسی شخص کو جسمانی اذیت یا ظالمانہ‘ انسانیت سوز سزا نہیں دی جائے گی۔ ہر شخص کا حق ہے کہ ہر مقام پر قانون اس کی شخصیت کو تسلیم کرے۔ کسی شخص کی نجی زندگی‘ خانگی زندگی‘ گھر بار‘ خط و کتابت میں من مانے طریقے پر مداخلت نہیں کی جائے گی اور نہ ہی اس کی عزت اور نیک نامی پر حملے کیے جائیں گے۔ ہر شخص کا حق ہے کہ قانون اسے کسی بھی نوعیت کے حملے یا مداخلت سے محفوظ رکھے۔ ہر شخص کا حق ہے کہ اسے ہر ریاست کی حدود کے اندر نقل و حرکت کرنے اور سکونت اختیار کرنے کی آزادی ہو۔ خاندان‘ معاشرے کی فطری اور بنیادی اکائی ہے اور ہر فرد معاشرے اور ریاست دونوں کی طرف سے حفاظت کا حق دار ہے۔ ہر شخص کو اپنے ملک کی حکومت میں براہِ راست یا آزادانہ طور پر منتخب کیے ہوئے نمائندوں کے ذریعے حصہ لینے کا حق ہے۔ ہر شخص کو اپنے ملک میں سرکاری ملازمت حاصل کرنے کا برابر کا حق ہے۔ ہر شخص کو آرام اور فرصت کا حق ہے جس میں کام کے گھنٹوں کی حد بندی اور تنخواہ کے علاوہ مقررہ وقفوں کے ساتھ تعطیلات بھی شامل ہیں۔ ہر شخص کو اپنی اور اپنے اہل و عیال کی صحت اور فلاح و بہبود کیلئے مناسب معیارِ زندگی کا حق ہے جس میں خوراک‘ لباس‘ مکان اور علاج کی سہولتیں اور دوسری ضروری معاشرتی مراعات شامل ہیں اور بیروزگاری‘ بیماری‘ معذوری‘ بیوگی‘ بڑھاپا یا ان حالات میں روزگار سے محرومی جو اس کے قبضہ قدرت سے باہر ہوں‘ کے خلاف تحفظ کا حق حاصل ہے۔
یہ عالمی منشور کیوں مرتب کیا گیا؟ دنیا کو پُرامن اور انسانوں کے رہنے کے لائق جگہ بنانے کے لیے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ دوسری عالمی جنگ سے کروڑوں انسان متاثر ہوئے تھے۔ چھ سال جاری رہنے والی اس خوفناک جنگ میں مرنے والوں کی کل تعداد کا اندازہ سات سے ساڑھے آٹھ کروڑ افراد کے درمیان لگایا جاتا ہے۔ مرنے والوں میں پانچ سے پانچ کروڑ 60لاکھ فوجی اور عام شہری شامل تھے‘ یہ جنگ کی تباہ کاریوں کے براہِ راست شکار ہوئے تھے جبکہ اضافی ایک کروڑ 90لاکھ تا دو کروڑ 80لاکھ جنگ سے وابستہ بیماریوں اور قحط اور دوسرے عوامل کی وجہ سے بالواسطہ طور پر ہلاک ہوئے تھے۔ بلا شبہ جنگ کی ان ہولناکیوں اور تباہ کاریوں نے انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ انسان نے اپنے ہاتھوں سے خود کو تباہ کر لیا تھا۔ انسانی تاریخ کی اس سب سے ہولناک جنگ کے بعد بالآخر انسان یہ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں‘ بلکہ یہ مزید مسائل کو جنم دیتی ہے جیسے بھوک‘ افلاس‘ بیروزگاری‘ غربت اور روح تک کو گھائل کر دینے والے انسانی المیے۔ انسانی حقوق کا عالمی منشور اسی ثباتِ عقل کا نتیجہ ہے۔
10دسمبر 1948ء کو توثیق پانے والے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی منشور کو 77 برس کا عرصہ بیت چکا ہے تو میں بیٹھا یہ سوچ رہا ہوں کہ دنیا کے کتنے فیصد لوگوں کو اس عالمی منشور کے مطابق حقوق حاصل ہوئے ہیں؟ اس ڈیکلریشن میں پہلی مرتبہ ان حقوق اور آزادیوں کو صراحت سے بیان کیا گیا جن کا حق دار روئے ارض پر بسنے والا ہر انسان ہے لیکن کتنے لوگوں کو یہ حقوق اور یہ آزادیاں ان حقیقی معنوں میں حاصل ہیں جن کو پیشِ نظر رکھ کر عالمی منشور وضع کیا گیا تھا؟ میں کچھ اعداد و شمار پیش کیے دیتا ہوں‘ اندازہ آپ خود لگا لیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 828ملین یعنی 82کروڑ 80لاکھ افراد روزانہ بھوکے سوتے ہیں حالانکہ روئے ارض پر سال بھر میں اتنی خوراک پیدا ہوتی ہے کہ دنیا کی آٹھ ارب سے زائد آبادی دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھا سکے۔ عالمی سطح پر 42 فیصد لوگ صحت بخش غذا کے متحمل نہیں ہیں یعنی انہیں 24 گھنٹوں میں اتنی خوراک بھی نہیں ملتی کہ ان کی جسمانی ضروریات پوری ہو سکیں۔ اسی تناظر میں عالمی سطح پر ایک ارب لڑکیوں اور خواتین کو غذائیت کی کمی کا سامنا ہے جبکہ ہر سال نو ملین (90 لاکھ) افراد بھوک سے متعلقہ وجوہ کی بنا پر مر جاتے ہیں۔
جنگیں انسانی حقوق کو پامال کرنے کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ جنگوں کی وجہ سے لوگوں کے کاروبار تباہ ہوتے ہیں‘ انہیں اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ علاقوں کی جانب ہجرت کرنا پڑتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں خوراک کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اندازہ اس بات سے لگائیے کہ 2022ء میں یوکرین کے تنازع کی وجہ سے صرف تین ماہ میں شدید بھوک کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد میں 25 فیصد اضافہ ہو گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں جاری حالات پہلے سے زیادہ تشویشناک ہو چکے ہیں اور انسانی حقوق پہلے سے بھی زیادہ خطرات سے دوچار نظر آتے ہیں۔ جہاں ایک طرف پہلے سے ہی کشمیر‘ شام و عراق‘ یمن‘ لیبیا‘ افغانستان‘ سوڈان اور صومالیہ جیسے بے شمار خطوں میں انسانی حقوق کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے‘ وہیں یوکرین کی جنگ اور بعد ازاں غزہ میں فلسطین کی جنگ کے بعد مزید انسانی زندگیاں برباد ہونے اور لاکھوں افراد کے بے گھر ہونے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا پر ہجرت‘ خانہ بدوشی‘ بے سروسامانی‘ غربت و افلاس‘ بھوک مری اور دیگر خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر پر بھارت کے غیرقانونی قبضے کی وجہ سے 35 لاکھ سے زائد کشمیری آزاد جموں و کشمیر‘ پاکستان اور دنیا کے دیگر حصوں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے جبکہ بھارتی فوجیوں نے جنوری 1989ء سے اب تک 96 ہزار 278 کشمیریوں کو شہید کیا۔ ان میں سے 7322 کو دوران حراست وحشیانہ تشدد اور جعلی مقابلوں میں شہید کیا گیا۔
غزہ کے حالات اس سے بھی زیادہ گمبھیر اور خوفناک ہیں۔ سات اکتوبر 2023ء سے سات اکتوبر 2025ء تک‘ یعنی دو برسوں میں غزہ کی پٹی میں 67ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے۔ غزہ اتھارٹیز کے مطابق ان میں سے تقریباً ایک تہائی 18سال سے کم عمر کے افراد یعنی بچے اور نوجوان تھے۔ اقوام متحدہ کے سیٹیلائٹ سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں تقریباً ایک لاکھ 93ہزار عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں یا انہیں اتنی بری طرح نقصان پہنچا ہے کہ یہ رہنے کے قابل نہیں رہیں۔ اسرائیل کی طرف سے تقریباً 213 ہسپتالوں اور 1029سکولوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفکیشن سسٹم کے مطابق پانچ لاکھ 14ہزار افراد جو غزہ پٹی میں بسنے والے فلسطینیوں کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ بنتا ہے‘ قحط کا سامنا کر رہے ہیں۔
کالم کی کوتاہ دامنی آڑے آ رہی ہے ورنہ دوسرے انسانی حقوق کی صورتحال پر بھی تفصیلی گفتگو کی جا سکتی ہے۔ وہ جو کہتے ہیں مشتے نمونہ از خروارے‘ تو اسی سے انداہ لگا لیں کہ دوسرے انسانی حقوق کس حد تک پورے ہوئے ہوں گے۔ آج (روزِ تحریر) جب ہم انسانی حقوق کا عالمی دن منانے بیٹھے ہیں تو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ جب انسانی حقوق کی پوری طرح پاس داری ہو ہی نہیں رہی تو یہ دن منانے کا کیا فائدہ؟ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جنگیں ختم کر کے بات چیت کے ذریعے باہمی‘ علاقائی اور عالمی مسائل کا حل تلاش کیا جائے تو انسانیت کو صحت بخش خوراک سمیت تمام حقوق میسر آ سکتے ہیں۔ جنگ کے بعد بھی تو مذاکرات ہی ہوتے ہیں‘ یہی کام جنگ سے پہلے کیوں نہیں؟